سیاست اور سیاستدان۔۔۔رانا اورنگزیب

میں کہ اک پاکستانی شہری ان شہریوں میں سے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ہم بھی انڈر ورلڈ ہیں کہ ہم نے غربت کی لکیر سے اوپر جھانک کے نہیں دیکھا۔میں وہی ہوں جو لکیر کے اوپر گھومنے والوںکو کہیں کچرا اٹھاتا نظر آتا ہوں تو کہیں کچرے کے ڈھیر سے چیزیں چن کے اپنے پاپی پیٹ کی آگ بجھاتا نظر آتا ہوں۔میں وہی ہوں جس کی تصویروں کو ہزاروں لاکھوں لائک اور کمنٹ سوشل میڈیا پر ملتے ہیں۔جس کی ویڈیو وائرل ہوتی ہے۔میں اپنی دنیا میں مست ہوں، مجھے کیا علم کہ سیاست کیا ہے سیاستدانوں سے مجھے کیا واسطہ۔میں وہی ہوں جو کسی کی فوتگی پر بھی روٹی مانگنے ہی جاتا ہوں۔جہاں بھی کھانے کی خوشبو پھیلتی ہے میں بھی وہاں پہنچتا ہوں مگر صاحب آپ ٹھہرے بڑے لوگ، مجھے روٹی تو نہیں دے سکتے گالیاں دھکے اور ٹھوکریں خوب دیتے ہو۔میری پھیلی  ہوئی جھولی میں ایک نان یا ایک پلیٹ بریانی تو نہیں ڈال سکتے مگر ہاں وہی کھانا سیروں کے حساب سے کوڑے دان میں پھنک دیتے ہو۔کھاتا تو اس کو پھر بھی میں ہی ہوں، ہاں بس فرق اتنا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک انسان بھی نہیں کھا سکتا جبکہ میرے ساتھ کتے بلیاں بھی بے تکلف کھاتے ہیں۔

صاحب جب میں ٹی وی چینلز پر بیٹھے دانشوروں کو ایک ایک بات پر جھگڑتے دیکھتا ہوں اپنے اپنے مالکوں کا دفاع کرتے سنتا ہوں تو مجھے اپنے ساتھ شامل کھانا کھاتے کتے ان سے نہ جانے کیوں بہتر لگتے ہیں۔میں سوچتا ہوں مسئلہ تو ہڈی کا ہی ہے کتوں کے آگے پھینکی جانے والی ہڈی تو کتوں کی مشترکہ ہوتی ہے وہ اس لیے لڑتے ہیں اور طاقتور لے اڑتا ہے مگر قلم اور ضمیر فروشوں کو تو سونے کی تھالی میں ہڈی سرو(serve) کی جاتی ہے پھر یہ کیوں لڑتے ہیں۔
یہاں نام بڑے اور درشن چھوٹے والی مثال صادق آتی ہے ۔کتنے بڑے بڑے نام ہیں کیسے عظیم لوگ ہیں کہ جن کی صحافت کا زمانہ معترف ہے مگر وہ اپنے اصول ضابطے سب بھلا کے بس پیسے اور مراعات کے پیچھے بھاگتے ہیں۔چور کو ولی بنانے والے اولیاء اللہ تو کب سے پردوں پیچھے چھپے۔ اب تو ولی بھی دانشوروں کے بنانے سے بنتے ہیں قطب ابدال کا منصب بھی اینکرز کے ہاتھ سے تفویض ہوتا ہے۔چاہیں تو کسی تیسرے درجے کے غنڈے گلوبٹ کو ہیرو بنا دیں۔ چاہیں تو ایدھی جیسے محترم بزرگ کی سفید داڑھی میں کرپشن چھپا دیں۔۔چاہیں تو عافیہ صدیقی کو قوم کے ذہنوں سے محو کردیں۔۔ چاہیں تو قندیل بلوچ کو عورتوں کیلیے رول ماڈل ثابت کردیں۔جامعہ حفصہ کی طالبات کو دہشت گرد اور ملک کے لیے خطرہ بنا کے پیش کریں یا ایان علی جیسی ڈاکورانی کو دلوں کی مہارانی بنا دیں
چاہیں تو میٹرو بس اورنج لائن ٹرین کو ملک و قوم کی ترقی اور غربت کے خاتمے کا سنگ میل ثابت کردیں ،چاہیں تو سکولوں ہسپتالوں کو قوم کے لیے زہر قاتل ثابت کردیں۔میرا مسئلہ سی پیک نہیں ہے کیونکہ سی پیک مجھے روٹی نہیں دے سکتا۔میرا مسئلہ اورنج ٹرین میٹروبس بھی نہیں۔موٹروے ملک کے لیے ضروری ہوسکتی ہے مگر میرے لیے موٹروے ایک عام سی سڑک ہے جس پر اناج نہیں اگتا۔۔مجھے اپنے والدین کے لیے علاج کی ضرورت ہے، بچوں کے لیے سکول کی۔ اپنے لیے روزگار کی ضرورت ہے۔اس ملک میں سینکڑوں منصوبے بناۓ گئے کہیں سستی روٹی دی گئی تو کہیں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا گیا۔کبھی ہاریوں کو زمین دینے کی بات ہوئی تو کہیں نوجوانوں کو قرضے دئیے گئے۔مگر مجھ تک کوئی چیز بھی نہ پہنچ سکی ۔میرا مقدر میرے رب نے ایسا نہیں لکھا ہاں مگر ان سیاستدانوں نے آمروں نے اسٹیبلشمنٹ نے اور بیوروکریسی نے ، میرے مقدر کی سیاہی میں اضافہ ان ارباب اختیار کی ہی دین ہے۔مجھے کوئی قلم کار سمجھانے آۓ، کوئی دانشور کوئی وزیرخزانہ کوئی فلسفی میری بھوک کا علاج کردے، مجھے بتایا جاۓ کہ میرے جسم میں ایسی کونسی چیز کی کمی ہے جو میری زندگی کی چند سانسیں بھی آسان نہیں ہورہیں۔کوئی بتا سکتا ہے کہ حکمرانوں کی اولاد ،ایسی کونسی خوبیاں لے کے پیدا ہوتی ہے جو میرے بچوں میں نہیں ہیں؟؟ جس کی وجہ سے وہ دنیا کی ہر آسائش حاصل کرتے ہیں جبکہ میرے بچے کوڑے دان سے پیٹ بھرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اے عقل مندوں کے گروہ۔ اے ارباب دانش کیا تمھاری دانش غریب کی بھوک کا کوئی حل پیش کرنے کے قابل ہے؟
بڑے بڑے میڈیا ہاوسز میں پروگرام کرنے والو مشہور اخباروں کے صفحات کالے کرنے والو سیمینارز کانفرنسز میں خطاب فرمانے والو کبھی اس پر بھی غور فرما لینا کہ پاکستان صرف زرداری ،عمران خان نوازشریف کا ہی نام نہیں بلکہ پاکستان اس میں بسنے والے بیس کروڑ لوگوں کا نام ہے۔اس ملک میں بسنے والے ہی پاکستان ہیں۔کلثوم نواز کی بیماری عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ روتی بلکتی ہسپتالوں کے گندے فرش پر دم توڑتی زندگی پاکستان کا مسئلہ ہے۔بلاول آصفہ حسین نواز حسن نواز مریم پاکستان نہیں بلکہ وہ تو پاکستانی بھی نہیں ،سالانہ ڈھائی کروڑ سکول سے باہر رہنے والے بچے پاکستان بھی ہیں اور پاکستانی بھی۔موٹروے سی پیک گوادر پورٹ پاکستان کے مسائل نہیں بلکہ کوڑا چنتے بچے بھوک سے نڈھال بزرگ آواره گردی کرتے بیروزگار نوجوان پاکستان کا مسئلہ ہیں۔بھارت سے دوستی دشمنی پاکستان کا حقیقی مسئلہ نہیں دریاٶں سے خشک ہوتا پانی میرا اور میری قوم کامسئلہ ہے۔

بڑھتی آبادی اس ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ سکڑتی معیشت اس ملک کا حقیقی مسئلہ ہے۔آمریت یا جمہوریت اس ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ بد دیانتی اور اقربا پروری اصل مسئلہ ہے۔کیا کوئی دانشور ان حکمرانوں کو ،اسٹیبلشمنٹ کو بیوروکریسی کو بتاۓ گا کہ 2015 سے چار روپے یونٹ بجلی کی قیمت بڑھانے سے مجھ پر کیا گزرے گی۔جو لوگ اپنے بچوںکو سرکاری سکول بھی اس لیے نہیں بھیجتے کہ ان کے پاس کتابیں کاپیاں یونیفارم وغیرہ خریدنے کی طاقت نہیں جو پنشنرز اپنی ماہانہ دوائی بہت مشکل سے خرید پاتے ہیں۔جو مزدور چولہا جلانے کے لیے اپنے ہی بچوں کا بچپن بطور ایندھن جلاتے ہیں وہ ماہانہ بجلی کا اضافی بل کہاں سے دیں؟ن لیگ کی گڈ گورننس کے گن گانے والے میاں صاحب کو ولیء کامل بتانے والے میاں نوازشریف اور شہباز شریف کی حکومت میں معیشت کی ترقی کو تاریخ کی بلندترین سطح پر بتلانے والے عوام کو سمجھا سکتے ہیں کہ جو معیشت ترقی کرکے آسمان کو چھو رہی تھی وہ بجلی کی قیمت بھی اعتدال پر نہ رکھ سکی؟
سینکڑوں ارب روپیہ بجلی کے بلوں میں بطور اضافی ٹیکس وصولنے والے اسحاق ڈار وضاحت کریں گے کہ 8ماہ میں 183 ارب سے بھی زیادہ روپیہ عوام سے وصول کرکے کس نئے منصوبے میں،کس مد میں خرچ کیا گیا؟آپ قلم بیچ دیں یا اپنی دانشوری کی قیمت وصول کریں۔آپ نوازشریف کو فرشتہ ثابت کریں یا زداری کو نیلسن منڈیلا کہتے رہیں۔آپ مولانا فضل الرحمٰن کو منجھا ہوا سیاستدان بتائیں یا عمران خان کو نجات دہندہ کہیں۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ میری کوئی راۓ نہیں ہے۔یہ کرپٹ حکمران ،یہ ظالم بیوروکریسی یہ خون چوستی اسٹیبلشمنٹ میرا انتخاب نہیں ہے۔بلکہ یہ مجھ پر مسلط شدہ بلائیں ہیں جو میرے حصے کا رزق کھا کے میرے حصے کی زندگی بھی خود ہی جی رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو میرے بچوں کو میری نسلوں کو برباد کرنے پر تلے ہیں مگر میری بے بسی ہے کہ میں ان سے جان نہیں بچا پا رہا۔میرے آباواجداد کی گردن میں ان کی غلامی کا جوا ڈالا گیا جو نسل در نسل میری گردن سے ہوتا ہوا میرے بچوں کی گردن ناپنے کے درپے ہے۔مگر ہر مسئلے کا حل بتانے والوں کی عقل اس مسئلے کے حل میں بانجھ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جن کی جنبش قلم سے تخت نشینوں کے نیچے تخت ہلنے لگتا ہے ان کے قلم میرے بارے خاموش کیوں؟جن کی خطابت کا شہرہ چاردانگ عالم  میں ہے انکی زبانیں میرے حق میں لفظ کیوں نہیں کہتیں؟میرے ہی نام پر لاکھوں ڈالر ڈکار جانے والی این جی اوز میرے حق میں کیوں باہر نہیں نکلتی؟میں وہ ہوں جو اپنا خون بطور ٹیکس ریاست کو ادا کرتا ہوں میں وہ ہوں جو ان زرداروں کی تجوریاں بھرتا ہوں مگر مجھے میرے ہی دیے ہوۓ پیسے سے یہ لوگ بھیک بھی نہیں دیتے۔سرحد پر کٹ جانے والے بچے بھی میرے۔شہر میں لہو لہو لاشیں بھی میری۔کارخانوں میں اپنی جوانی لٹاتے بچے بھی میرے ۔دشمن مارے تو بھی لاش میرے ہی گھر آتی ہے اپنے ماریں تو بھی لاش کا وارث میں ہی ہوتا ہوں۔مگر جب بات کچھ ملنے کی آۓ تو مجھے اپنے ہی ملک میں اپنی شناخت نہیں ملتی۔بقول شاعر
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ابھی کل کی بات ہے فرمان جاری ہوا کہ ہم پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ہم برطانوی شہری ہیں مگر میری بے بسی و بے کسی کا عالم دیکھیے کہ میں تو زبان حال سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ
اے میرے ہم نشین چل کہیں اور چل
اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply