جسم فروشی کی ابتداء کیسے ہوئی ؟

اس موضوع پر لکھنے سے مراد معاشرے کے اہم پہلو پر لوگوں کی توجہ کو مرکوز کروانا ہے۔ جیسے ہی لفظ” جسم فروشی ” ہمارے کانوں میں پڑتا ہے تو برے خیالات کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے اور نا جانے ہم اس لفظ اور اس کے استعمال پر اتنے حیران اور پریشان کیوں ہو جاتے ہیں جبکہ یہ شعبہ انسانی زندگی کا سب سے قدیم لازوال اور متحرک شعبہ رہا ہے۔ جس کو آمراء و وزراء کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس سے دنیا کا کوئی حصہ خالی نہیں اور نہ ہی کوئی اس کو ختم کر سکا ہے۔ مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے آخر اس کو ختم کرنے کی خواہش کے باوجود ختم کرنا مشکل و ناممکن کیوں ہے۔ کیوں دنیا کے سارے ممالک بری طرح ناکام ہیں کہ وہ اس کو ختم کر سکیں؟ اس کی معاشرے میں کسی نہ کسی صورت پر موجودگی نے بہت سارے جدید معاشروں کومجبور کر دیا ہے کہ اس کے لیے قوانین بنائیں تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ جبکہ بہت سارے مذہبی ممالک اس کو ناجائز قرار دینے کے باوجود کرتے بھی ہیں اور وہاں اسی طرح کے جرائم میں اضافہ بھی ہو رہا ہے جس کی وجہ اس کی حقیقت اور ماہیت سے منہ چرانا ہے۔

“منڈی کی اس معیشت میں جہاں ہر اخلاقی قدر بکتی ہے ہر اصول، ہر قانون فروخت ہوتاہے انصاف اور منصفوں کی بولی لگتی ہے ہر رشتہ فروخت ہوتاہے وہاں انسانی گوشت سب سے ارزاں اور بے مول بک رہا ہے۔ دوسری تمام اجناس کی طرح عورت بھی سستی بکنے والی جنس بنی ہوئی ہے”۔انگریزی میں اس کے لیے لفظ “پروسٹیٹیوٹ” استعمال کیا جاتا ہے جو لاطینی زبان کا لفظ ہے اور “پرو سٹیٹیوٹا” سے ماخوذ ہے۔ جس کے معانی ہیں کہ اپنے آپ کو پیش کرنا یا اپنے آپ کو کسی فائدے کی خاطر بیچ دینا۔ فارسی میں “تن فروشی ” اور عربی میں “دعارة” استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں اس کی تاریخ اور اس کی وجوہات پر ایک عبوری نظر ڈالنی ہو گی۔

(تاریخ ِ جسم فروشی)

بابل اور سمیری تہذیب

اٹھارویں صدی قبل مسیح۔ قدیم بابل کے حموربی کا قانونی ، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کا سب سے قدیم ضابطہ ہے۔ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ضوابط اسی سے ماخوذ ہیں۔ ضابطہ قوانین میں عدالت ، کھیتی باڑی ، آبپاشی ، جہاز رانی ، غالموں کی خریدوفروخت ، آقا اور غلام کے تعلقات ، شادی بیاہ ، وراثت ، ڈاکا ، چوری وغیرہ سے متعلق قانون کے اصول بیان کیے گئے تھے۔ انہی میں عورتوں کے حقوق کا ذکر کیا گیا ہے جس کے ساتھ ساتھ جسم فروش عورتوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔

سمیری تہذیب کے بارے ابوا لمورخ “هيرودوت” اور “تھوسی ڈائڈز” نے واضع طور پر بیان کیا ہے کہ وہاں جسم فروشی کو عباد ت درجہ حاصل تھا۔ جس کو مقدس جسم فروشی کا نام دیا گیا تھا۔ بابل کے بارے وہ لکھتے ہیں کہ وہاں کی تمام عورتیں اپنی زندگی میں معبد ِ افرو دیتی پر حاضر ہوتیں اور اپنا جسم کسی بھی اجنبی کو پیش کرتیں۔ اس سے ان کے رتبے میں اضافہ ہو جاتا۔

افرودیتی

یونانی دیومالا میں حسن اور محبت کی دیوی جس کو وینس یا زہرہ بھی کہا جاتا ہے، ایک سیپ سے پیدا ہوئی۔ جو دیوتاؤں اور آدمیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ افرودیتی عشق و محبت ، حسن ، زرخیزی ، عشق شہوانی ، جنسی فعل، نسلی تسلسل ، تولید و تناسل ، عیش و عشرت ، اور جنسی سرمستی و سرخوشی کی دیوی تھی۔ مقدر کی دیویوں می ری نے افرودیتی کو صرف ایک ہی آسمانی فریضے کی ادائیگی کرانے کا پابند کیا تھا اوروہ فرض تھا کہ وہ لوگوں میں جنسی ملاپ کریا کرے۔ وہ دیوی دیوتاؤں ، پریوں اور انسانوں میں جنسی جذبات بھڑکا دیتی حتی کی عظیم زوس تک کو فانی عورتوں کے ساتھ بھی جسمانی طور پر ملوث کر ڈالتی۔

کنعان میں جسم فروشی

کنعان اور اس کے ارد گرد یہودی قانون کے مطابق اس کو ناجائز قرار دیا گیا تھا مگر دوسرے مذاہب جو اس وقت وہاں موجود تھے ان میں خاص علاقوں کے مذاہب جیسے۔ ساردینیا ( بحیرہ روم کا دوسرا بڑا جزیرہ اور اٹلی کے بیس علاقوں میں سے ایک ہے) اور فونیقی ثقافت کے باشندے معبد عشتروت (۔ایک یونانی دیوی تھی جسکی پوجا مشرقی بحیرہ روم میں کی جاتی تھی)۔ میں جہاں جسم فروش زیادہ تر مرد تھے جسم فروشی کو عبادت کے طور پر سمجھتے تھے۔

یہوداہ اور تمر

بائبل میں موجود جسم فروشی کا قصہ بھی عام ہے یہوداہ اور تمر کے بارے آپ پیدائش 38 میں مکمل واقع پڑھ سکتے ہیں جہاں عورتیں سڑک کے کنارے پر کھڑی ہو جاتیں اور اپنے چہرے کو چھپا لتیں جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ یہ کوئی جسم فروش ہے اور پھر معاوضےکے طور پر ان سے بچوں کی خواہش کرتیں یا کسی اور قیمتی چیز کی طلب۔

رہب

کتاب یشوع کے مطابق اریحا کے علاقے کی ایک عورت جو جسم فروش تھی۔

مایہ تہذیب

اس تہذیب میں آزیٹک (آزٹیک سرخ ہندی لوگ تھے جو میکسیکو میں رہتے تھے۔ آزٹیک سلطنت چودہویں سے سولہویں صدی تک چلی۔ وہ اپنے آپ کو “میکسیکی” یا “ناہوآ” کہلاتے تھے)۔ کے باشندوں نے جسم فروشی کے لیے” چیوکلیلی” نامی عمارتیں بنا رکھیں تھیں جن کو مذہبی اور قانونی خاصیت حاصل تھی۔ چیوکلیلی کا اپنی زبان میں مطلب ہی عورت کا گھر ہے۔ یہ عمارتیں بند کمروں کی ماند ہوتیں تھیں جس کے صحن میں خدائے “تلاسول تئوتل یا تلازول تئوتل ” کا مجسمہ لگا ہوتا تھا۔ یہ دیوی ناپاک کو مطہر کرنے والی تھی۔ مذہبی قوانین کے مطابق اگر عورت چاہے تو وہ جسم فروشی کر سکتی تھی جس کے لیے جنسی شہوت یہی دیوی عطا کرتی تھی اور اس عمل کی صفائی بھی اسی کا کام تھا جس سے اس کام کو قانونی اور مذہبی خاصیت صاصل تھی۔ ایک حوالے کے مطابق انہی عمارتوں میں عورتیں برہنہ ڈانس مردوں کے سمانے کرتیں جس سے شہوت میں اضافہ ہوتا اور پاکزگی کی طرف سفر۔

قدیم یونان

قدیم یونانی معاشرے میں مرد و خواتین دونوں ہی جسم فروشی کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ یہ وہ پہلی تہذیب تھی جس میں اس کو باقائدہ طور پر پذیرائی ملی اور اس کے لیے ادرے اور قوانین بنائے گئے تھے۔ یہ خاص خواتین کا شعبہ تھا جو یا تو کسی ادارے کے تحت کام کرتیں یا آزادانہ طور پر جسم فروشی کرتیں تھیں۔ اس کے لیے ان کو خاص لباس پہننا ہوتا تھا ور ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا تھا۔ سولن جو کہ اتھینز کا مشہور شاعر، قانون دان تھا اس نے سب سے پہلے قحبہ خانے اور چکلے یونان میں بنائے ان کی کمائی سے اس نے ایفروڈائٹ پینڈیموس کا معبد تعمیر کروایا۔ یہ دیوی مصری تہذیب سے لی گئی تھی جو نسل کی بقاء کی دیوی تھی۔ استرابو عظیم مورخ اور جغرافیہ دان کے مطابق مذہبی جسم فروشی میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔یونان میں ہر طرح کی جسم فروشی کو مختلف قسم کے نام دیے گئے تھے۔ مرد جسم فروشی یونان میں بہت عام تھی عموما جوان لڑکے اس کام کے لیے اتھینز کے قحبہ خانوں میں موجود ہوتے تھے جن میں زیادہ تر آمراء یہ کام سر انجام دیتے تھے۔ زیادہ تر لڑکے غلام ہوتے اور کچھ ایسے لڑکے بھی شامل تھے جو آزادنہ طور پر یہ کام سیاستدانوں کے لیے کر رہے ہوتے تھے۔

قدیم یونانیوں کی بچہ بازی، اغلام بازی

یہ جوان مرد کا کسی نو عمر لڑکے سے تعلق تھا جس کو یونان میں بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ کام قدیم یونان کا اہم خاصہ تھا۔ بہت سارے ماہر اس رسم کی ابتداء کو کریٹ ( کریٹ بحیرہ روم میں یونان کا سب سے بڑا جزیرہ ہے) سے جوڑتے ہیں جہاں سے نو جوان جب فوج میں بھرتی ہوتے یا مذہب ذیوس (زیوس یونانی دیومالا میں خدا‎ؤں کا بادشاہ نیز سب سے طاقتور خدا تھا۔ وہ کوہ اولمپس کا حاکم اور طوفان اور آسمانی بجلی کا مالک تھا۔ اس کے الم بجلی کی کڑک، بلوط، سانڈ اور چیل ہیں) میں داخل ہوتے تو اس وقت یہ تعلقات ان نوجوان لڑکوں سے استوار کئے جاتے تھے۔ ہم جنس پرستی کی تاریخ میں اس کو بہت اہمیت حاصل ہے جس میں یہ نہ صرف ایک قسم کی جسم فروشی تھی بلکہ ہم جنس پرستی، سیاست، مذہب سب اس میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔ہم جنس پرستی کی تاریخ میں اس کو بہت اہمیت حاصل ہے جس میں یہ نہ صرف ایک قسم کی جسم فروشی تھی بلکہ ہم جنس پرستی، سیاست، مذہب سب اس میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔

قدیم روم

روم میں جسم فروشی کو قانونی درجہ دیا گیا تھا جو عوام میں بہت عام ہو چکی تھی۔ بہت بڑے عہدوں پر موجود رومن خضرات شامل تھے۔ رومن قانون پورے طریقے سے اس کام میں اس کو لائحہ عمل میں لاتا تھا۔

عرب:عرب کے غلام اور ان کی جسم کی خریدو فروخت کا کس کو علم نہیں ہے۔

ایشیا

اس علاقے میں مرد اور خواتین دونوں جسم فروش رہے ہیں۔ اوریان ایسی عورتوں کو کہا جاتا تھا جو جسم فروشی کا کام کرتیں تھیں۔ اور صرف امیر اور اعلی عہدیداروں کے لیے تھیں۔ اسی لیے اپنے گاہکوں کو خوش کرنے کی غرض سے وہ ان کو مصوری، موسیقی، شاعری اور شراب سے محضوض کرتیں تھیں۔ اس کام کی وجہ سے بہت ساری عورتیں اپنے وقت کی مشہور ہستیاں بن گئی تھیں۔ ان کے کئے جانے والے فیشن امیر عورتوں کا رواج بنانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ لیکن اب ان اوریان کی جاپان اور چین میں کوئی قانونی خاصیت نہیں ہے۔

ہندوستان

مغل دور میں بننے والی عورتوں کو طوائف کا نام دیا جاتا ہے۔

بازار حسن(ہیرا منڈی)

لاہور میں موجودہ بازار حسن(ہیرا منڈی) سینکڑوں سال قبل قائم ہوا ۔ اس بازار میں شاہی دربار ، وزاراءاور امراءکی محفلوں میں لوک گیت گانے اور روایتی رقص پیش کرنے والی طوائفیں اور ان کے سازندے رہا کرتے تھے یہاں بسنے والے یہ خاندان بڑے مہذب اور با اخلاق ہوتے تھے اور ان کے پاس شہر کے رئیس اپنی اولادوں کو تعلیم و تربیت کے لئے بھیجا کرتے تھے۔

جبکہ جسم فروش عورتیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع موجودہ لنڈے بازار میں رہا کرتی تھیں یہ بازار سکھوں کے دور حکومت تک قائم رہا۔ سکھاشاہی کے دوران اس بازار میں بیٹھی چندخواتین کی وجہ سے جب ہندو مسلم فسادات ہوئے تو کشمیر کے مسلمان راجہ نے لنڈا بازار کی تمام عمارتیں خرید لیں اور یہاں سے تمام افراد کو نکال دیا گیاچنانچہ یہاں پر آباد خاندان پرانی انارکلی کے علاقے میں منتقل ہو گئے مگر انگریز دور حکومت میں یہاں قائم ہونے والی فوجی بیرکوں کی وجہ سے حکومت نے ان سے یہ علاقہ بھی خالی کروا لیا جس پر یہاں سے متعدد خاندان ہیرامنڈی میں منتقل ہو گئے اس طرح ہیرامنڈای میں بھی جسم فروشی کے اڈے قائم ہو گئے یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا مگرجب جنرل ضیا ءالحق کے دور میں بازار حسن کو بند کر دیا گیا اور یہاں پر کسی بھی قسم کی پرفارمنس ممنوع قرار دے دی گئی تو یہاں کے رہنے والے خاندان شہر کے مختلف علاقوں میں شفٹ ہو گئے اور یوں ایک مخصوص علاقے میں قائم ہیرامنڈی پورے شہر میں پھیل گئی اور یہی حال پورے ملک کا ہوا۔

میرے مطابق بہت حد تک جسم فروشی کو کاروبار اور عبادت کا درجہ ان رؤسا اور امراء نے دیا تھا جو مذہب کے ایجاد کرنے والے تھے۔ بیشک بہت سارے عوامل اس کے لیے اہم ہیں کہ کس طرح عورت اپنا تن فروش کرتی ہے۔ بھوک، زندگی سے بیزاری، شادی کا وقت پر نہ ہونا، جنسی مغالطے اور گھٹن، ہمارے امیر طبقے کے لوگ، غربت جیسے اہم عوامل عورتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ جسم فروشی کریں۔ ان مردوں کی بھاری تعداد اس طرف آ رہی ہے جو بیروزگار ہیں اور معاش سے تنگ دوسری طرف ملا نے عورت کو تو پردے کا حکم سنا دیا پر مردوں کی شہوت کے لیے کھلی اجازت دے دی۔اسی جنسی گھٹن میں اکثر لڑکے ایسے مقامات کا رخ کرتے ہیں جہاں عورتیں ایسے کام میں ملوث ہوں

تاریخِ جسم فروشی کے بعد اب اس کی تفصیل

سعادت حسن منٹو نے اپنے ایک افسانے ’’لائسنس‘‘ میں لکھا تھا ’’ایک عورت کو حصول معاش کیلئے تانگہ چلانے کا اجازت نامہ نہیں ملتا مگر جسم بیچنے کا لائسنس اسے مل جاتاہے‘‘۔

بیروزگاری کے باعث سماج کے تمام رشتے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ غربت اور حالات سے تنگ آکر خواتین عصمت فروشی کی صنعت میں روزگار ڈھونڈ رہی ہیں۔ حالات سے تنگ آج جب عورت روزگار کی تلاش میں اپنی قوت محنت کا سودا کرنے بھی نکلتی ہے تو اسے وہاں سب سے پہلے جسم کاسودا کرنے پر مجبور کیا جاتاہے، بصورت دیگر اسے ملازمت نہیں مل سکتی۔ انتہائی تنگ دستی کے حالات میں انہیں ان کڑی شرائط کے ساتھ کام کرنا پڑتاہے‘ اسے ہر وقت جنسی طورپر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں خصوصاً پسماندہ ممالک کے اندر زیادہ تعداد میں لڑکیاں جسم فروشی کرنے پر مجبور ہیں۔ خاص کر معیشت کی اس خستہ حالی کے عہد میں جب روزگار کے مواقع پیدا ہی نہیں ہو رہے اس میں زندہ رہنے کیلئے عورتوں کی اکثریتی آبادی کو اس طرف رخ کرنا پڑتاہے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دوسرے ممالک سے عورتیں سمگل کرنے کا کاروبار معمول بن چکا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی دیکھیں تو ہر طرف عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بڑی بڑی کانفرنسیں ہو رہی ہیں مگر اس کے باوجود اس کاروبار میں وسعت ہی آتی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے مبلغین اور پیٹی بورژوادانشور میڈیا پر عورتوں کے حقوق کے متعلق بلند و بانگ تقریریں کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ این جی اوز خواتین کے نام پر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔ اخلاقیات کے ٹھیکیدار بنے پھرنے والے’’معزز افراد‘‘ ایسے بھی ہیں جو دراصل پس پردہ اس کاروبار میں ملوث ہیں۔ موجودہ نظام میں جہاں تمام ذرائع پیداوار سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہیں وہاں ان کاروباروں اور ان اداروں کی ملکیت بھی بڑے بڑے مشیروں اور وزیروں کے پاس ہے۔ اعلیٰ آفیسران، سیکرٹری صاحبان، سفیروں اور امیروں کے نام جو ایک طرف اپنی عیاشیوں کیلئے عورت کو بازاروں میں نچواتے ہیں اور دوسری طرف چار دیواری کا درس دیتے ہیں۔ “ایک سروے کے مطابق 2011ء میں2,303 بچوں سے زیادتی کے کیس رپورٹ ہوئے ہیں”۔

مگر بے تحاشا کیس ایسے ہیں جن کی نہ تو خبر اخبار میں آتی ہے اور نہ ہی کسی سرکاری ادارے کے پاس کوئی ریکارڈ ہے۔ صرف لاہور میں 15 ہزار سے 20 ہزار بچے بس اسٹینڈز اور ریلوے اسٹیشن کے علاقوں میں جنسی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جس میں74فیصد عورتیں نا خواندہ ہیں اورورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 58 فیصدکل آبادی غربت میں رہ رہی ہے اور خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ 29.6 فیصد شدید بھوک کا شکار ہیں۔ وہاں جسم فروشی کا فروغ پانا حیرت انگیز نہیں۔

مسلم ممالک اور جسم فروشی

نام نہاد مسلم ممالک کے اندر ان دھندوں سے معصوم بچے بھی جبر اور جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ غربت اور بھوک نے بچوں کو بھی اس دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ بظاہر ان ممالک کے اندر جسم فروشی غیر قانونی ہے لیکن در پردہ انہی ممالک میں ہی زیادہ ہوتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرست ہوں یا لبرل ازم کے ٹھیکیدار دونوں ہی اسی سرمایہ دارانہ نظام رکھوالے ہیں۔ جب تک اس نظام کو نہیں اکھاڑاجاتا اور نجی ملکیت ختم نہیں ہوتی جسم فروشی ختم نہیں ہوسکتی۔

جنوبی ایشیا میں ایک اندازے کے مطابق 30سے 35فیصد تک جسم فروشی کے دھندے میں ملوث خواتین کی عمر 12 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ افغانستان جیسے ملک کے اندر بھی ایران، یوگینڈا، تاجکستان اور چین سے عورتیں منگوائی جاتی ہیں۔ بعض رپورٹوں کے مطابق تہران میں سب سے زیادہ جسم فروشی ہوتی ہے۔ طالبان کے علاقے میں بھی عصمت فروشی کا نہ صرف کاروبار موجود ہے بلکہ تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے اندر اگر دیکھیں تو خواتین کے ساتھ بچوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتاہے۔

یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2004ء میں ہوٹلوں، پارکوں اور ریلوے سٹیشنزمیں 10,000 کم عمر لڑکیوں کو ان مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ معاشی حالات کے بگڑنے اور سرمائے کے استحصال میں اضافے کی وجہ سے اب ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بعض لڑکیاں زندہ رہنے کیلئے اپنی ماؤں کا پیشہ اختیار کرتی ہیں جو 12سال سے کم عمری میں ہی اس پیشہ میں شامل ہو جاتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں دنیا کی دوسری بڑی گارمنٹس انڈسٹری ہے جو 24ارب ڈالر کا زرمبادلہ کماتی ہے۔ جہاں 90 فیصد سے زائد خواتین ملازم ہیں۔ لیکن استحصال اتنا شدید ہے کہ وہ خواتین جنہیں جسم فروشی میں کام ملتا ہے انہیں خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے۔

انڈیا

انڈیا، جو اس وقت عالمی طور پر ابھرتی ہوئی معیشت تصور کی جارہی ہے اور جس میں قانونی طور پر پیسے کمانے کے لئے جسم فروشی کی اجازت ہے، میں بھی اس منڈی میں شریک ہونے والی خواتین کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ صرف کلکتہ میں50 ہزار بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کررہے ہیں جن میں 80 فیصد کم عمر لڑکیاں ہیں ، اس وقت انڈیا میں جسم فروشی کی منڈی سے قانونی طور پر منسلک خواتین کی تعداد6 لاکھ 80 ہزار ہے جب کہ ایک اندازے کے مطابق اس منڈی میں عورتوں کی تعداد 30 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 12لاکھ کم سن بچیاں ہیں جن کی عمر 18سال سے بھی کم ہے۔ یہ تعداد ان خواتین کی ہے جو مخصوص چکلوں سے وابستہ ہے حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

پاکستان

پاکستان میں جسم فروشی میں خطرناک حدتک اضافہ ،پاکستان میں سیکس ورکرز کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، سیکس ورکر خواتین میں نہ صرف مقامی بلکہ بنگلہ دیش، بھارت، برما، افغانستان اور روسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس مانیٹرنگ گروپ (IHRM)کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جسم فروشی کے پیشے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،ان جسم فروش عورتوں میں:

44فیصد خواتین غربت

32فیصد دھوکے اور فریب

18فیصد جبر وتشدد

4فیصد وہ خواتین جو انہی گھرانوں میں پیدا ہوئیں

2فیصد اپنی مرضی سے شامل ہیں۔

ان میں سے 41.8فیصد خواتین 18سے 25سال کی ہیں جبکہ 6.21فیصد لڑکیاں18سال سے کم عمر کی ہیں۔ 56.79فیصد خواتین ان پڑھ ہیں اور 47فیصد سیکنڈری سکول کی تعلیم سے لیکر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ ہیں جبکہ30فیصد غیر شادی شدہ لڑکیوں کے ساتھ70فیصد شادی شدہ خواتین شامل ہیں۔ ان خواتین میں نہ صرف مقامی بلکہ گزشتہ 10برسوں میں بنگلہ دیش سے 5لاکھ خواتین ،برما سے 20ہزار ،افغانستان سے ایک لاکھ اور روسی ریاستوں اور دیگر ممالک سے ہزاروں خواتین پاکستان آئیں اور جسم فروشی کے پیشہ سے منسلک ہوگئیں۔

رپورٹ کے مطابق اس بے راہ روی کے نتیجے میں ایڈز جیسی موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور اب تک80ہزار کے قریب افراد اس مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی طرح خواتین سیکس ورکرز کے مقابل جسم فروش لڑکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جن میں نو عمر بچوں کی زیادہ تعداد قابل تشویش ہے۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں ایک عام لڑکی اس پیشے میں25سے30 ہزار روپے کما تی ہے وہیں یہ لڑکے50 سے 70ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ ۔کچھ عرصے سے سیکس ورکر لڑکوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ ان میں14/15سال کے لڑکوں سے لیکر25/30سال تک کے لڑکے شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ لڑکوں کی جسم فروشی اس معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک عرصے سے ہو رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان لڑکوں میں، ان پڑھ اور کم پڑھے لکھے لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ گریجویٹ سطح کی تعلیم رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ لڑکے50ہزار سے70ہزار روپے تک ماہانہ کماتے ہیں جبکہ وہ لڑکے جو غیر ملکی سیاحوں وغیرہ کیلئے کام کرتے ہیں وہ ان سے زیادہ کماتے ہیں جبکہ انگریزی زبان بھی بولنا جانتے ہیں۔

اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے، چاہیں تو پاکستان کی مزید بیٹیوں کو فحاشہ ہونے سے بچا لیں، اور چاہیں تو پورے پاکستان کو ہی چکلہ بنا دیں۔ لیکن یہ بات ہر شخص کے ذہن میں رہے، کہ اگر پھر سے ان ہی سب سیاسی لٹیروں اور مذہب فروشوں کو ووٹ دیا تو پھر کسی کو کوئی حق نہیں کے کسی جسم فروش عورت کو گری ہوئی نظر سے دیکھے، کیوں کے اس کی جسم فروشی کے کہیں نہ کہیں ذمہ دار آپ بھی ہونگے، اگر ایک جسم فروش عورت فحاشہ ہے تو پھر پارسا ہم بھی نہیں ہیں ایسے لوگوں کو ووٹ دینے سے ثابت ہوجائے گا کہ ہم سب فحاشہ ہیں۔

اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اس کی وجہ دریافت کریں تاریخ اور نفسیات معاش سماج سب کے تناظر سے آپ کے سامنے حقیقت رکھ دی گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ ذیشان خان!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply