خدا آزمائش میں ڈالتا ہے/ثاقب الرحمٰن

میں نے ایک عجب دروازہ دیکھا جس سے آدمی نکلا۔ اس نے مجھ سے بات کی تو معلوم ہوا وہ مصر سے ہے اور اندازاً دو ہزار قبل مسیح سے آیا ہے۔ اس نے مجھ سے میرے زمانے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا سائنس نے ترقی کی ہے اور انسان آزاد ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نے ساتھ وقت گزارا جب اس کی عبادت کا وقت آیا تو اس نے کہا ہورس اور اوسائرس کہاں ہیں؟ میں نے کہا وہ عجائب گھروں کی شان ہیں ۔ اسے دکھایا تو وہ رو پڑا۔ اسے اپنے خداؤں کے اکیلے پن اور ناقدری پہ بہت ترس آیا۔ وہ واپس اس دروازے کی طرف بھاگا اور اندر غائب ہو گیا۔

کچھ دن بعد پراسرار دروازے سے ایک اور شخص نکلا۔ وہ یونان سے تھا اور قریباً ہزار برس قبل مسیح سے آیا تھا۔ اس کی وضع قطع مناسب تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ کیسے اس کے زمانے کے فلسفی آج تک مانے جاتے ہیں۔ کیسے موجودہ دور میں تسبیح کے دانوں سے زیادہ ڈیجیٹل gadgets کا استعمال ہوتا ہے۔۔ اسے ترقی کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی۔ پھر اس نے اپنے خداؤں زیوس اور ایفروڈائٹی کے بارے میں پوچھا۔ میں نے اسے مجسمے دکھائے جو پیرس کی سڑکوں اور یونان کے عجائب گھروں میں موجود تھے اور گزرتے لوگ ان مجسموں سے بےنیاز تھے، کچھ سیلفی بناتے تھے اور خداؤں سے تفریح کا کام لیتے تھے۔ اس سیاح کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہنے لگا تم لوگ خداؤں کی قدر نہ کر سکے جبکہ ہم نے انہیں پلکوں پہ بٹھایا تھا۔ ہم نے ان کی حفاظت کی خاطر جنگیں لڑیں خون بہایا اپنے رشتے ناطے توڑے دوستیاں خراب کیں اور تم نے ان کی تذلیل کی۔ وہ مجھ سے ناراض ہوا اور دروازے سے واپس چلا گیا۔

یہ بہت حیرت انگیز دروازہ تھا۔ میں نے سوچا اس سے گزر کر ماضی میں جھانکا جائے۔ میں داخل ہوا تو عجیب دنیا دیکھی۔ حیرانی سے چلتی اور اڑتی مشینیں دیکھتا رہا۔ سڑک کنارے سکرین نصب تھی اس پر انگلی رکھی تو سکرین سے چہرہ ابھرا۔ اس نے بتایا کہ میں دو ہزار سال آگے آ گیا ہوں۔ آگے بڑھا اور ایک انسان سے دوستی کر لی۔ اس نے میرے زمانے کے لوگوں کی تعریف کی جنہوں نے پہلی مشین میں بجلی کی مدد سے جان ڈالی۔ اس نے بتایا کہ ان کمپیوٹرز نے انسان کی پیدا کردہ ماحولیاتی آلودگی کا حل نکالا اور دنیا بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ مغرب کا وقت قریب آیا تو میں نے مسجد کا پوچھا۔ وہ مسکرایا اور میری آنکھوں پہ ایک چشمہ لگا دیا۔ میں نے ویٹیکن دیکھا، گولڈن ٹیمپل دیکھا، ہری دوار اور مکہ مدینہ دیکھا۔ ان سبھی جگہوں پر فوڈ سٹریٹ اور میوزیم تھے۔ تفریح کے سامان تھے۔ میں نے فوراً چشمہ اتار پھینکا۔۔

اس شخص نے کہا کہ یہی خداؤں کی تقدیر اور destiny ہے۔ جب تم سے چار ہزار اور دو ہزار سال پہلے کے مذاہب ختم ہوئے اور entertainment بن کر رہ گئے تو تمہارے زمانے میں ایسا کیا الگ تھا؟ بڑے ٹائم فریم میں دیکھو، سبھی خدا قلیل وقتی ہیں اور فانی ہیں۔ تمہیں یہ سب برا لگ رہا ہو گا مگر میں ویسا ہی پرسکون ہوں جیسے تم مصری اور یونانی سیاح کے سامنے پرسکون تھے۔
نہ اُن دونوں کے افسوس کا کوئی حاصل تھا۔ نہ تمہارے اس افسوس کا کوئی حاصل ہے۔ بہتر یہی ہے کہ واپس جاؤ، اپنے زمانے اور زندگی کو بہتر کرو۔ اپنے گھر والوں پر رحم کرو اور وہاں وقت برباد نہ کرو جہاں تم سے پچھلے لوگ کر چکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی اور واپس بھاگ کر اس دروازے سے اپنی دنیا میں آ گیا۔۔۔ مالک کا شکر ادا کیا اور سجدہ تعظیم بجا لیا۔
یہی سوچ کر مطمئن ہوں کہ کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اور رب عظیم اپنے بندوں کی آزمائش کے لئے اکثر ایسے دروازے بنا دیتا ہے۔۔

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply