تاریخ، مورخ اور عقیدہ/ڈاکٹر اظہر وحید

عجب بات ہے، تاریخ کو عقیدے کی نگاہ سے دیکھا جائے تو مورخین کے نزدیک قابلِ قبول نہیں رہتی اور اگر اسے سرمہ عقیدت کے سرمائے کے بغیر دیکھا جائے تو یہ اہلِ عقیدہ کے ہاں قبول کے قابل نہیں ٹھہرتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

دراصل تاریخ بے رحم ہے، کسی کے جذبات، نظریات اور عقائد کا کچھ لحاظ نہیں رکھتی۔ تاریخ میں وہی جھانکے جس کے اندر اپنے طے شدہ نظریات کا تجزیہ کرانے کی ہمت اور ظرف موجود ہو۔
تاریخ مورخ کا بیان ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ مورخ کس نظریے پر کھڑا ہے۔ مورخ مصنف بھی ہوتا ہے اور منصف بھی۔ لازم ہے کہ وہ مسندِ انصاف پر بیٹھے۔ قرآن میں اہلِ ایمان کو ہدایت ہے کہ عدل کرو، عدل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اب عدل کے قریب وہی جائے گا جس کے پیشِ نظر تقویٰ ہو گا۔ فسق و فجور کی دنیا میں بسر کرنے والا جب اپنے ساتھ عدل نہیں کر سکا تو اپنے سائل کے ساتھ کیسے عدل کرے گا۔ بہرطور دیکھنا یہ ہے کہ مورخ کہاں کھڑا ہے۔ اگر مورخ ظالموں کے محلات کا وظیفہ خوار ہے تو واقعات کے تعبیر و تشریح میں قاضی شریح کی کرسی کا وارث بنے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جان اور ایمان کی سلامتی چاہنے والوں نے عافیت و رخصت کا راستہ اختیار کیا اور قاضی کا عہدہ کبھی قبول نہیں کیا۔
حدیث کے راویوں کی طرح مورخ کا شجرہ صداقت دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر مورخ بادشاہوں کا وظیفہ خوار ہے تو اس کی لکھی ہوئی تاریخ اپنے دور کا ایک سرکاری گزٹ ہے۔ سرکاری گزٹ میں حریتِ فکر والے باغی لکھے جاتے ہیں۔ ملک و ملت کی محبت رکھنے والے غدارِ وطن کہلاتے ہیں اور شاہانِ وقت کے قصیدہ خوان حب الوطنی کے تمغہ امتیاز سے نوازے جاتے ہیں۔ بہرطور تاریخ اور تاریخ دانوں کا یہی چلن اور طور طریق ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ خوانی ایک جز وقتی کام نہیں، بلکہ کل وقتی مصروفیت ہے۔ تاریخ پڑھنے والوں پر لازم ہے کہ گوشہ تنہائی میں معتکف ہوں، اپنے ہمراہ کسی تبصرہ نگار کو لے کر چلنے سے گریز کریں اور اپنے عقیدے سے کچھ دیر کے لیے پروانہِ رخصت لے لیں۔ اگر عقیدہ برحق ہو گا تو تاریخ سے سند لے گا اور جائے قیام مل جائے گی اور اگر قیل و قال اور تعصب کی پیداوار ہو گا تو تاریخ کے خونریز معرکوں میں جان کی امان پا کر راہِ فرار اختیار کر لے گا۔
مورخ کا عقیدہ جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ مورخ اگر مسندِ عدل پر فائز نہ ہو گا تو جا بجا اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتا نظر آئے گا۔ اس طرح تاریخ اور عقیدہ دونوں سے انصاف نہیں کر پائے گا۔ اپنا عقیدہ بچانے کے لیے اگر مورخ کچھ واقعات سے حذر کرے، یا پھر حذف کرے تو تاریخ کا خون ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہم اپنی نسلوں کو آدھا سچ پڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آدھا سچ مکمل جھوٹ ہوتا ہے۔ مورخ کا ایک جھوٹ کئی صدیوں اور کئی نسلوں کو نگل جاتا ہے۔ تاریخ سے ہم مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ اگر تاریخ ادھوری ہو گی تو مستقبل کا نقشہ بھی ادھورا رہے گا۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ہم تاریخ لکھتے ہوئے کچھ واقعات کا ذکر نہیں کرتے۔ مستبقل کا مورخ جب ہماری تاریخ لکھے گا تو ہمارے بارے میں کیا لکھے گا؟ آخری ایام میں میو ہسپتال کے اے وی ایچ وارڈ میں جب آپؒ جذب کے عالم میں تھے تو ایک جملہ دہراتے ”ہم نے اسلامک ہسٹری کو ری رائٹ کرنا ہے“۔
یہ ملت کے ماضی، حال اور مستقبل پر نظر رکھنے والے ایک اہلِ نظر جنونِ باخبر کا یہ اَمر ہے کہ ہمیں اپنی تاریخ از سرِ نَو مرتب کرنی چاہیے۔ یہ امر جانے کیسے رانا سہیل اقبال تک پہنچ گیا۔ رانا صاحب کے ساتھ مزارِ اقدس ہی پر علی الصبح ملاقات ہوا کرتی ہے۔ عدالت جانے سے پہلے اس دربار پر حاضری، یہاں قرآن کی تلاوت، نوافل اور پھول پیش کرنا ان کا روز کا معمول ہے۔ انہی حاضریوں کے دوران میں غالباً صاحبِ مزار نے ان کے دل کے کان میں سرگوشی کی ہو گی۔ یہ بات محض گمان اور عقیدت کے املغم کا نتیجہ مت جانیے بلکہ ان کی کتاب میں متعدد جگہ مجھے ایک روحانی تصرف نظر آیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ بات انہوں نے لکھی نہیں، ان سے لکھوائی گئی ہے۔ رانا سہیل پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں لیکن اپنی کتاب ”مقدمہِ اسلام“ میں ایک منصف کی حیثیت سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے دل میں دین کا درد ہے، یہ ملت کو فرقوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ اہم بات یہ ہے کہ وکیل ہونے باوجود یہ کسی فرقے کی وکالت کرتے نظر نہیں آتے۔ بس حقائق بیان کرتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کو نظریاتی اختلافات مت بناؤ۔ ان کے نزدیک شیعہ اور سنی دو فرقے نہیں، بلکہ اسلام میں دو سیاسی پارٹیاں ہیں۔ آدم تا ایں دم دین، بس دینِ اسلام ہی ہے، سب انبیاء یہی پیغام لے کر مبعوث ہوئے۔ جو مذاہب اسلام میں داخل نہیں ہو سکے، وہ الگ الگ فرقے بن گئے، ان کے نزدیک یہودیت، عیسائیت، مجوسیت، زرتشتیت وغیرہ اصل میں دینِ اسلام سے نکل جانے والے فرقے ہیں۔ اس بنا پر یہ اہلِ اسلام کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ ہمیں اپنے دین کو ایک فرقہ نہیں بنا لینا چاہیے بلکہ اصل دینِ اسلام یعنی دینِ فطرف کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہ نکتہ یقیناً قابلِ غور ہے۔ ان کے اس خیال کی سند قرآن میں ان الفاظ میں ملتی ہے ”کہہ دیں! اے اہلِ کتاب! آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، کہ ہم اللہ کے سوا کسی کو شریک نہیں کریں گے اور بعض میں سے بعض کو اللہ کے مقابلے میں اپنا رب نہیں بنائیں گے، اگر وہ اس بات سے منہ موڑیں تو کہو کہ گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں“۔
تاریخی واقعہ بھی رب کی ایک نشانی ہوتی ہے۔ جس طرح کوئی آیت نہیں چھپانی چاہیے، اس طرح تاریخی واقعات میں بھی تحریف یا تحذیف کا مرتکب نہ ہونا چاہیے۔ تاریخ نوعِ انسانی کی مشترک میراث ہے۔ اس میراث پر ڈاکہ نہیں ڈالنا چاہیے۔ یہ انسانی فکر کا قتل ہے۔ تحریف شدہ تاریخ انسان کی حریتِ فکر کے قتل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تاریخ کی توہین اور تحریف پر بھی مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ ظالم اور مظلوم کو ایک صف میں کھڑا کرنے والے مورخین کے خلاف ابھی تک کسی نے زنجیرِ عدل کیوں نہیں ہلائی۔ مقتول کو اپنے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے والے پر کسی نے مقدمہ دائر کیوں نہیں کیا۔
مشکل یہ ہے کہ انسان اپنے عقیدے اور نظریے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ کسی عقیدے اور نظریے پر اپنی فکر کی بنیاد رکھنا انسانی فکر و شعور کی مجبوری بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی فکر کی ربوبیت کے لیے ہدایت کے رزق کا آسمان سے نازل ہونا ضروری قرار پایا۔ دین کا الہامی ہونا ضروری ہے۔ بے عقیدہ ہونا بھی ایک عقیدہ ہے۔ بے دین ہونے والا بھی ایک خود تراشیدہ دین کا داعی ہوتا ہے۔ خدا کو نہ ماننے والا اپنے نفس کو مان رہا ہوتا ہے۔
تاریخ کا درست نصاب پڑھنے کی ہمت پیدا کرنے کے لیے ایک فکری تپسّیا سے گزرنا ضروری ہے۔ اگر کسی فکری ریاضت کے بغیر تاریخ کی راہداریوں پر قدم رکھا جائے تو قاری اپنے مورخ کے نظریے کا پُرجوش وکیل بن جاتا ہے۔
لازم ہے کہ تاریخ عقیدے کے تابع نہ رکھی جائے اور عقیدہ تاریخ کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے فرقے ہماری عقیدت میں فرق کا نتیجہ ہیں۔ مختلف فرقے دراصل مختلف مکاتبِ فکر ہیں۔ جس طرح دوسرے کی رائے کا احترام ضروری ہے، اس طرح دوسرے کے عقیدے کا احترام بھی واجب ہے۔
عقیدہ خیال کا عقد ہے۔ انسان کی ماورائی فکر کی پرواز کے لیے یہ ایک ریفرنس پوائنٹ ہے۔ عقیدہ شخصیات کے گرد عقیدت سے پرورش پاتا ہے۔ اس کا تعلق قلب سے ہے۔ یہ روح کی دنیا میں سیر کرتا ہے۔ یہ بہت کم عقل سے دلیل طلب کرتا ہے۔ اسے کسی تاریخی سند کی بھی حاجت نہیں ہوتی۔ یہ دل کا دل سے اور روح کا روح سے ایک ماورائی تعلق ہے۔
بہر طور رانا سہیل کی یہ کتاب جہاں مذاہبِ عالم میں ایک گونہ ہم آہنگی کا پیغام ہے وہاں عالمِ اسلام میں فرقہ پرستی کے ناسور پر قابو پانے کی ایک عمدہ فکری تدبیر بھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply