• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا ایجاب و قبول۔۔ذیشان نور خلجی

جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا ایجاب و قبول۔۔ذیشان نور خلجی

ہمارے ایک عزیز تھے دو دفعہ مسلم لیگ کی چھتری تلے وزارت کے مزے لوٹ چکے۔ اس دفعہ الیکشن سر پر آئے تو موصوف نے اعلان کیا کہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ یہ ایک جرأت مندانہ اقدام تھا کیوں کہ اس حلقے میں اسمبلی کی نشست تو ایک طرف، لیگ کی حمایت کے بغیر یونین کونسل کی ممبر شپ حاصل کرنا بھی جان جوکھم کا کام تھا۔

موصوف کے اس دبنگ اعلان پر بہت خوشی ہوئی، میں دعا گو تھا کہ حلقے میں مسلم لیگ کی حمایت کے بغیر الیکشن جیت کر وہ ایک نئی تاریخ رقم کریں۔ ان کے سپورٹرز بھی کافی پُرامید تھے کیوں کہ گزشتہ دو ٹینیورز میں انہوں نے اچھا ڈیلیور کیا تھا اس کے علاوہ وہ عوام میں گھل مل جانے والی سیاسی شخصیت تھے اتفاق فاؤنڈری کا سریا ابھی ان کی پہنچ سے دور تھا۔

انہی دنوں کی بات ہے میں گھر آیا تو اطلاع ملی کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے مرکز کا دورہ کیا ہے اور جماعت کی حمایت بھی حاصل کر لی ہے۔ دوستو ! میری خواہشات پر پانی پھر گیا گھر والوں کو صاف صاف کہہ دیا ” ایہہ نئیں بچن گے ” یعنی اس دفعہ سیٹ نہیں نکال سکیں گے اور یہ سراسر جماعت اسلامی کی نحوست ہے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

دراصل یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں کہ چند ایک استثنیٰ کے ساتھ اسمبلی سے لے کر یونین کونسل تک آپ غور کریں تو آج تک نہ جماعت اسلامی جیتی ہے اور نہ ہی اس کے حمایت یافتہ امیدوار سرخ رو ہو سکے ہیں۔

یوں لگتا ہے جماعت کی سیاست پر آسیب کا سایہ ہے اور بے شک یہ آسیب مولانا مودودی کے افکار ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ مولانا ایک نابغہ روزگار ہستی تھے اور برصغیر میں ان جیسا عالم شاذ ہی ملتا ہے لیکن جماعت اسلامی کی ناکام ترین سیاست میں بھی انہی کا ہاتھ ہے۔ وہ اس طرح کہ میرا ماننا ہے آج اگر مودودی صاحب زندہ ہوتے تو جماعت کے بانی اور امیر کی حیثیت سے یا تو سیاست سے کنارہ کر چکے ہوتے یا پھر جماعتی سیاست کو نئے خطوط پر ڈھالتے۔ جب کہ موجودہ جماعتی قائدین فکری تقلید کے باعث اس تعمیری سوچ سے مبرا قرار پائے گئے ہیں لہذا اسی باعث وہ مودوی صاحب کی گئی گزری اور آؤٹ ڈیٹڈ سیاست کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں اور منہ کی کھانا ان کا مقدر ٹھہرا ہے۔

یقیناً مجھے جماعت اسلامی سے ہمدردی ہونی چاہئیے لیکن اس کی روش دیکھتے ہوئے دل میں ایک کمینی سی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ یا باری تعالی ! ان کو مزید اور اس وقت تک ناکامیوں سے دو چار رکھ جب تک ان کو عقل نہیں آ جاتی اور یہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ بے شک سوچنا اور تفکر کرنا ایک تھکا دینے والا کام ہے جب کہ تقلید میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں لہذا گمان ہے میرے دل کی خلش باقی ہی رہے گی۔

بہرحال میری پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور اللہ کے فضل سے جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ ہمارے عزیز بری طرح ہار گئے۔ واضح رہے بعد میں تیسری دفعہ پھر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے وزارت حاصل کی۔

ہمیشہ ناکامی ہی جماعت کے حمایت یافتہ امیدواران کا مقدر کیوں ٹھہرتی ہے؟تب تجزیہ کیا تھا کہ جب کسی آؤٹ سائیڈر امیدوار کی ہار یقینی ہو جاتی ہے تو پھر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق وہ جماعت اسلامی کی بانجھ گود میں پناہ ڈھونڈ لیتا ہے اور جماعت بھی ‘ تجھے لیتا کوئی نہیں اور مجھے دیتا کوئی نہیں ‘ کے مصداق ہر دم اپنی بانہیں پھیلائے منتظر رہتی ہے
آ جا بالما تیرا ای انتظار اے

اور پھر گناہ بے لذت کے عوض منہ کالا کروا لیتی ہے۔ یار لوگ کہتے ہیں جماعت اسلامی شیم لیس ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ان کی صرف ایک ہی بے وقوفی انہیں لے ڈوبی ہے یہ سیاست کے نتائج مذہبی طریق پر نکالنے کےخواہاں ہیں بالکل جیسے پاکستان کرکٹ ٹیم ہار جاتی ہے تو ہم اکڑے پھرتے ہیں ‘ کیا ہوا اگر ٹرافی ہار گئے ہیں آخرت میں تو ہم ہی جیتیں گے ‘۔ یہ ایک سوشل میڈیائی مذاق ہے، جماعت جسے سنجیدہ لے گئی ہے۔

جماعت اسلامی کے قائدین مذہبی سیاست اور سیاست میں مذہب کارڈ کے استعمال کو بھی نہیں سمجھ سکے اور شاید اسی لئے ناکامی ان کا مقدر ٹھہری ہے اگر یہ لوگ مولانا مودودی کی تقلید کی بجائے عمران خان کی تقلید کریں اور سیاست میں مذہب کارڈ کا استعمال کریں تو خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔

عمران خان کے ذکر سے یاد آیا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ٹیلی فونک رابطہ بھی کیا ہے اور مستقبل میں کوئی حمایت بھی متوقع ہے۔ اس حوالے سے یار لوگ طنز کر رہے تھے کہ اگر نوبت یہاں تک آ گئی ہے تو پھر خان صاحب کو سیاست ترک کر دینی چاہئیے۔ عرض کرتا چلوں یہ ایک اعشاریہ تو ضرور ہے خاص طور پر خان کے حمایتیوں کے لئے کہ ” ہن او خوراکاں نئیں رئیاں “۔ ظاہری سی بات ہے جب ‘ ابو ‘ ہی سلامت نہ رہیں تو پھر یہ تو ہو گا۔ لیکن خان کے مخالفین زیادہ باچھیں مت پھیلائیں کیوں کہ یہ وہ عمران خان ہے ہاتھوں میں تسبیح جس کا سمبل بن چکا ہے۔ وہ بات کرتا ہے تو ایاک نعبد سے شروع کرتا ہے۔ جس کی وائرل تصاویر عبادات سے پُر ہوتی ہیں۔ جس نے گزشتہ چار سال اور آئندہ نجانے کتنے سال بے وقوفوں کو ریاست مدینہ کی ‘ بتی مگر ‘ لگائے رکھنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الحمد للہ ہم ضرورت سے زیادہ مذہبی اور جذباتی قوم ہیں۔ ہمیں پہلی بار تو خان کی شکل میں ایسا لیڈر ملا ہے جو مذہبی پاکھنڈ رچانے کا ماہر ہے۔ جسے ہمارے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا ہنر آتا ہے۔ سو جو لوگ یہ خوش گمانیاں پالے بیٹھے ہیں کہ خان کی جماعت اسلامی سے حمایت حاصل کرنے کے بعد خان کی سیاست ختم ہو جائے گی ان کے حضور عرض ہے جماعت اسلامی کی سیاست تو ختم ہو سکتی ہے، تحریک انصاف کا وجود بھی مٹ سکتا ہے لیکن جب تک ہم بحیثیت قوم نکی سری والے شاہ دولہ کے چوہے بنے رہیں گے اور جذباتی و مذہبی چورن کے خریدار بنے رہیں گے کسی بھی مذہبی سوداگر کی سیاست ختم نہیں ہو گی اور بے شک میرا کپتان مذہب فروشی میں اپنی مثال آپ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply