بیماری پر سیاست نہ کریں ۔۔۔عامر خاکوانی

میاں نواز شریف کی شدید علالت اور ہسپتال میں ہنگامی صورتحال کی خبر سے دھچکا سا لگا۔میاں صاحب ہماری سیاست کا بہت اہم مرکزی کردار ہیں، ان سے اختلاف، اتفاق اپنی جگہ، مگر ان کے نقوش بڑے گہرے ہیں اور سیاسی موقف سے اختلاف کرنے والے بھی نواز شریف کی شخصیت، سیاست میں ان کے اثرات اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔میاں صاحب کے حوالے سے اچانک ایسی تشویشناک خبریں چلنا ہر ایک کے لئے پریشانی کا باعث بنیں۔ یہ موضوع خاصا نازک اور مشکل ہے، کھل کر کہنا آسان نہیں ۔ کسی بھی حوالے سے کچھ کہا جائے تو ایک حلقے کی دل آزاری ہوجائے گی۔ میاں صاحب کے مداح ان کے حوالے سے کوئی تنقید ی بات سننے کو تیار نہیں ،جبکہ تحریک انصاف کے پرجوش حامی میاں نواز شریف کے لئے نرم جملہ ہضم نہیں کر پاتے۔ ان دونوں کی شدتیں اپنی جگہ، مگر دیگر سیاستدانوں کی طرح میاں نواز شریف کی شخصیت کے بھی دو پہلو ہیں، ذاتی یا شخصی اور دوسرا سیاسی ۔ شخصی اعتبار سے میاں نواز شریف نرم مزاج، معتدل شخصیت ہیں۔ ان کے اندر ایک خاص قسم کی خوئے دلنوازی موجود ہے۔ مسلم لیگی کارکنوں میں وہ اسی وجہ سے مقبول ہیںجبکہ یہ وہ وصف ہے جس سے شہباز شریف صاحب محروم ہیں ۔ لیگی کارکنوں میں شہباز صاحب کی عدم مقبولیت کی وجہ بھی یہی ہے۔ نواز شریف صاحب کو قریب سے جاننے والے ایک جملہ کہا کرتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں حیا اورایک خاص قسم کی وضع داری موجود ہے۔ان کے مخالفین کے پاس بھی ممکن ہے اپنے منفی تاثرکے حق میں چند ایک واقعات ہوں، مگر میاں صاحب کی شخصیت کا عمومی تاثر نرم اور مہربان شخص کا ہے۔ چہرے پر نرمی، مسکراہٹ اور لوگوں سے کھلے دل سے ملنا ۔ میرے جیسے عا م اخبارنویس ، جونان سوشل ہو اور اقتدار کے ایوانوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتا ہو، اسی لئے ذاتی ملاقاتیں یا براہ راست نوعیت کے تجربات موجود نہیں۔ہمارے تھنکرز فورم سی این اے (کونسل آف نیشنل افیئرز )نے 2013 کے الیکشن سے قبل اہم قومی سیاستدانوں سے ملاقاتوںاور ان کا ایجنڈا براہ راست سننے کی ایک مشق کی تھی۔ اس سلسلے میں سی این اے کے وفد نے میاں نواز شریف سے جاتی عمرہ اور عمران خان سے زماں پارک کے گھر میں ملاقات کی تھی۔سید منور حسن سے بھی بعض ساتھی منصورہ میں ملے تھے۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے، ان سے بھی ایک خصوصی سیشن ہوا تھا۔ میاں نواز شریف سے ملاقات میں مجھے یاد ہے کہ وہ خاموشی سے باتیں سنتے رہے۔ ان سے سوالات کئے گئے تو وہ جوابی سوال داغ دیتے کہ آپ کا کیا خیال ہے؟جب ملاقات ختم ہوئی تو وہ کمرے سے باہر سب کو چھوڑنے آئے اور نہایت تپاک سے ہر ایک سے مصافحہ کیا۔انہیں جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ نواز شریف صاحب کا خاص سٹائل رہاہے، انکسار سے ، محبت سے ملنا۔ یہ چیزیں شائد اپنے والد میاں شریف سے لیں جن کی پبلک ریلیشننگ مثالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ نواز شریف صاحب کے ساتھ کسی کا تعلق رہا تو اسے یاد رکھا، جسے دل میں بسایا، اسے نکالا نہیں، جسے نکال دیا، اسے پھر جگہ نہ ملی۔ میاں نواز شریف کی سیاست ایک زمانے میں رائٹ ونگ سے جڑی تھی، بعد میں وہ شعوری کوشش کر کے سینٹر میں آ گئے۔ رائٹ والوں کا ایک حلقہ مگر ان کے ساتھ جڑا رہا۔ جو لوگ الگ ہوئے ،ان کے دل میں بھی میاں صاحب کے لئے کچھ جگہ ضرور رہی ۔ ہمارے جیسے رائٹ ونگ کے لوگوں کا میاں نواز شریف کے ساتھ رومانس پیپلزپارٹی، مسلم لیگ کی کشمکش کے دنوں میں پیدا ہوا۔ جنرل ضیا ء کے بعد قومی سیاست پر پیپلزپارٹی سونامی کی طرح یلغار کر آئی اور ایک طرح سے چھا جاتی ، اگر پنجاب میں ایک حلقہ اس کی مزاحمت نہ کرتا۔ میاں نواز شریف اس اینٹی پیپلزپارٹی محاذ کے قائد بن گئے۔ اگرچہ مقتدر قوتوں نے بھی ان کی سرپرستی، پشت پناہی کی، مگر بہرحال محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں کھڑا ہونا اور تمام اینٹی بھٹو قوتوں کو اکٹھا کرنے میں ان کا کردار بھی کم اہم نہیں تھا۔ آئی جے آئی کی سیاست کے دنوں سے ہمارے جیسے طلبہ کے لئے نواز شریف صاحب کشش کا مرکز بنے ۔ وہ شعلہ بیاں مقرر نہیں تھے، ان میں بھٹو صاحب والا یا بی بی جیسا کرزما بھی نہیں تھا۔اپنے مخصوص دیسی ٹچ ، شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ نواز شریف نے بہرحال اپنا ووٹ بینک بنایا۔ کالج کے زمانے میں اپنے جیالے دوستوں کے ساتھ بحث مباحثوں میں ہم نے ہمیشہ نواز شریف صاحب کا مقدمہ لڑا اور ڈٹ کر دفاع کیا۔ تکبیر، زندگی ، اردو ڈائجسٹ پڑھتے اور انہی کا بیانہ ہمیں ازبر ہوتا۔ جہاں بحث چھڑتی، بقول شخصے کشتوں کے پشتے لگا دیتے۔جب نواز شریف نے غلام اسحاق خان کے خلاف اپنی مشہور تقریر ’’میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘‘کی توبابا جی کی نسبت ہم نوجوان نواز شریف صاحب کے موقف کے قائل ہوئے۔ ان کی اسمبلی توڑی گئی، بحال ہوئی۔ اس دوران سپریم کورٹ کی کارروائی کی تفصیل انتہائی دلچسپی سے پڑھتے رہے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ میں تب جسٹس کارنیلیس کی روح محسوس ہوتی تھی۔ یہ اور بعد بہت سالوں بعد اس کیس کے حوالے سے کئی ایسی باتیں پتہ چلیں جو کسی نجی محفل میں تو سنائی جا سکتی ہیں، لکھنا ممکن نہیں۔ میرا خیال ہے کہ نوے کے عشرے کے اوائل ، وسط میں یہ تقریبا ہر رائٹسٹ نوجوان یا کم از کم طالبعلم کے خیالات، نظریات تھے۔ اگلے چند برسوں میں بہت کچھ بدل گیا۔ خیالات، نظریات، دیکھنے کا زاویہ۔ عملی صحافت میں آنے کے بعد بہت سی ان باتوں کا علم ہوا جنہیں کوئی چھاپ سکتا ہے نہ نشر۔ہسپتال میں زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا مریض کی خامیوں یا غلطیوں کے حوالے سے اس وقت کچھ لکھنا مناسب نہیں۔بہرحال رومانس فنا ہوا، کرزما بھی تحلیل اور مدح بھی نہ رہی۔اس سب کو اب دو اڑھائی عشرے گزر گئے۔ طالب علم کے سر میں چاندی اتر نے لگی۔میاں صاحب کے نرم چہرے پر بھی وہ حلاوت نہیں رہی۔ پانامہ کے بعد تو ان کے چہرے پر بھی عجیب ، اجنبی سی سختی اتر آئی، جھنجھلاہٹ آمیز تاثر چھا گیا، آواز بھی یکا یک بدل گئی۔ حالات کا جبر شائد بہت کچھ تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ قابل فہم بھی ہے۔میاں نواز شریف کے جیل جانے کا بھی دکھ ہوا۔ افسوس کہ وہ ’’پوسٹ پانامہ‘‘ منظرنامے کا درست ادراک نہ کر پائے،غلطیاں در غلطیاں ہوتی رہیں اور انہیں اس عمر میں جیل جانا پڑا۔جیل میں ان کی بیماری کی خبریں بھی ظاہر ہے دل خوش کن نہیںتھیں، مگر یوں اچانک میاں صاحب کی یوں بگڑتی حالت کا سن کر دلی دکھ ہوا۔ اللہ انہیں صحت دے ۔ بیماری کو ہرگز سیاست کا معاملہ نہیں بنانا چاہیے ۔ کسی کی بیماری کو طنز، طعنے یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔بدقسمتی سے ایسا دونوں اطراف سے ہوتا رہا۔ میاں نواز شریف لندن گئے ، بیمار ہوے، ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ ن لیگ والوں نے اسے خواہ مخواہ پراسرار بنایا، جواب میں یار لوگوں نے طرح طرح کی کہانیاں بنائیںاور یہ تاثر دیا کہ جیسے ہارٹ سرجری ہوئی ہی نہیں۔ ظاہر ہے یہ غلط تھا ، مگر کچھ لوگ ایسا کہتے رہے۔ اسی طرح بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے حوالے سے بھی متضاد باتیں کہی جاتی رہیں۔ ان کے انتقال سے یقینا مخالفین کو یہ احساس ہوا ہوگا کہ ہم غلط مفروضے بناتے رہے۔ بیماری دوست کی ہو یا دشمن کی، وہ ہمیشہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتی ہے۔ موت تو خیر ایک بھیانک حقیقت ہے ہی، بیماری بھی کچھ کم تلخ ، کڑوی نہیں۔مجھے جنرل پرویز مشرف سے شدید اختلاف ہے، انہیں پاکستانی تاریخ کا بدترین ڈکٹیٹر سمجھتا ہوں۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک میں اتنے کالم لکھے کہ الگ کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود چند ماہ پہلے پرویز مشرف کی سنگین بیماری کی خبریں آئیں اور بعض ایسی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنیں جن میں ان کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ مشرف کے مخالفین، خاص کر ن لیگی احباب نے خوب طعنہ زنی کی اور دوسروں کو عبرت دلائی۔ یہ سب بالکل اچھا نہیں لگا۔ اللہ ہر ایک پر رحم کرے۔ مشکل وقت کسی پر بھی آ سکتا ہے۔دشمنوں، مخالفین کے لئے بھی اللہ کی رحمت ہی مانگنی چاہیے، یہی سیرت ہمیں سکھاتی ہے۔ میاں نواز شریف ہسپتال میں ہیں، اللہ ان پر کرم کرے، انہیں شفا کاملہ عاجلہ عطا کرے، آمین۔ ان کے علاج کے لئے بہترین سہولتیں فراہم ہونی چاہئیں۔وزیراعظم نے اس حوالے سے ہدایت جاری کر کے مثبت اقدام کیا۔ میری رائے میں اگر ڈاکٹر یہ سمجھیں اور میاں صاحب رضامند ہوں تو انہیں باہربھیجنے میںدیر نہیں کرنی چاہیے۔ سیاست اپنی جگہ، مگر زندگی بچانا اور صحت یاب ہونا پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ مجھے تو اس پر بھی حیرت ہوئی کہ مریم نواز کو نیب ہسپتال سے واپس لے گئی۔ اگر مریم نواز دو تین دن مزید اپنے بیمار والد کے پاس رہ جاتیں تو کیا ہو جاتا؟ الٹا نیب کا مثبت تاثر قائم ہوتا۔ مسلم لیگ ن کے حامیوں کو بھی اس معاملے کو سیاست کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نے اسے صوبائی تعصب کا مسئلہ بھی بنایا۔میاں نواز شریف کی بیماری پنجاب کا مسئلہ ہے نہ اس میں پنجابیوں کو اٹھنے کی ترغیب دینے کی کوئی تک ہے۔یہ سیاست کا موقعہ ہی نہیں۔ میاں صاحب مشکل میں ہیں، ہمیں ان کی صحت یابی کی دعا کرنی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہر اہم معاملے کو متنازع اور زہریلا بنایا جائے۔ کسی میں اتفاق رائے بھی کام چل سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply