ترجمہ اور بین الثقافتی مطالعات۔۔آغرؔ ندیم سحر

اردو ادب میں دوسری زبانوں سے ترجمے کا عمل ہمیشہ سے سست رہا ہے۔عالمی کلاسیکی اور جدید ادب کو بھی اردو میں بہت کم منتقل کیا گیا۔اس کی وجہ شاید یہ ہے پاکستانی معاشرے میں ادب کی طلب نہیں یا شاید ہمارے معتبر ادبی اداروں نے آج سے قبل اس جانب کبھی توجہ نہیں دی۔یہی وجہ ہے کہ ناشر ترجمہ شدہ کتابوں کی اشاعت کا رسک لینے کا تیار نہیں۔گاہے گاہے جو تراجم منظر عام پر آتے ہیں وہ ایک اعتبارغیر تربیت یافتہ لوگوں کے ہوتے ہیں۔پاکستان میں چند ناموں کو چھوڑ کر جتنے بھی لوگوں نے ترجمے کیے‘اس میں بے تحاشا مسائل رہے۔ترجمہ کرنے والا شخص صرف دو زبانوں سے ہی نہیں بلکہ بیک وقت دو تہذیبوں اور دو ثقافتوں کو ساتھ لے کر چل رہا ہوتا ہے۔اس بات سے ہم واقف ہیں کہ کسی بھی فن پارے کو تہذیبی وتاریخی تناظر سے ہٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا۔یہی وجہ ہے کہ جب مترجم کسی ایک زبان سے دوسری زبان میں سفر کر رہا ہوتا ہے تو لازم ہے کہ اسے دونوں زبانوں سے گہری شناسائی کے ساتھ ساتھ دونوں زبانوں سے جڑی تہذیبی دنیا کا بھی گہرا شعور ہونا چاہیے۔ہمارے ہاں مترجمین کا المیہ یہ ہے کہ انھوں نے دونوں زبانوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے‘گوگل ٹرانسلیٹر پر بھروسہ کیا جس سے فن پارہ تو خراب ہوا‘اس میں موجود تاریخی شناختیں بھی تباہ ہو گئیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کی بڑی جامعات میں بھی ایک دو کے علاوہ ترجمے کے شعبے یا سرے سے موجود ہی نہیں‘اگر موجود ہیں تو ان میں اس معیار کا کام نہیں ہو رہا جس سے ترجمے کی روایت کو مضبوط تر بنایا جا سکے۔اسی طرح اگر ہم سرکاری ادبی اداروں کی جانب نگاہ ڈالیں تو ماضی میں ہمیں کچھ اچھی صورت حال نظر نہیں آتی۔اگرچہ حال ہی میں مجلس ترقی ادب اور اکادمی ادبیات پاکستان نے اس جانب توجہ دی ہے مگر یہ سلسلہ ابھی تسلی بخش نہیں ہے۔اس کے برعکس کچھ مترجمین نے اتنا وقیع کام کیا ہے کہ ادارے بھی اتنا کام نہیں کر سکتے مگر افسوس سرکاری اداروں میں ایوارڈ ز کی تقسیم میں ایسے لوگوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔زیادہ تر جامعات میں سند کے حصول کے لیے نوجوان محققین سے جو تراجم کروائے گئے‘وہ تراجم بھی افسوس ناک ہیں مگر نگرانوں کی مہربانی سے ایسے محققین کو بھی ڈریوں سے نوازا گیا جنہوں نے ترجمے کرتے ہوئے دونوں زبانوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا۔خیر جامعات میں تحقیق کے حوالے سے راقم سے قبل بہت لوگوں نے گرما گرم بحثیں کیں‘جن کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکا اور مستقبل قریب میں یہ ممکن بھی نہیں۔
راقم کو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی‘ملتان کے شعبہ اردو کی جانب سے جب ڈاکٹر ممتاز کلیانی(صدر شعبہ اردو)‘ڈاکٹر خاور نوازش اور ڈاکٹر فرزانہ کوکب کی جانب سے ترجمے پر بین الالقوامی کانفرنس کا دعوت نامہ موصول ہوا تو خوش گوار حیرت ہوئی۔کیونکہ جیسے میں پہلے ذکر کر چکا کہ ترجمے کے شعبے کو ہمارے ہاں اس درجہ عزت و وقار نہیں ملا‘جس کا یہ شعبہ مستحق تھا۔یہی وجہ ہے کہ ترجمہ شدہ کتب کی اشاعت بھی بہت کم ہے اور اچھے مترجمین کی تعدا بھی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔خوشی اس بات کی تھی کہ ترجمہ معاشروں کی کلچرل تنہائی کو دور کرتا ہے اور علمی و ادبی سطح پر یہ زبان سازی کے عمل میں معاون ہوتا ہے۔اس کے برعکس ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ترجمہ ناممکن ہے اور خاص طور پر وہ زبانیں جو اپنے لسانی مزاج‘اپنے شجرہ نسب‘اپنے رسم الخط اور اپنی اصوات کے اعتبار سے بالکل مختلف ہوں‘ان کے مابین ترجمے کا عمل ممکن نہیں ہوتا۔ایسی صورت حال میں مترجم پر انتہائی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ترجمے کی شکل و صورت کیسے باوقار بنائی جا سکتی ہے۔
مذکورہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں دس ملکوں سے ایک سو بیس کے قریب محققین نے شرکت کی‘نوجوان اسکالرز کے علاوہ اردو ادب کے مایہ ناز محققین و ناقدین اس کانفرنس کا حصہ تھے اور دو دن دس مختلف سیشنز میں ترجمے کے حوالے سے کئی اہم ترین موضوعات زیر بحث لائے گئے۔یہ موضوع خاص طور پر موضوعِ بحچ بنا رہا کہ ہمارے ہاں ترجمے کا شعبہ کیوں زوال کا شکار رہا اور جامعات میں ترجمے پر خاص توجہ کیوں نہیں دی گئی۔جب کوئی نوجوان محقق اپنے نگران سے ترجمے پر مقالہ کرنے کا کہتا ہے تو نگرانِ محترم اسے ترجمے کے مسائل پر گھنٹوں دلیلیں دیتے ہیں اور آخر کار اس نوجوان محقق کو ترجمے جیسے عظیم موضوع سے ہٹاکر اپنے کسی قریبی دوست کی شاعری پر تھیسز کروا لیتے ہیں۔یہ ظلم پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے اور اگر کوئی محقق ذاتی دل چسپی کے باعث ترجمے پر مقالے کا موضوع منظور کروا بھی لے تو نگران کار کی جانب سے کوئی توجہ نہیں مل پاتی۔
ہمارے ہاں نہ صرف عالمی ادب سے اردو میں تراجم کی اشد ضرورت ہے بلکہ عالمی فن پاروں کو دیگر علاقائی زبانوں میں بھی منتقل کیا جانا چاہیے۔اسی طرح علاقائی زبانوں سے اردو زبان اور انگریزی زبان میں تراجم کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔زبانوں کا آپس میں تعلق قائم ہونے سے تہذیبوں اور ثقافتوں کا مربوط رشتہ قائم ہو سکتا ہے جس سے ہم ”گلوبل ویلج“کا حصہ بن سکتے ہیں۔جب تک زبانوں اور تہذیبوں کا رشتہ مظبوط نہیں ہو سکتا‘ادبِ عالیہ کی تخلیق بھی ناممکن ہے‘ہمارے لکھاری جب تک دنیا کا عظیم ادب نہیں پڑھیں گے‘وہ عظیم ادب تخلیق کیسے کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی‘ملتان کے شعبہ اردو نے اس موضوع(ترجمہ اور بین الثقافتی مطالعات) پر کانفرنس سجا کرادیبوں اور محققین پر احسان کیا ہے‘ہمیں ایک ایسے زوال کا احساس دلایا ہے جس سے ہم قطعی لاعلم تھے۔میں اپنے سینئر دوستوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے کتاب سے محبت کرنے والوں کوترجمے جیسے عظیم موضوع کی اہمیت کا احساس دلایا۔یہی کام ہمارے ادبی اداروں اور جامعات کو کرنا چاہیے تاکہ ترجمہ نگاری کے فن کو عزت و وقار سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply