• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زرداری خاندان اور نئے قانونی و سیاسی زاویئے/محمد اسد شاہ

زرداری خاندان اور نئے قانونی و سیاسی زاویئے/محمد اسد شاہ

سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کی دونو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کو دبانے کی غرض سے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962 کو ختم کر کے ایک نیا قانون “پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002” جاری کیا- اس قانون کے تحت ہر سیاسی جماعت کے لیے الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن لازمی، اور عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کو سیاسی جماعتوں کی سربراہی کے لیے نااہل قرار دیا گیا- یہ قانون بظاہر ٹھیک لگتا تھا لیکن خود جنرل پرویز مشرف نے آئین اور قانون توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تھا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھوا کر عدالتوں کو بھی اپنے قابو میں کر لیا تھا- پھر انہی عدالتوں کے ذریعے میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سزائیں سنائی گئیں- ان آمرانہ اقدامات کے جواب میں میاں صاحب نے اپنی جماعت کی سربراہی چھوڑ کر ڈاکٹر کلثوم نواز کو قائم مقام صدر مقرر کیا- پھر انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے مخدوم محمد جاوید ہاشمی کو باقاعدہ صدر بنا دیا گیا-

اس سے قبل مسلم لیگ نواز کو توڑنے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے ایک ہم خیال گروپ بھی بنوایا اور میاں محمد اظہر کو اس کا صدر مقرر کیا تھا- میاں اظہر کسی دور میں اپنے محلے کے کونسلر تھے لیکن جب مسلم لیگ نواز میں شامل ہوئے تو میاں محمد نواز شریف نے انھیں لاہور کا میئر، پھر ایم این اے اور آخر میں پنجاب کا گورنر بنا دیا- لیکن اتنی عزت افزائی کے باوجود میاں اظہر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے- جنرل پرویز نے انھیں مسلم لیگ نواز میں سے مزید لوگوں کو لوگوں کو توڑنے کی ذمہ داری سونپی- نیب کا ادارہ اور قوانین بناتے وقت بھی جنرل پرویز کے پیشِ نظر یہی مقصد تھا- خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے پر جنرل پرویز نے میاں اظہر کو ہٹا کر چودھری شجاعت حسین کو ہم خیال گروپ کا صدر بنا دیا- پھر اسی ہم خیال گروپ کو “مسلم لیگ قائد اعظم” کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنا کر الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ کروایا- اسی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کو مسلم لیگ ق کا بانی کہا جاتا ہے-

اس کے بعد مسلم لیگ نواز کا ڈیوس روڈ لاہور پر واقع مرکزی دفتر، اور انتخابی نشان سائیکل بھی جنرل پرویز نے اس نئی جماعت کو دلوا دیئے- بعد ازاں دفتر پر قبضہ کے حق میں پی سی او عدالتوں سے فیصلہ بھی حاصل کر لیا گیا- دوسری طرف بے نظیر بھٹو نے اپنی جماعت کی قیادت چھوڑنے کی بجائے جون 2002 میں “پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز” کے نام سے ایک نئی جماعت بنائی، انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے مخدوم امین فہیم کو اس کا صدر بنوایا اور الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن کروا لی- یوں نومبر 1967 میں بننے والی، ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی یعنی تھری پی 2002 میں رجسٹرڈ جماعتوں کی فہرست سے اس وقت خارج ہو گئی، جب اس کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو تھیں- چناں چہ 1999 کے بعد سے آج تک پارلیمان میں ذوالفقار علی بھٹو والی پیپلز پارٹی کی کوئی نمائندگی نہیں- اس پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول زرداری ہیں- البتہ 2002 سے اب تک پارلیمان میں موجود رہنے والی فور پی کے صدر آصف علی زرداری ہیں- اب تھری پی بھی رجسٹرڈ ہو چکی ہے اور اس کا انتخابی نشان تلوار ہے جب کہ فور پی کا نشان تیر-

2013 اور 2018 کے انتخابات میں فور پی اور تھری پی نے ایک اتحاد (الائنس) کے طور پر رجسٹریشن کروائی اور زرداری باپ بیٹے سمیت سب امیدوار دراصل فور پی کے نشان تیر پر منتخب ہو کر آئے- یہاں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ 2018 کے انتخابات میں تھری پی اور فور پی الائنس کی رجسٹریشن الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 215 اور بعض دیگر انتخابی قوانین سے متصادم تھی- لیکن الیکشن کمیشن نے ان پیچیدگیوں کو بوجوہ نظر انداز کر کے الائنس کو رجسٹرڈ کر لیا- اس فیصلے کے خلاف ایک امریکی پاکستانی شہری اقتدار حسین شاہ نے عدالت میں اپیل کر دی- مختلف عدالتوں سے ہوتا ہوا وہ مقدمہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پہنچ کر التواء کا شکار ہو گیا- شاید اسی وجہ سے الیکشن 2024 کے لیے اس دو جماعتی اتحاد کی رجسٹریشن کی درخواست اب تک نہیں دی گئی- لازمی ہے کہ الیکشن شیڈول جاری ہونے سے قبل تمام قانونی تقاضے پورے کر کے یہ اتحاد رجسٹرڈ کروایا جائے ورنہ آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کو الگ الگ انتخابی نشانات پر امیدوار بننا پڑے گا- کیوں کہ دونو افراد الگ الگ جماعتوں کے رکن اور سربراہ ہیں اور قانونی طور پر کسی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت کا رکن کسی دوسری جماعت کے ٹکٹ پر امیدوار نہیں بن سکتا-

Advertisements
julia rana solicitors london

اس پہ مستزاد یہ کہ گزشتہ ماہ ایک جلسہ عام میں بلاول نے بزرگ سیاست دانوں کو ریٹائرمنٹ کا مشورہ دے کر خود اپنے آپ کو وزیراعظم بنانے کی اپیل کر دی- لوگوں نے سوچا کہ شاید بزرگ سیاست دانوں سے مراد میاں محمد نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی وغیرھم ہیں- لیکن غور کرنے پر سب چونک گئے کہ زیادہ بزرگ سیاست دان تو پیپلز پارٹی میں ہیں جیسے آصف علی زرداری، سید قائم علی شاہ، نفیسہ شاہ، رضا ربانی، فرحت اللّہ بابر، نثار کھوڑو، خورشید احمد شاہ، فریال تالپور اور یوسف رضا گیلانی وغیرھم- بلاول کے اس عوامی بیان کے تین دن بعد آصف علی زرداری نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں عوام کو یاد دلا دیا کہ بلاول کی ابھی تربیت نہیں ہو سکی- اس کا سیدھا مطلب تو یہی تھا بلاول کوئی اہم سیاسی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہیں- اور ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ خود بلاول سمیت تمام امیدواران کے ٹکٹس پر دست خط کریں گے- اگلے ہی دن بلاول زرداری دبئی چلے گئے- ان کے پیچھے باقی سارا زرداری خاندان بھی پہنچ گیا اور امریکہ سے ان کی خالہ صنم بھٹو بھی آ گئیں- دبئی سے واپس آ کر جمعرات کو کوئٹہ میں باپ بیٹے نے مشترکہ جلسہ کیا تو یہاں پھر آصف زرداری صاحب نے فرمایا کہ وہ سب مل کر بلاول کی حمایت بھی کریں گے، تربیت بھی کریں گے اور اسے لیڈر بھی بنائیں گے- یعنی تربیت اور لیڈرشپ ہنوز مستقبل کے معاملات ہیں- میرے جیسے قلم کار تو انگشت بہ دندان ہیں، لیکن پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقے یقیناً ان قانونی معاملات اور سیاسی بیانات پر غور کر رہے ہوں گے-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply