باپ اور نسل۔۔حسان عالمگیر عباسی

سنا ہے کہ باپ راضی تو خدا راضی۔ کتنا آسان سا فارمولا ہے۔ خدا راضی تو والد راضی۔ ہیں؟ یہ تو پلٹا کھا گیا ۔ حقیقت البتہ یہی ہے کہ ابا راضی تو خدا راضی۔ یہ تو پھر سے الٹ گیا۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے چونکہ رضا الرب فی رضا الوالد یا رضا الوالد فی رضا الرب ایک ہی کٹے روپے کے دو رُخ ہیں۔
کیسے دو رُخ ہیں؟ دیکھیں۔۔ خدا نے کہہ دیا ہے کہ اس کی رضا باپ کی رضا سے مشروط ہے۔ جب باپ سے ہی خدا ناراض ہو تو اس کی رضا میں راضی رہنا بشرطیکہ نافرمانی اس کی رضا ہو تو خدا کی ناراضی کا باعث ہو سکتی ہے لہذا ‘والد راضی تو خدا راضی’ ہلکے پھلکے سیاقی سباقی ناگزیر تبدیلی مانگ رہا ہے۔ جب دین کو ولد و والد باپوں کا باپ مان لیں تو ‘خدا راضی تو باپ راضی’ ہی مقبول سمجھا جانے لگتا ہے۔

سیدھا کہوں تو یہ کہ باپ بیٹے کی خدا سے رضا چاہتا ہے۔ اب ‘خدا کی رضا باپ کی رضا سے مشروط ہے’ بھی ‘باپ کی خدا سے دوستی’ سے مشروط ہے۔ باپ مشرک نافرمان ہے تو اس کا فرمان کسی بھی حیثیت کا مالک نہیں ہے البتہ چونکہ وہ باپ ہے اس لیے ہر وہ بات ماننی ہے جو خدا کی بات سے نہ الجھتی ہو۔

لازمی نہیں ہے کہ ہر باپ ایسا ہی ہو جس کی اولاد کو خدا سے منوانا اچھا لگے، کئی بدبختوں کی خوشی اسی میں ہوتی ہے کہ نسل رب سے روٹھی رہے۔یہ تو توفیق و عطا کی باتیں ہیں۔ جسے چاہے نواز دے۔ ایسی صورت میں باپ کی بات ردی کی ٹوکری میں سجا کے رکھیں۔ سجانا اس لیے ضروری ہے تاکہ ٹھیس نہ لگے۔ اوّل تو کھٹاک سے ٹال دیں، ٹالنے میں دل ٹوٹنے لگے تو ‘ٹال مٹول’ دوسرا ہتھکنڈا ہے۔ تیسرا ہتھیار ہے کہ ‘کٹ لے۔’ ہاں، کٹ لیا؟ اب بھی اصرار ہے؟ ‘کاٹ لے۔’ تار ہی کاٹ لے۔ اب کئی تاریں ہوں اور وہ تار کاٹنی ہو جس سے دھماکہ نہ پھٹے تو ایک ہی حل ہے کہ دھمکایا جائے۔ ارے نہیں، مارنا وارنا نہیں ہے دھاڑنا ہے۔ رونا پیٹنا ہے۔ ایموشنز سے کھیلنا ہے۔ بلیک میلنگ۔ رشتوں میں دراڑ ڈل جانے کا کہنا ہے۔ یقیناً ماں بیچ میں آجائے گی۔ کہے گی جو کر رہا ہے کرتا رہے، ٹوکنا کیوں ہے؟ لیکن یہ نہ ہونے پائے کہ خون ایک ہو اور چھتیں دو۔ اختلاف رائے پہ اتفاق کر لے گی لیکن ایک ہی چھت تلے سانس لینے کا حوالہ دے گی۔

پھر ایک وقت آئے گا جب سمجھ آ جائے گی۔ سمجھ آنے لگے گی کہ ‘خدا راضی تو والد راضی’ کیا مفاہیم سموئے ہوئے ہے۔ پھر والد ولد سے کہیں قدم آگے ہو گا اور کہے گا کہ ‘بیٹا۔ تو میری رضا چاہتا ہے؟’ ‘ہاں’ بیٹا کہے گا۔ باپ کہے گا پتر فر خدا سے لو لگائے رکھ۔ یہ وہ مقام ہو گا جب باپ سمجھ جائے گا کہ بچے پیدا کرنے سے اولاد اس کی نہیں ہو جاتی بلکہ بچے پیدا ہی اس لیے ہوتے ہیں جو باپ اور ماں کو جہنم سے بچا لیں۔

اگر وہ بچہ جو پیدا ہوتے ہی مرے یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ آگ سے کھینچ کر والد و والدہ کو جنت میں دھکیلے گا تو وہ اولاد جو بڑی ہوئی، پرورش پائی، آنکھوں پیچھے دماغ کھولا، یہ حق کیوں نہیں رکھ سکتی کہ والدین کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائے؟ باپ ہے تو باپ ہی لیکن خدا کا باپ نہیں ہے۔ لم یلد ولم یولد۔

دین ہی کی  خاطر باپ کی ماننا، دین ہی کی  خاطر اس سے منوانا اور دین ہی کی  خاطر نہ ماننے پر صرف خدا کی ماننا حکمت ہے۔ خدا کی ماننا یہ بھی ہے کہ اولاد اور اس کی دولت سب اس کے باپ کی ہے لیکن یاد رہے پہلا حق خدا کا ہے۔ خدا پہلا حق رکھتے ہوئے بھی باپ کے دینی معاملات سے ہٹ کر حقوق دہی کے حق میں ہے۔

دین کے لیے باپ اور بیٹا تاریخ کے اوراق میں الجھتے پائے گئے ہیں۔ دین کے لیے جنگ میں تلواریں چلتی رہی ہیں۔ یہ غیر مسلم باپ کی بات نہیں ہو رہی۔ وہ باپ جو اپنے کو مسلم کہے اور وفاداری میں شیطان کو بھی شریک کرے، حکمت کے ساتھ حدود میں محدود رہتے ہوئے اور حق تلفی سے بچتے ہوئے اپنا دینی و اسلامی حق لینا اور چھین لینے والا دراصل مومن ہے۔ اولاد اگر آزمائش ہے اور یہ قرآن سے بھی ثابت ہے تو ایسے والدین بھی تاریخ سے ثابت ہیں جو اولاد کو جہنم کا ایندھن بناتے رہے۔ اب بھی بنا رہے ہیں۔ وہ حق کیسے استعمال کر رہے ہیں جو وہ رکھتے ہی نہیں ہیں؟ باپ کی نصیحتیں تو سورة لقمان میں ہیں۔

اب بھی اولاد جہنم میں پھینکی جا رہی ہے۔ اسے دنیاوی نگہ دی جا رہی ہے۔ بے خدا تعلیم دے کر دین کا بستہ بھی تھمایا جارہا ہے تاکہ والدین کو ملزمین کا کٹہرا نہ سنبھالنا پڑے۔ ایسا کیوں ہے کہ اولاد دین کو دنیاوی نقطہ نظر سے دیکھ رہی ہے؟ یہ بے خدا تعلیم کیوں ان کو دی جا رہی ہیں؟ بھاری رقم دے کر کیوں ان کی غیر دینی تربیت ہو رہی ہے؟ یہ بے خدا فلسفہ، یہ بے خدا تاریخ اور یہ بے خدا تعلیم ان کا حق نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب وہ وقت آن پہنچا جب معیار طے ہو چلے۔ معیار دین ہے تو باپ اور بچے کو ماننا ہو گا کہ ‘خدا کی رضا والد کی رضا میں ہے’ اب ‘رضا الوالد فی رضا الرب’ سے مشروط ہے۔ جب باپ خدا سے راضی ہے تو اولاد کی اس سے رضا پہ ہم راضی ہیں۔ یہ بھی ذہن میں ہو کہ اولاد بھی وہی مقبول ہو جو خدا کو مطلوب ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply