جنسیت اور معاشرہ/اختر علی شاہ

میشیل فوکو Michel Foucault کی کتاب “جنسیت کی تاریخ

The History of Sexuality”
کا موضوع مغربی معاشرت میں جنسیت کی تشکیل دینے کے طریقوں کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ یہ کتاب فوکو کی مشہور تین جلدوں کے سلسلے پر مبنی کتاب ہے، جس میں انہوں نے جنسیت اور اس کی تاریخی تجزیے پر روشنی ڈالی ہے۔

اس کتاب میں فوکو نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری جنسیت کی تشکیل کیسے ہوتی ہے اور یہ ہمارے زندگی کے کن کن حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے موجودہ طرز فکر کو چیلنج کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ جنسیت کی حقیقت صرف بائیولوجی یا ذاتی خصوصیات کی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور تاریخی عوامل کی بنیاد پر بھی قائم ہوتی ہے۔

موجودہ دور میں ہم جب بھی جنس کی بات کرتے ہیں، تو فوراً دو جنسوں یعنی مرد اور عورت کے بارے میں بحث کی جاتی ہے لیکن ایسا بالکل نہیں کیونکہ یہ ایک بہت ہی پیچدہ ٹاپک ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ بائیولوجی کی نقطہ نظر سے صرف دو جنسیں ہوتی ہیں: مرد اور عورت۔ لیکن جب ہم جنسیت کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو یہ صرف بائیولوجی کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ یہ سوشل، کلچرل اور ذاتی شناخت کے اصولوں پر بھی مبنی ہوتا ہے۔

جنسیت کا تعین کرنے کے لئے ہمیں بائیولوجی (جنسی  ذمہ داری کے حوالے سے)، جینڈر (سماجی اور شخصی شناخت کے حوالے سے)، اور جنسی رجحان (جنسی اور رومانی حوالے سے) تین مختلف زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بائیولوجی کے اعتبار سے جنسیت میں مرد اور عورت ہوتے ہیں، یہ جنسی تفریق کروموسومز کی بنیاد پر ہوتی ہے یعنی XX کروموسومز برائے خواتین اور XY برائے مرد ۔ لیکن یہاں کچھ اور بھی صورتحال ہوتی ہیں جن میں انٹرسیکس بھی شامل ہیں، جو کہ خاص طور پر طبیعی جنسی خصوصیات کی مختلف مجموعوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

جبکہ جینڈر یعنی جنسی شناخت، یہ ایک شخص کا احساس ہوتا ہے کہ وہ کونسی جنسیت کا حصہ ہے۔ یہ مختلف طریقوں میں ظاہر ہو سکتی ہے، جیسے کہ مرد، عورت، ٹرانسجینڈر، غیر جنس پرست، یا کوئی اور شناخت۔یہ آپ کی سوشل، کلچرل، اور ذاتی پہچان کا اہم حصہ ہوتی ہے۔

آخری زاویہ جنسی رجحان کا ہے، جو کہ ایک شخص کو کس جنس کی طرف کشش محسوس ہوتی ہے پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ مختلف طریقوں میں ظاہر ہو سکتا ہے، جیسے کہ مخالف جنس پرست (ہیٹروسیکشوئل)، ہم جنس پرست (ہوموسیکشوئل)، دونوں جنس پرست (بائے سیکشوئل)، یا کسی بھی جنس کی طرف کشش نہ ہونا (اے سیکشوئل)۔

ان تین زاویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنسیت کی تعداد صرف دو نہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ افراد کا احساس کہ وہ کس جنس کے ہیں، کس جنس کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں، یا ان کے جسم کی بناوٹ کیسے ہے وغیرہ، یہ سب Variables جنسیت کی تعداد کو بڑھا دیتے ہیں۔

بنیادی طور پر، جنسیت کی تعداد انسانی تجربات اور شناختوں کی وسیع رینج کی عکاس کرتی ہے جو بایولوجی، سوشل، اور ذاتی عناصر پر مبنی ہوتی ہے۔

مزید بات کرتے ہوئے، کچھ افراد خود کو جینڈر کیوئر genderqueer یا نان-بائنری Non-binary سمجھتے ہیں۔
جینڈر کیوئر genderqueer افراد وہ ہوتے ہیں جو ٹریڈیشنل جنسیتی تقسیم (مرد یا عورت) کی بجائے اپنی جنسیت کو زیادہ پیچیدہ سمجھتے ہیں۔
اسی طرح، نان-بائنری Non-binary افراد وہ ہوتے ہیں جو خود کو صرف مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہیں کرتے، بلکہ اپنی جنسیت کو ان دونوں تقسیموں سے باہر یا ان کے درمیان دیکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ، ٹرانسجینڈر افراد وہ ہوتے ہیں جو خود کو ان جنسیات  میں شناخت کرتے ہیں جو ان کی برادری کی جنسیت سے مختلف ہوتی ہیں، یعنی، ایک شخص جس کی بایولوجی جنسیت عورت ہو سکتی ہے، خود کو مرد کے طور پر شناخت کر سکتا ہے، یا اس کی برعکس بھی ہو سکتی ہے۔

یہ سب باتیں سمجھنے میں مشکل ہو سکتی ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہم تمام لوگوں کی جنسیت کی تنوع کو سمجھیں اور احترام کریں،کیونکہ ہر شخص کی جنسی شناخت اس کی ذاتی خصوصیت ہوتی ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے سمجھیں اور اس کا احترام کریں۔

اگرچہ ماضی میں ہمارا معاشرہ صرف دو جنسیتوں کو مانتا تھا، لیکن اب میڈیکل سائیکالوجی اور دیگر شعبوں کی وضاحت کے ساتھ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جنسیت کی تعریف زیادہ پیچیدہ اور غیر تقلیدی ہے، جنسیت کی تعریف میں ایک شخص کی ذاتی شناخت، جسمانی خصوصیات، اور جنسی رجحان وغیرہ جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں ، جو کہ ہمیں یہ سمجھانے میں مدد دیتے ہیں کہ جنسیت کی تعداد صرف دو نہیں بلکہ اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جنسیت کی تعداد کا تعین کرنے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ہم لوگوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کریں، بلکہ ہمارا مقصد ہوتا ہے کہ ہم ہر شخص کی ذاتی شناخت کو سمجھیں اور احترام کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply