دسمبر/حسان عالمگیر عباسی

ماضی کے جھروکوں سے کشیدگیاں بلکہ کشید کاری مطلب استخراج بہت زبردست پراسیس ہے۔ پھرتے چلتے کبھار کبھی ذہن میں ایسی سوچیں ابھرنے امڈنے لگتی ہیں یہ دل ‘دل مانگے اور’ کا قائل قوال ہونے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں دسمبر بہت پھیکا ہوتا جا رہا ہے لیکن ماضی قریب یا بعید میں یہ دسمبر شاید ہی رائیگانی کی تصویر بنا ہو۔ یہ دسمبر رقص کیا کرتا تھا کیونکہ یہ مستند برفانی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ابھی کا دسمبر بھلے پھیکا سہی لیکن اوائل میں کبھی بھی ‘اونچی دکان پھیکا پکوان’ کا فتویٰ اس پہ صادر نہ ہوا ہونا ہے کیونکہ ایک سرگرمی منعقد ہوتی تھی جب پکوان تلے جاتے تھے۔ پکوان تو اب بھی مل جاتے ہیں لیکن وہ پکوان خوش ذائقہ ہوتے تھے۔ خوش ذائقہ تو شاید اب بھی مل جائیں لیکن وہ خوشبوؤں سے بھرپور ہوتے تھے۔ خوشبودار تو اب بھی مل جاتے ہیں لیکن تب ہر پکوان کی اپنی خوشبو ہوا کرتی تھی۔ ممکن ہے اب بھی ہر پکوان کی خوشبو الگ تھلگ ہو لیکن خوش رنگی تب کی بات ہے۔ رنگین پکوان بھی شاید میسر آ جائیں لیکن یہ بات اپنی جگہ مستحکم ہے کہ تب کی بات تب تھی اب ممکن نہیں ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب کی بات اب ہے جو تب ممکن نہ تھی۔ آج ہی دسمبر کے احترام اور اسی توسط سے پکوڑے نصیب میں آئے جنہیں چگتے ہوئے گپ شپ بھی ہوئی۔ گپ شپ ہی ہونی چاہیے۔ موضوع تھا کہ آج کل کیسے انسان کتوں کو کاٹ رہے ہیں حالانکہ پہلے والے دسمبر نومبر اکتوبر جون جنوریوں میں کتے ایسا کیا کرتے تھے اور کیسے دنیائے امن و تہذیب کے نام نہادی ستم کا بیج بو کر مظلومیت بر مبنی گروہ تیار کر رہے ہیں!

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply