ربیع الاول ،ماہ مقدس یا ۔۔؟ منصور ندیم

ربیع الاول کا مہینہ  ، یہ مہینہ مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن   گزشتہ دو ماہ میں ہونے والے ختم نبوت دھرنے  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کے نام پر جو اودھم مچایا گیا ہے ، ہائے افسوس کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے آئے تھے  آج ان  کے نام لیوا یا دین کے چند ٹھیکیداروں نے جس طرح ان  کا مضحکہ اڑایا ہے کم از کم میرے نزدیک وہ قابل معافی نہیں ہے، دھرنے کا حاصل نتیجہ میں ہمیں گالیوں کی ایک نئی  لغت ملی، لاشیں ملیں، ۲۳ دنوں تک دو جڑواں شہروں کے ۶ لاکھ کے لگ بھگ افراد کو شدید تکلیف میں رہنا پڑا، ہزاروں لوگوں کے روزگار کے حصول کو نقصان پہنچا، کروڑوں روپے کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا  تمام حکومتی  اداروں کے اختیارات اور کنٹرول کی قلعی کھلی، اور تمام وزراء کو ہر فورم پر کلمہ پڑھ کر اپنے ایمان کی تصدیق کی ضرورت پڑی۔ایک دھرنے نے ملک بھر میں مزید دھرنوں  کی راہ ہموار کی اور ایک ہی مکتبہ فکر کے درمیان سیاسی اور اقتدار و اختیار کی دوڑ لگ گئی، اس دوڑ میں مولوی خادم حسین رضوی  اور  ڈاکٹر آصف اشرف جلالی کے درمیان اس جماعت کی سربراہی کے جھگڑے نے ان علماء کی اصل علمیت، اخلاص، اہلیت اور اصل حقائق سے پردہ بھی اٹھا دیا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے حضرات صحابہ کرام کی محبت  کسی ثبوت کی محتاج نہیں ، چشم فلک نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانباز و خدام و جانثاران جیسے صاحب کمال افراد نہیں دیکھے۔مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ” دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا، جیسا کے صحابہ کرام  رضوان اللہ اجمعین  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راہ حق میں   کیا، انہوں نے اس محبت میں وہ سب کچھ قربان کیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ میں وہ سب کچھ پایا   جو انسانوں کی کوئی جماعت ہوسکتی ہے۔”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے باوصف  ان حضرات کی زندگیوں سے کوئی ایک مثال ایسی پیش نہیں کی جاسکتی کہ عشق کی ورافتگی و سرمستی میں  وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہوں اور اظہارمحبت کے نت نئے انداز  وضح کرنے لگے ہوں۔ اطاعت کس طرح محبت کے بے محابانہ  اظہار کی راہ میں کھڑی ہوکر  حقیقی عشق کا ثبوت پیش کرتی ہے۔اس کی صداقت صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا حضرت انس فرماتے ہیں کہ ” ہمیں سیدنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ تھا، مگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ ہم جانتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں تھی”۔

دین کے لئے لازم ہے کہ شریعت ، احوال و کیفیات اور مابعد الطبیعات پر غالب اور حکم رہے۔مقصود شریعت رضاے حق کے اسباب میں  خلل اندازی سے محفوظیت ہے ۔ اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی محبت کے  علاوہ  تشریحی امور  میں مکمل اتباع و اطاعت کا نام ہی حقیقی  محبت ہوسکتا ہے، اسی لئے حضرات فقہا جو رمز آشنائے  شریعت ہیں ، فرما تے ہیں کہ ! التزام خواہ اعتقادی ہو یا عملی دونوں کے لئے اذن شریعت ضروری ہے۔

ایک مسلمان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  وابستہ  و متعلق اشیاء کا تذکرہ بھی  عین عبادت ہے ، خواہ ان کی ذاتی حیثیت کیسی ہی فروتر کیوں نہ ہو، دنیا کا کوئی بھی مسلمان خواہ اس کا تعلق کسی بھی مکتبہ فکر سے کیوں نہ ہو اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا  ذکر مبارک اور اس مقدس مہینے کا ذکر  باعث تسکین ایمان ہوگا ۔چونکہ یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے اور  مہینے میں ہم آنے والے وقت کے ساتھ ساتھ  نئے نئے تماشے بھی دین میں داخل کر رہے ہیں۔کیا یہ وہی جذبہ ذکر ولادت ہے جو اسلام کے مزاج اور روح کے ساتھ ہمنوا ہے؟

پوری سنجیدگی اور سچائی کے ساتھ کہا جاسکتا ہےکہ ہم صدیوں سے بزرگوں کے عرس اور میلے   کچھ اس انداز سے منانے کے عادی ہیں  اور غیر شعوری طور پر ہم نے عید میلاد النبی کو بھی ایسی تفریح تصور کرلیا ہے۔  یہ وجہ بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ بیان کی جاسکتی ہے  کہ جذبات کے اخراج کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ملنا چاہیے ۔اتنے بڑے ہجوم پر قابو پانا اور اسے نظم و نسق کا پابند بنانا ممکن نہیں ہوتا، تفریح کے بھوکے اور  ہاؤ ہو  کے  ذریعے جذبات کے  اخراج کے متلاشی لوگ اس موقع کو غنیمت جانتے ہیں اور اس قسم کی حرکتیں کر جاتے ہیں ۔لیکن ان تمام وجوہ کا تجزیہ کیا جائے  تو یہ سب  سمٹ  کر ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتی ہیں کہ صبح و شام اسلام کا غلغلہ بلند کرنے کے باوجود ہم  اپنے آپ کو اسلام کے مزاج کے مطابق منظم  نہیں  کر سکے۔ہم کلمہ طیبہ پڑھنے ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت پر قربان  ہو جانے کے  لئے  ہردم تیار رہنے  اور پورے فخر کے ساتھ سینہ تان کر اور اپنے آپ کو  اعلی امت اور مسلمان کہلانے کے باوجود  ان ذمہ داریوں اور فرائض کو نہیں سمجھ سکے  جو یہ دعوے اور جذبات ہم پر عائد کرتے ہیں۔

آج ۱۲ ربیع الاول  منانے کا تصور کیا جائے  تو ذہن میں  جو تصورات آتے ہیں وہ یہ ہے کہ سڑکیں بلاک کر کے رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس افراد کے جلوس ، ہلڑ بازی، کہیں کہیں بھنگڑے اور ڈانس، بجلی کی چوری سے لائٹیں لگائی جاتی ہیں۔ موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر ہٹا دیے  جاتے ہیں،  جدید نعتیہ محافل نے سیرت النبی  کی محافل کو ختم کردیا ہے۔تقاریب میں   بھی سیرت النبی سے زیادہ مسلکی اختلاف کے مباحث ہی نظر آتے ہیں۔ ورنہ تو آج کل ان عجیب و غریب نعت خوانوں کا دور آگیا ہے ، ایسے  ذرق برق لباس،  اور لگتا ہے جیسے کسی میک اپ سیلون سے تیار ہو کر آتے ہیں،  ان کے گوٹہ کناری والے لباس،  حجلہ عروسی کی دلہن کے لباس سے زیادہ بھڑکیلے اور  مہنگے ہوتے ہیں اور ان کے باقاعدہ ریٹ طے کیے  جاتے ہیں ایک پروگرام کے لئے۔ پھر انہوں نے اب جدید ساز بھی شامل کر لئے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ انڈیا کی تمام فلموں کے آئٹم گانوں کی دھنوں تک پر انہوں نے نعتیں بنا ڈالی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو بس  اس قوم  کا مستقبل  ان   نعت خوانوں  جیسا ہو گا جنہوں نے اپنی شعبدہ بازیوں سے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوئی کسر  نہیں چھوڑی اور عجیب عجیب نعتیں بنا کر ریٹنگ کا ایک تماشہ شروع کردیا ہے ۔جیسے “میں ہو ں قادری ، ٹن ٹن ٹنا  ٹن”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply