رقص اردو زبان کا حصہ کب سے ہوگیا ؟۔۔سید عارف مصطفیٰ

  اردو زبان کو کوٹھے کی زبان بتانے اور سمجھانے کی ایک شعوری کوشش کی جارہی ہے اور اہل فکر و نظر کی زبانوں پہ تالے پڑے ہوئے ہیں ۔۔۔ اس بار بھی وہی ہوا جو کہ برسوں سے ہوتا چلا آرہا ہے کہ کراچی آرٹس کونسل والوں نے اپنی سالانہ اردو کانفرنس میں رقص کو بھی شامل کرنا ضروری سمجھا اور اس بار کی پانچ روزہ دسویں سالانہ کانفرنس میں تو اس کے دو سیشن رکھے گئے تھے کیونکہ ایک سیشن میں پہلے تو  پاکستان میں رقص کی صورتحال  کے جیسے نہایت”گھمبیر لسانی مسئلے” پہ معروف رقاصاؤں کا فصیح و بلیغ مذاکرہ ہوا پھر دوسرے سیشن میں ” رقص میں ہے سارا جہاں ” کے عنوان سے “وجد آفریں” محفل رقص سجائی گئی کہ جسے ملاحظہ کرنے “اردو زبان کے عبقریوں'”کا انبوہ موجود تھا اور شاید اگر یہ محفل نہ سجتی تو ایک بڑا نقصان ہوجاتا اور جدید عاشقان اردو جمالیاتی کم مائیگی کا شکار ہوجاتے ۔ لیکن وہ جو اردو کے سچے عاشق ہیں وہ سب اس تماشے سے بہت آزردہ ہیں اور بہت برہم ہیں ، اس لیے نہیں کہ وہاں عمر رسیدہ رقاصائیں کیوں نچائی گئیں کہ جن کے اس عمر میں محو رقص ہونے سے ان کے  جوڑ جوڑ کے کھل جانے اور ایک بھیانک منظر نامہ ابھرآنے کا خدشہ لاحق رہتا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ اس ناچ کود کو اردو زبان کی سراسر توہین باور کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ رقص تو اس زبان کی نہ کوئی صنف ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ذیلی شاخ یا عملی مظہر بلکہ یہ تو قطعی طور پہ ایک الگ شعبے یعنی فنون لطیفہ سے متعلق ہے اور اس کا اردو زبان و ادب سے کسی طرح کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔

رقص اگر اعضاء کی شاعری ہے توخدشہ ہے کہ بات کہیں “اعضاء کی ورزش'”تک نہ پہنچادی جائے ۔۔ اگر اردو زبان کی خدمت کے نام پہ ٹھرکیوں‌ کی تسکین کا یونہی انتظام کیا جاتا رہا اور کوٹھے سے وابستہ اس فن کو بکمال فریب اس طرح اردو زبان کے ایک پہلو کے طور پہ نمایاں ہونے سے نہ روکا گیا تو بھرپور خدشہ ہے کہ کہیں اگلے مرحلے میں کوٹھے پہ جاری رہنے والی وہ دیگر  “خصوصی سرگرمیاں” بھی آرٹس کونسل کے اس میلے کا حصہ نہ بنادی جائیں کہ  جو رقص کے علاوہ وہاں جاری رہتی ہیں اور پھر انہیں بھی ملاحظہ کرنے کے لیے ٹھرکیوں کے ذوق کی تسکین کا ایک اور خاص جمالیاتی پہلو نکل آئے ، کیونکہ چشم تماشہ تو بہرحال تسکین کے لیے  ہر آن انوکھا نظارہ مانگے ہے یہاں‌ ہم فنون لطیفہ کے مظاہر اور اجزاء کی بحث میں پڑنا نہیں چاہتے لیکن یہ  کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ زبان کے معاملات اور فنون لطیفہ کے پہلوؤں کو یکجا کرنے کا معاملہ یا تو بدنیتی کا ہے یا غلط مبحث کا ، لیکن اس سے کم ازکم زبان کے فروغ اور نمو پذیری کا معاملہ ہرگز قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس طرز عمل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس چال سے اردو زبان کے اسلامی پہلو اور صوفیانہ رنگ کو بتدریج ختم کرنا مقصود ہے –

احمد شاہ کا اندھا دھند لبرل ازم اس ضمن میں پہلے ہی ایسے متعدد الزامات کی زد میں ہے ۔۔۔ ابھی ماہ ربیع الؤل کی روح پرور ساعتوں‌میں عین بارہ ربیع الؤل کی مبارک ساعتوں‌والے ہفتے میں انہوں نے تین روزہ میوزک کانفرنس منعقد کرکے بھی اہل ایمان کو للکارا تھا جو کہ لبیک یا رسول اللہ تنظیم کے دھرنے سے پیدا صورتحال کے بعد کراچی میں ہونے والے دھرنے سے خائف ہوکے دوسرے روز شہر کے حالات کا عذر بتاکے مجبوراً ملتوی کر دی گئی تھی اور جس سے واضح ہوگیا تھا کہ  احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو اس شہر اور ملک کے عوام کی اکثریت کے مقدس جذبات سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔۔۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مرکز ثقافت کو کسی اور ہی رخ پہ ڈال دیا گیا ہے اور اسی بےڈھنگی چال پہ انکا اصرار دراصل مخالفین کے شبہات کو تقویت دینے کا سبب بن رہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کہنے کو تو وہ ٹیم بھی رکھتے ہیں لیکن سبھی واقفین حال جانتے ہیں کہ ان کی ٹیم محض برائے تکلف ہی ہے اور کسی میں ذرا دم خم نہیں کہ وہ خودسراحمد شاہ کو کسی غلط کام سے روکنا تو درکنار اس کا سوچنے کا تصور بھی کرسکے ، لیکن ہمیں کس نے روکا ہے کہ سچ بات نہ کہیں اور اسی لیے یہاں ایک بار پھر عرض کیے دیتے ہیں کہ ” رقص تو اردو زبان کی نہ کوئی صنف ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ذیلی شاخ یا عملی مظہر بلکہ یہ تو قطعی طور پہ ایک الگ شعبے یعنی فنون لطیفہ سے متعلق ہے اور اس کا اردو زبان و ادب سے کسی طرح کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔ لہٰذا براہ خدا اس عظیم زبان کو بخش دیا جائے جوکہ اپنے دامن میں عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ مواد رکھتی ہے اور جو سراسر اسلامی پہچان رکھنے والی دوسری بڑی زبان ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply