حسین ،تقدس اور تاریخ کی بحث۔۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

بعض لوگ اہلِ بیتِ رسول ﷺکے معاملے کو معروضی انداز سے دیکھنے یا لائیٹ سمجھنے سمجھانے کے شوق میں، یا اپنے غیر جذباتی پن کی مشہوری کے لیے کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہماری تاریخ پر شیعیت کے اثرات ہیں۔ یعنی یہ بس شیعوں کی مہربانی ہے کہ اہلِ بیت کی محبت اور واقعہ کربلا کے غم کا کہرام مچا ہوا ہے، ورنہ کوئی ایسی بات نہیں۔

ان احباب سے ہمارا سوال ہے کہ جناب! تاریخ پر تو شیعوں کے اثرات ہیں، یہ آپ سنیوں کی احادیث پر کس کے اثرات ہیں!یہ بھی امویوں وغیرہ کی بجائے انھی کے فضائل و شمائل بیان کیے جا رہی ہیں۔ اگر یونہی ہے تو پھر پرویز اور ان کے پیروکاروں کی مان لیں کہ ان کے نزدیک احادیث بھی عجمی سازش پر مبنی ہیں۔ لیکن اس صورت میں ہماری گزارش ہو گی کہ قرآن پر شیعی اورعجمی اثرات مان لیں، اس سے بھی اہلِ بیت کا ذکر خیر ہی ثابت ہو گا، نہ کہ ان کی مخالفت کرنے والوں کا۔

جہاں تک اس معاملے پر جذباتی نہ ہونے والوں کی فکر کا سوال ہے، تو وہ بے چارے خود اتنے جذباتی ہیں کہ اپنی تاریخ اور شخصیت کے علاوہ ہر تاریخ اور شخصیت کو جذباتی سمجھتے ہیں۔ آپ ان کے سامنے تاریخ پیش کریں یا مطالعۂ تاریخ ،وہ اس کو جذباتی اور مسخ شدہ قرار دیں گے۔ ان کے نزدیک تاریخ اور مطالعۂ تاریخ اگر کہیں منقح یا غیر جذباتی ہے تو وہ انھی کا ہے۔ غیر جذباتی بس وہی لوگ ہیں ،جو ان کی اس جذبات سے بھر پور”غیرجذباتیت” پر ایمان لاتے ہیں۔

یہ لوگ تاریخ کو ایمانیات اور تقدس سے الگ کرنے کی بھی بات کرتے ہیں۔ اگر یہی کلیہ ہے معروضیت کا ،تو جناب رسول اکرم ﷺ کی شخصیت اور مشن کو کیوں ایمانیات اور تقدس میں رکھ کر دیکھا جائے؟ او بھئ! جس چیز سے نبی اور ان کی آل اولاد وابستہ ہو گی، اس میں ایمان و تقدس کا سوال تو آئے گا! آپ اپنے اہلِ بیت حتی ٰکہ  حر  ف ولفظ کوتقدس دیتے ہیں، لیکن اہلِ بیتِ رسول ﷺکے معاملے میں تقدس کو شجرِ ممنوعہ باور کرانے لگ جاتے ہیں۔

غیر جانبداری   شوق سے اختیار کریں، لیکن ذرا اس سوال کا جواب دیں لیں کہ آپ کی آل اولاد ہو اور حکومتِ وقت کے خلاف اپنے تئیں ہی سہی ؛ اقتدار کے لیے ہی سہی، آوازۂ حق بلند کرتی ہوئی نکلی ہو اور حکمران اس کو یوں بھوکا پیاسا رکھ کر بال بچوں سمیت ذبح کر دیں! آپ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے ؟ حکمرانوں کے ساتھ یا اپنی آل اولاد کے ساتھ! حالانکہ آپ کو اپنی آل اولاد پر وہ اعتمادو بھروسہ نہیں ہو سکتا ، جو آپ کے اور ہمارے نبی ﷺ کو اپنی آل اولاد پر تھا۔آپ کی آل اولاد نیکی و تقویٰ کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتی ، جس پر رسول اللہ ﷺ کی آل اولاد فائز تھی۔ حالانکہ آپ کی آل اولاد کی عظمتیں خود آپ نے بھی اس طرح ذکر نہ کی ہوں گی ، جیسے اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اپنی آل اولاد کی بیان کی تھیں۔پھر اپنی آل اولاد کے بارے میں راست بازی و حق پروری کی گواہی آپ نے اگر ایک زمانے میں دی بھی ہو تو اس طرح حتمی اور قابل یقین نہیں ہو سکتی ، جس طرح رسول معظم ﷺ کی اپنی آل اولاد کے لیے تھی۔پھر کیا وجہ ہے کہ آپ تو اپنی آل اولاد کے معاملے میں ساری سیاسی و سماجی عصبیتوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں، لیکن آل رسولﷺ کے معاملے میں اس کی دہائی دیتے ہیں!

آخرت اور ایمان  کا معاملہ ہی تو فی الواقع ہمیں حسین ؑکے ساتھ جوڑتا ہے۔ ہمیں اپنا ایمان اوراپنی آخرت اسی کے ساتھ وابستہ کرنے کا شوق ہے، جس کا ایمان اور جس کی آخرت اپنے نانا کے ساتھ وابستہ ہے۔مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ہے ، اگروہ حسینؑ کی بجائے یزید کے ساتھ ہوں  تو ہمیں یزید کے ساتھ کھڑے ہونے میں کوئی عار نہیں، لیکن ہر ذی نفس جو اپنے نفس کو ٹٹول سکتا ہے ، گواہی دیتا ہے کہ نہیں نہیں !حضور ﷺ حسینؑ کے ساتھ اس کو سینے سے لگائے کھڑے ہیں،  حضورﷺ بس اس عقیدے پر بھی راضی نہیں وہ آپ سے منوا رہے ہیں  کہ آپ مجھے حسینؑ کا حصہ مانیں ، اس کے وجود میں جاری ساری تسلیم کریں ؛ “انا من الحسین ” اسی لیے تو فرمایا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر بھی آپ چاہیں کہ اس کو ایمان و تقدس کی نظر سے نہ دیکھیں، تو آپ کو کون روک سکتا ہے، حشر تک آپ آزاد ہیں۔حشر کے دن آخری فیصلہ ہو جائے گا۔فانتظروا انی معکم من المنتظرین۔

 

 

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply