• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بینظیر انکم سپورٹ یا بھکاری کلچر کا فروغ۔۔۔ نعیم الدین جمالی

بینظیر انکم سپورٹ یا بھکاری کلچر کا فروغ۔۔۔ نعیم الدین جمالی

 

اچھے کام کرنا خوش نصیب لوگوں کی علامت ہوا کرتی ہے، رفاہ عام اور غریبوں کی مدد کرنے والا ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے،انسانیت کی تڑپ رکھنے والا دل کسی کسی کو ملتا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور بھٹو خاندان کے دلوں میں غریبوں کے لیے ہمدردی تھی، وہ غریبوں کو بھی وہی عزت دیتے تھے جو ان کے پاس امیروں کے لیے تھی۔شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کے کارنامے اور غریبوں کے لیے جو پراجیکٹ انہوں نے شروع کیے تھے اگر ان کا تذکرہ ہم کریں گے تو بات خاصی لمبی ہوجائے گی۔بینظیر شہید نے غریبوں کی امداد کے لیے ایک پراجیکٹ شروع کیا تھا جسے آج بینظیر انکم سپورٹ کے نام سے ہم سبھی جانتے ہیں، ملک کے طول وعرض میں اس پراجیکٹ سے ہزاروں غریب، بیوہ عورتیں اور لاچار لوگ مستفید ہورہے ہیں۔
اس کار خیر کی جتنی بھلائی بیان کی جائے کم ہے، لیکن اس پراجیکٹ کے پس پردہ جو ظلم کی داستان ہے وہ بڑی دردناک ہے۔
اس کے ذریعے خواتین کی جتنی تذلیل ہورہی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔دوسرے علاقوں کا مجھے علم نہیں لیکن اپنے علاقے بدین اور اس کی تمام تحصیلوں میں جب اس پراجیکٹ کی رقم تقسیم ہونا شروع ہوتی ہے تو بجائے خوشی کے دل خون کے آنسو روتا ہے.۔جب یہ رقم آتی ہے تو خواتین کو کئی کئی دن تک بینکوں کے سامنے لائن میں لگنا پڑتا ہے، بےپردگی، ہوس کے پجاریوں کا عزت دار گھرانوں کی خواتین کو تنگ کرنے کے بیشتر واقعات میرے سامنے ہیں۔
قسط عموماًپانچ ہزار تک آتی ہے، کبھی ہر مہینے تو کبھی دومہینوں کے بعد، لیکن اس قسط کو حاصل کرنے کے لیے خواتین دور دراز دیہاتوں سے کرائے بھر کر آتی ہیں، دو سے تین دن دھکے کھانے کے ساتھ ایک ہزار کھانے پینے پر خرچ ہوجاتا ہے، کرایوں کو ساتھ ملالیا جائے تو دوہزار ہر قسط سے اس مد میں چلے جاتے ہیں، باقی تین ہزار بچتے ہیں ان میں سے پانچ سو یا ہزار ایجنڈ ہڑپ کرجاتے ہیں، کبھی کبھی ایجنڈ اتنے مہربان ہوتے ہیں کہ پوری پوری رقم اے ٹی ایم سے نکال کر جیب میں رکھ کر گاؤں کی ناسمجھ خواتین کو یہ کہہ کر ٹرخا دیتے ہیں آپ کے کارڈ میں تو پیسے ہی نہیں آئے۔
خواتین کی اے ٹی ایم پر اتنی رش ہوتی ہے ،روزانہ کئی خواتین بیہوش ہوجاتی ہیں۔
روز بینک کے سامنے سے گذرتے ہوئے اس اسکیم کے بارے میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں، عوام کو ریلیف کے نام پر بھیک مانگنے کی مشق تو نہیں کرائی جارہی، کہیں حکومت انہیں پرائے ٹکڑوں پر پلنے کے ساتھ انہیں بےشعور تو نہیں رکھنا چاہتی؟؟کیا حکومت کوئی ایسا طریقہ نہیں نکال سکتی جہاں ان کو سکون اور عزت سے پیسے مل جائیں، دھوکے باز ایجنڈوں سے ان کی رقم کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا۔
اگر یہ  اسکیم عوام کے لیے ہی ہے تو ان پیسوں کی بندر بانٹ کے بجائے اتنے پیسے تعلیم پر خرچ کیے جائیں جہاں سندھ کے ہزاروں بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوجائیں گے، تعلیمی شعور کے ساتھ ان کا مستقبل سنور جائے گا، آگے وہ خود کفیل ہوں گے، بھکاری کلچر سے انہیں آزادی میسر ہوگی۔اگر تعلیم دلانا مقصود نہیں بلکہ سندھ کی عوام کو جاہل رکھ کر ہی حکومت کرنی ہے تو ان پیسوں سے فیکٹریاں بنائی جائیں، ہر ضلعے میں ہزاروں غریب خاندانوں کو روزگار بھی میسر ہوگا اور ساتھ ساتھ پیسوں سے منافع بھی آتا رہے گا۔باقی پیسوں کی اس تقسیم سے سندھ کبھی خوشحال نہیں ہوسکتا، عورتیں اسی طرح ذلیل ہوتی رہیں گی، شعور مردہ لاش ہی رہے گا،اور بھکاری کلچر فروغ پاتا رہے گا ـ

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply