حکومت ، فوج اور غیر ذمہ دار اپوزیشن۔۔گل بخشالوی

وزیراعظم عمران خان   کہتے ہیں کہ مافیاز کی خواہش ہے وہ فوج سے کہہ رہی ہے کہ ،حکومت گِرا د و ‘ جانتا ہوں کہ تبدیلی کا راستہ انتہائی کٹھن ہے‘کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ ہے اور نہ ہی کوئی پرچی پکڑ کر لیڈر بن سکتا ہے ۔ تسلیم کرتا ہوں جب حکومت ملی تو ہماری ٹیم ناتجربہ کار تھی‘ ادائیگیوں کے حوالے سے ملک دیوالیہ ہونے والا تھا ‘اگر سعودی عرب ‘متحدہ عرب امارات اور چین مددنہ کرتے تو روپے کی قدرمزیدگرجاتی ‘تین سال مشکل وقت گزارا ‘ اس دوران تعاون کرنے پر بالخصوص پاک فوج کا شکر گزار ہوں‘آ ج زرمبادلہ ذخائر 29ارب ڈالر کی سطح پر ہیں ‘4700ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جارہاہے ۔لوگ خوشحال ہورہے ہیں ‘ یہ اعدادوشمار اسحاق ڈاروالے نہیں بلکہ اصل ہیں۔یہ تاثردیاجارہاہے  کہ طالبان پاک فوج کی وجہ سے جیتے۔یورپ کو افغانستان میں صرف خواتین کی فکر ہے‘ افغانستان کی تین لاکھ فوج نے صرف اس لئے طالبان کے سامنے ہتھیارڈالے کیوں کہ ان کی حکومت کرپٹ تھی ‘طالبان امن کی بات کررہے ہیں ‘ عالمی برادری کو ان کی مددکرنی چاہیے۔

پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ممبران کو جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی موجودگی میں پاکستان، کشمیر اور افغانستان کی زمینی صورت حال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مغربی سرحدی زون کی مینجمنٹ کے لیے بروقت اقدامات کی وجہ سے پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہیں اور ’ہم ہر طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ‘بریف’ (آگاہی) فوجی قیادت کی ان مجموعی کوششوں کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو درپیش سلامتی اور خارجہ پالیسی کے اہم معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ ‘فوجی قیادت بالخصوص بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تمام سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دے چکے ہیں لیکن پاکستان کی اپوز یشن کو کون سمجھائے ، جو اسلام آباد پر قبضے کے لئے بے چین ہے ، انہیں نہ تو پاکستان کی فکر ہے نہ افواجِ پاکستان کی اور نہ قومی استحکام کی ۔ اگر یہ لوگ پاکستان اور پاکستان کے عوام سے مخلص ہوتے ، تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی یہ بات ہو سکتی تھی لیکن خلائی مخلوق ان کو ان کے کردار اور قول و فعل میں پرکھ چکی ہے ان کو پارلیمنٹ کا احترام تو کیا اگر عدالت کے احترام کا بھی علم ہوتا تو اپوزیشن کی مریم نواز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کی دیر سے شاہانہ آمد اور اونچی آواز میں سلام پر عدالت یہ نہ کہتی کہ ان کو یہ بھی علم نہیں کہ عد ا لت میں کیسے آیا جاتا ہے اور عدالت کا احترام کیا ہے ۔

در اصل یہ لوگ دور ِ حکمرانی میں  اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر ہیں ، یہ صرف حکمران رہنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد اور ایجنڈا نہیں۔ کہتے ہیں اب اسلام آ باد کی طرف مارچ ہوگا،جلسے ہو ں گے روڈ کارواں بھی ہوگا، انقلاب کے سوا کوئی راستہ نہیں معاشر ے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،بنی گالا میں بیٹھے ہوئے شخص کو کیا معلوم غریب کی حالت کیا ہے ، حکومت کو دفن کرنے کیلئے لاکھوں افراد اسلام آ باد جائیں گے، ووٹ چوری نہ ہو تو ملک مضبوط ہو گا، اگر آئندہ انتخابات میں سابقہ عمل دہرایا گیا تو بغاوت ہو گی ، لیکن انتخابی اصلاحات اور قانو ن سازی کے خوف سے بھاگ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کا فیصلہ ہے کہ 2023 کے انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے ہوں گے‘چاہے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا پڑے،انتخابی اصلاحات پر قانون سازی کر کے رہیں گے‘ قانون سازی کاعمل اسی سال مکمل کیاجائے گا‘قانون میں ترمیم کرلیں گے ‘الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا نمونہ حکومت نے نہیں ہمارے قومی اداروں نے بنایا ہے‘ جعلی ووٹ بنوانے والوں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا خوف ہے۔سینیٹ کے ووٹوں کی خریداری روکنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، جن لوگوں نے شفاف الیکشن لڑنا ہے ان کو دھاندلی کا کوئی خوف نہیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں شفاف اور غیرجانبدارانہ الیکشن کی حامی ہیں نہ ہی اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply