تصوف، سائنس اور کرامات۔۔۔یاسر پیرزادہ

’جیسے ہی وہاں سے گزرا تو داتا صاحب ؒ کے حضور جا کھڑا ہوا۔ داتا صاحبؒ مجھے محفل میں لے گئے جس میں بہت بلند پایہ اولیا اللہ بیٹھے تھے۔

داتا صاحبؒ نے ایک طشت منگوایا جس میں ایک دستار رکھی تھی۔ انہوں نے اپنے دستِ مبارک سے وہ دستار میرے سر پر رکھی اور فرمایا کہ آج سے تمہیں خلافت مل گئی۔

اگلے سال جب میں وہاں حاضر ہوا تو انہوں نے یہ خلافت announceکرنے کی اجازت دے دی۔ یوں سلسلہ اویسیہ جنیدیہ کی خلافت مجھے عطا ہو گئی۔ اس خلافت کے ملنے کے بعد مجھے کچھ پڑھائیاں عطا ہوئیں۔

اُن میں ایک لفظ ایسا بھی تھا جو سلسلہ قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ میں پڑھا جاتا ہے لیکن مجھے اُس لفظ کو پڑھنے کا مختلف انداز بتایا گیا تھا۔ سمجھ نہ آتی تھی کہ یہ انداز کس سلسلہ میں ہے۔ انہی دنوں میں ریفریشر کورس سے گزارا گیا۔

تین سال تک مجھے لندن رہنا پڑا۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ لفظ جس کی مجھے سمجھ نہیں آتی تھی اُس کا تعلق سلسلہ جنیدیہ سے ہے۔ کسی کو یہ تک نہ خبر ہونے پائے کہ اِس شخص نے کبھی اللّٰہ کا نام بھی پکارا ہوگا۔ سلسلہ چشتیہ صابریہ اور جنیدیہ کے علاوہ مجھے تیسری خلافت حضرت میاں میر ؒصاحب سے عطا ہوئی لیکن ان تین خلافتوں کے باوجود میں اپنے آپ کو صابری کہتا ہوں (اگر کبھی کہنا پڑ جائے) کیونکہ اِن تمام خلافتوں کے لیے اساس قبلہ سید یعقوب علی شاہ صاحب کے عطا کردہ علم نے provideکی تھی‘‘۔

یہ اقتباس قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی کتاب لوحِ فقیر کا ہے، صفحہ66۔ اس کتاب کی روداد بہت عجیب ہے، کوئی دو ہفتے پہلے کی بات ہے، داتا صاحبؒ کے پاس میری حاضری تھی، سالانہ عرس کا موقع تھا، محبی ضیاء الحق نقشبندی اور ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کی بدولت مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی، روح پرور بیان جاری تھا کہ اچانک میرے فون پر سرفراز شاہ صاحب کو نمبر جگمگایا، مجھے بہت حیرانی ہوئی۔

کانفرنس سے فراغت کے فوراً بعد میں نے شاہ صاحب کو فون کیا اور معذرت کی کہ میں داتا دربار میں تھا اِس لیے فون نہیں سن سکا، انہوں نے شفقت سے کہا کوئی بات نہیں پھر فرمانے لگے کیا آپ نے میری نئی کتاب پڑھی ہے، میں نے جواب دیا کہ آپ کی تینوں کتابیں میرے پاس ہیں اور میں پڑھ چکا ہوں، اِس پر شاہ صاحب نے کمال انکساری سے جواب دیا کہ نہیں کتابیں تو میری چھ ہیں، خیر چھوڑیں اِس بات کو، اپنا پتا لکھوائیں میں آپ کو پورا سیٹ بھجواتا ہوں۔

اگلے روز کتابیں مل گئیں۔ کہے فقیر، نوائے فقیر، فقیر رنگ، ارژنگ فقیر، عرضِ فقیر اور لوحِ فقیر۔ یہ کتابیں دراصل سرفراز شاہ صاحب کی اُس خوبصورت گفتگو کی دستاویز ہیں جو شاہ صاحب نے اپنے مریدین اور چاہنے والوں کے سوالوں کے جواب میں فرمائی۔

دین، دنیا اور تصوف کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو اِن کتب میں موضوع بحث نہ آیا ہو، ان تمام کتابوں کے مندرجات پڑھ کر لگا ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ مثلاً ’’جب کوئی انسان شدت سے کوئی دعا بار بار مانگے تو کیسے پتا چلے گا کہ دعا قبول ہو گئی ہے یا نہیں؟

زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کرنا کیسا ہے؟ کیا ہر ولی اللہ میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی عام شخص کو ایک ہی لمحے میں معرفت کے اُس مرتبے پر فائز کر دے جس پر وہ خود ہے؟‘‘

اس قسم کے بیشمار سوالات کے جوابات سرفراز شاہ صاحب نے ان کتابوں میں دیے ہیں۔ راہ سلوک کے دیگر مسافروں کے برعکس شاہ صاحب مبہم بات کرنے کے قائل نہیں، انہوں نے جو بات جیسی دیکھی، سمجھی، اسی طرح بیان کردی۔

تصوف ایک گنجلک موضوع ہے مگر شاہ صاحب نے اپنے دلفریب اندازمیں اِس مشکل فلسفے کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔ شاہ صاحب کی کتابیں پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی مسلمان ہر وقت شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں، کوئی انہیں اسمِ اعظم بتا دے جس سے اُن کے تمام مسائل حل ہو جائیں یا پھر سلوک کی منازل طے کیے بغیر پلک جھپکتے میں ولیٔ کامل کے عہدے پر پہنچا دے جبکہ شاہ صاحب کے نزدیک تصوف باطنی پاکیزگی کا نام ہے، گو کہیں کہیں آپ نے کرامات کا ذکر بھی کیا ہے۔

مثلاً ’’مون سون کا موسم تھا، بادل چھائے ہوئے تھے۔ اچانک میری نظر اپنی 74ماڈل کی بلیک مرسڈیز کے بونٹ پر پڑی جہاں آسمانی بجلی لہرا رہی تھی۔ دفعتاً وہ آسمانی بجلی بونٹ سے ہٹ کر سڑک پر رقص کرنے لگی۔ میں نے قبلہ مرشد صاحب سے بڑے آرام سے عرض کیا: حضور! یہ دیکھیے! یہ بجلی کیا کر رہی ہے؟ وہ فرمانے لگے ’تمہاری نظر اس پر اب پڑی ہے ورنہ یہ پہلے گاڑی کی چھت پر موجود تھی۔

لو! اسے ابھی ہٹا دیتے ہیں‘۔ (میں normallyایسی باتیں کہتا نہیں کیونکہ کچھ لوگوں کو اس پر یقین نہیں آئے گا اور کچھ کو ایسا یقین آئے گا کہ وہ شرک میں چلے جائیں گے لیکن آج چونکہ کرامات کی بات ہو رہی ہے اس لیے سوچ کر اس کا ذکر کر رہا ہوں کہ معتقدین اپنے مرشد کے بارے میں کس طرح کی باتیں کتاب میں لکھیں گے)۔ مرشد صاحب نے آسمانی بجلی کو مخاطب کر کے کہا ’ہٹ جا بھئی آگے سے!‘ اگلے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ کی چوٹی پر چمک رہی تھی‘‘۔ پھر شاہ صاحب نے لکھا کہ ’’تصوف کا مقصد کشف و کرامات کا حصول نہیں بلکہ اللہ کے قرب اور دوستی کا حصول ہوتا ہے‘‘۔

میں اللّٰہ کا ایک گناہ گار بندہ ہوں، کبھی کسی مرشد کا قرب نصیب ہوا اور نہ کشف و کرامت کا تجربہ ہوا۔ عملی زندگی میں عقلی استدلال پر یقین رکھتا ہوں، دو جمع دو چار سمجھ آتے ہیں اور اُن سائنسی کرامات کا قائل ہوں جنہوں نے تمام صوفیوں اور دنیا داروں کی زندگی بدل دی ہے۔ اِس کے علاوہ کسی کرامت کا اب تک قائل نہیں ہو سکا، امید ہے شاہ صاحب میری یہ گستاخی معاف فرمائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply