بچپن اور برف کا گولا۔۔فراست محمود

دیکھنے اور سننے میں ہم چھوٹے تو نہیں مگر شمار بڑوں میں بھی نہیں ہوتے۔گو کہ زندگی کی پینتیس بہاریں (اوسط پاکستانی عمر کے دو حصے) ہم دیکھ چکے اور وقت کے ساتھ  ساتھ عقل کی سیڑھیاں  چڑھ گئے مگر وہ مزہ کہاں جو نادانیوں میں تھا۔ زندگی تو اس دن ختم ہو گئی تھی جب بچپن نے دھکا دے کر جوانی کی دہلیز پار کروائی تھی اب تو سانسوں کا سفر ہے پتہ نہیں کب تک جاری رہ سکے۔زندگی کے ناتواں کندھوں پہ جب ذمہ داریوں اور مجبوریوں کا بوجھ پڑا تو بچپن کی عیاشیاں گویا خواب ہی ہو گئیں۔اور غم حیات میں الجھے ہیں ہم یوں کہ بھول بیٹھے ہیں ذات اپنی بھی۔
زندگی میں اسٹیج تو آتی ہیں تین طرح کی۔
آپ سونا چاہتے ہیں مگر آپ کے پاس وقت نہیں ہوتا۔آپ کے پاس وقت ہوتا ہے مگر آپ سونا نہیں چاہتے ہوتے اور پھر آپ کے پاس وقت بھی ہوتا ہے آپ سونا بھی چاہتے ہیں مگر نیند نہیں آتی آپ کو۔

گزرا وقت نہ لوٹ کے کبھی آتا ہے اور نہ ہی آئے گا مگر گزرے وقت کی حسین یادیں کبھی کبھی چھیڑ خانی کرتی ہیں ایسے جیسے سمندر کی لہریں ساحل کو چھو کر واپس چلی جاتی ہیں۔
ایسا چکر ہے یہ حیات کا گھوم کے رہ جاتا ہے بندہ اس میں۔

زندگی کے حسین لمحے اور حسین موسم تو بچپنے کے ہی ہوتے ہیں جہاں ساون کی تیز بارش میں ننگے پاؤں اور ننگے جسم قدرت کی تخلیق کردہ کائنات سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔قوس قزح کے رنگوں سے سجی زندگی خوبصورت اور بہت خوبصورت ہوتی ہے۔مگر غم روزگار نے کیا کیا نہ چھین لیا ہم سے۔
دسمبر کی یخ بستہ صبحوں کو سویرے سویرے امی کا جگانا اور  وضو کے لئے  پانی دینا۔فجرکی سنتیں شعیب اختر کی سپیڈ سے ادا کرکے دوسری رکعت میں کھڑا ہونا امام کے پیچھے۔سیپارہ پڑھنے جانا پھر ماسی کے گھر۔فراغت سے   چائے کے ساتھ ملنا گرم گرم پراٹھا۔کھا کے جسے خود ہی تیار ہونا سکول کے لئے۔اپنے کپڑے کے بستے کو جو ایک مخصوص جگہ پہ ہمیشہ ٹانگا ہوتا تھا جس میں ترتیب سے کاپیاں اور کتابیں سجائی ہوتی تھیں جیومیٹری تو چھٹی جماعت میں جاکر خریدی جب چھوٹی اور بڑی اے بی سی پڑھنا اور لکھنا سیکھا۔کچی پنسل بھی شامل رہی خواہشوں میں ہمیشہ کیوں کہ سکے (چندا کے فیوز) سیلوں سے نکال کر استعمال کئے جو بعد میں کھیلنے کے بھی کام آئے خوب۔

سکول جاتے وقت نقد پیسے تو کم ہی ملے کیونکہ ابا کی دکان سے چیز ہی لینی ہوتی تھی کبھی کبھی مل ہی جاتے ،جس سے سکول کے نزدیک بنی (ٹک شاپ) بابا غلام حسین اور ماسی صفیحاں کی چارپائی پہ سجائی گئی ہٹی (دکاں) سے مالٹے والی ٹافیاں،بڈھا جوان چورن،پتیسا نمک لگے مالٹے پسندیدہ غذائیں ہوا کرتی تھیں۔

عبدالرحمان پتیسے والا ریاض پاپڑوں والا بھی خوب پیسے بٹور لیا کرتے تھے ہم سے۔بابا رمضان کی رنگ برنگی برفانیاں قلفیاں بھی دل کو بھاتی تھیں اورچ رنگوں سے سجا برف گولہ زندگی میں رنگ بھر دیا کرتا تھا۔
گاؤں میں ایک صرف K.G سکول(ضیائے حرم ) ہوتا جس میں صرف امیروں کے بچے پڑھا کرتے تھے۔جس میں میرا ایک کزن (لنگوٹیا) بھی جایا کرتا جسے رشک بھری نظروں سے دیکھا جاتا ایک تو وہ اکیلا جب کہ ہم پانچ بھائی دوسر اس کا ابا فوجی اور اپنا ابا دکاندار تھا سو سرکاری سکولوں میں ہی ابتدائی ثانوی اور اعلٰی تعلیم حاصل کی۔
تفریح کے وقت گھر جانا اور ابے کی دکان سے اپنی پسند کی چیز (اکثر بٹر اسکاچ ٹافی لال کلی والی) لینا۔

اسلام کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ میانہ رو طالبعلموں میں شامل رہے ہم۔یوں تو ہر شخص کے بچپن سے جڑے تمام واقعات ہی دلچسپ ہوتے ہیں مگر کچھ واقعات خاص الخاص ہو کر یاد رہ جاتے ہیں جیسے ایک بار استاد محترم نے ہمسائے کو ہر صورت ساتھ سکول لانے کو کہا جس کی سکول چلنے کو منتیں کیں مگر وہ نہ مانا اور اسی چکر میں سکول سے لیٹ ہو گیا تو ابے کو پتہ چل گیا تو ابے نے سیر کرائی چاند کی خوب۔(مار نہیں پیار والا شہباز شریف نہیں ہوتا تھا اس وقت)اور رو دھو کر سکول پہنچا تو ابے نے کلاس میں آکر مجھے دو روپے دے دئے۔(گویا عید ہو گئی اپنی).
اسکول سے فراغت کے بعد پھر سیپارہ پڑھنے جانا واپسی خوب(مغرب تک) کرکٹ کھیلنا۔رات کا کھانا کھا کر آٹھ بجے پی ٹی وی کے ڈرامے (انگار وادی،لاگ،آغوش،ہوائیں،آہٹ،آنچ،دھواں، حقیقت وغیرہ )دیکھنا اور بجلی نہ جانے کی دعائیں مانگنا۔
ڈرامہ دیکھنے کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی رات میں صبح تک سونا۔
دی چپس انگریزی فلم،عینک والا جن، کرول جیسے نایاب شاہکار بھی اپنے بچپن کا حصہ رہے ہیں۔
نستور جن کے لئے رحمانہ جذبات اور دعاؤں کے ساتھ ہامون جادوگر اور بل بتوڑی کے لے ہم نے بدعائیں بھی کی ہیں۔
جیٹھ ہاڑ کی تپتی دوپہروں میں امی سے آنکھ بچا کر بھائی کے ساتھ آوارہ گردی کرنا اور پھر گھر آکر مار کھانے کا بھی اپنا مزہ ہوتا۔
ہم نے بیریوں، جامنوں اور آم کے درختوں پہ چڑھ کر ان پھلوں کے ساتھ گالیوں کے ذائقے بھی حلق سے اتارے ہیں۔
بھڑوں (ڈیموؤں) اور شہد کی مکھیوں سے پنگا لے کر ہم نے منہ بھی موٹے کئے ہیں اپنے۔
الطہور شہر الایمان جیسی حدیثیں سن کر ہم نے بارش کے کھڑے گندے پانیوں سے پاکیزگیاں بھی حاصل کی ہیں۔
ہم نے لوگوں کے دروازوں کی گھنٹیوں پہ ٹیپیں بھی چپکائیں اور خوب ماریں بھی کھائی ہیں۔

ایک بار بھائی کے ساتھ مل کر چلتی وین سے (ندیم اور سلطان راہی بن کر) چھلانگیں مارنا اور پھر ابو سے مار کھانا۔ہائے زندگی تیری کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤں میں۔
کہتے ہیں کہ جہاں جہاں والدین اور استاد کی مار پڑ گئی تو وہ جگہ جنت میں جائے گی تو اس لحاظ سے اپنا بھائی(طاہر) تو پورے کا پورا ہی جنتی ہوگااور ہمارے بھی زدیاہ حصے جنت کی ہی زینت بنے گے۔
عیدی جو کہ بیس سے تیس روپے پہ مشتمل ہوتی تھی کی دل کھول کر عیاشی کرنا کھلونے ،لاٹریاں لینا اور شام سے ذرا پہلے آخری جمع پونجی بوتل (شیزان،فانٹا) پہ خرچ کر دینا۔
کینچوے (بنٹے) کھیلنا،پٹھو گرم،اخروٹ کھیلنا،چور سپاہی چھپن چھپائی،کوکلا چھپائی جمعرات آئی اے،پرچیاں کھیلنا،یسو پنجو ہار کبوتر ڈولی پسندیدہ کھیل تھے اپنے۔اتنے خوبصورت اور دلچسپ واقعات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیکن تحریر کی طوالت کے باعث پھر کبھی بچپن کی خوبصورت وادی کی سیر کے لئے نکلیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر شخص کے اندر کا بچا جو کسی وقت بھی اچھل کر باہر آسکتا ہے اور برف گولے،چنے چاٹ اور قلفیاں کھانے پہ مجبور کر دیا کرتا ہے سو آج ساون کے خوبصورت موسم میں بچے نے انگڑائی لی ایسی کہ برف کا گولہ کھانے پہ دل آگیا مگر آج بیوی کے ڈر سے احتیاط سے کھایا تاکہ کپڑوں پہ نہ گرے ورنہ ڈانٹ ڈپٹ پکی۔
ایک بار چھوٹے بھائی سے امی نے غصے میں (اڈنڑی جوگیا کہہ کر) پوچھ لیا کہ کپڑوں کے کف کیوں چوستے ہو تو کیا خوب معصومیت بھرا جواب ملا “اندر سے چورن(میل) آتی ہے۔ہاہاہا۔
آج جیب میں پیسے ہیں مگر ان چیزوں کو خریدنے والا بچہ کہیں گم ہو گیا اور بلند آواز سے صدائیں کر رہا ہے!!!!!
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو
بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی
وہ بارش کا پانی۔
(طاہر محمود،محمد ادریس،نذر عباس ،مرتضی حسین،جواد کاظمی،قیصر عباس مرحوم،اور صفدری بچپن کے دوست ہوتے تھے).

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply