دریا ضروری ہیں یا ایمان؟-یاسر جواد

ہندوستان نے اپنے پنجاب اور جموں کی سرحد پر شاہ پور کنڈھی بیراج بنایا ہے اور پاکستان کے دریائے راوی میں آنے والا پانی بالکل روک دیا گیا ہے۔ اس بیراج کا سنگ بنیاد 30 سال پہلے نرسمہا راؤ نے رکھا تھا۔
پاکستان کے لیے یہ ہرگز لمحہ ءفکریہ نہیں۔ ہمارے جو لمحاتِ فکریہ ہیں وہ کچھ اور قسم کے ہیں، مثلاً 9 مئی۔ بلکہ ہمیں تو راوی کے خشک ہو جانے سے کئی قسم کے فائدے ہوں گے۔ پاکستان میں راوی پر پُلوں کا خرچہ بچے گا۔ راوی کی گزرگاہ میں ایک نیا ’’ڈی ایچ اے راوی‘‘ بھی بن سکتا ہے۔ پھر راوی کے بیلوں میں سے درخت کاٹے جائیں گے۔ ٹول پلازوں کی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
لاہور کی نہر بھی راوی میں سے ہی نکلتی ہے۔ یہ لارنس باغ کو سیراب کرنے کے لیے لعنتی انگریزوں نے نکالی تھی۔ اس سے پہلے لاہور کی مٹی کنکر قسم کی تھی جسے کڑاہوں میں اُبال کر شورہ تیار کیا جاتا تھا اور بارود بنتا تھا۔ اب نہر بھی رک جائے گی، اور ہر طرف شورے تیار ہوں گے۔ یہ نہر ٹھوکر نیازبیگ پر آ کر مڑتی ہے، یعنی وہاں اِسے ٹھوکر لگتی ہے، اور پھر پھول نگر کے قریب جا کر واپس دریا میں ملتی ہے۔ سو نہری کا پانی بند ہونے پر یہ سب نظام ختم ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ نہر کی گزرگاہ میں کوئی ٹرین یا میٹرو سروس چلانے کا منصوبہ سوچا جا چکا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب راوی ایک گندا نالا بن جائے گا۔ لاہور کی فیکٹریوں اور سیوریج کا گندا پانی بھی آخر کہیں جانا ہے یا نہیں؟ ہمیں اِن سب تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ستلج اور بیاس بھی تو خشک ہوئے۔ کون سی قیامت آ گئی؟ اب راوی خشک ہو گا، پھر چناب اور جہلم کی باری آئے گی۔ اٹک کے قریب دریائے سندھ میں ملنے والا دریائے کابل بھی شاید کچھ عرصے بعد روک لیا جائے گا۔ اور سندھ؟ مگر دفع کریں، ان باتوں پر پریشان ہونے کا کیا فائدہ۔ ہمیں بس ایمان کی قوت چاہیے، دریا جائیں بھاڑ میں!

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply