ہاتھیوں کے دیس میں ۔۔۔۔۔اے وسیم خٹک

سری لنکا کوہم صرف کچھ حوالوں سے جانتے تھے کہ یہ ایک آئس لینڈ ہے اس کے چاروں اطراف میں سمندر ہے، پورا ملک سمندر میں گھرا ہوا ہے جہاں بھی جاؤ گے سمندر آپ کے ساتھ سفر کرے گا اور وہاں تامل ٹائیگر ز نے ایک اودھم مچایا ہوا  تھا، جس سے تھوڑا بہت سری لنکا کو جاننے لگے تھے ایک اور وجہ شاہد آفریدی کی تیز ترین سنچری تھی تعلیم کے حوالے سے زیادہ تر  ہمیں بتایا گیا کہ سری لنکا میں خواندگی کی شرح 95فی صد ہے اور ہم ان سے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں مگر جب ہمیں ریڈیو نیدر لینڈ کی جانب سے ریفریشر کورس کے لئے منتخب کیا گیا تو ذہن میں سری لنکا کا خاکہ گھومنے لگا کہ ہم ایک ایسے ملک میں جارہے ہیں جس کے بارے ہم نے صرف سنا ہے مگر جو خاکہ میرے ذہن میں بنا وہ یہ تھا کہ سری لنکا ایک غریب  ملک ہے جہاں ہر طرف غربت ہوگی لوگ بھوکوں مر رہے ہوں گے بس چاروں طرف سمندر کے حصار نے ہمیں گھیر لیا تھا کہ کارچی کے سمندر کو دیکھے ہوئے بہت عرصہ ہوا ہے اب تو سمندروں کے دیس میں جارہے ہیں وہاں سمندر کی خوب سیر کریں گے ،ویزہ پراسیس نے کافی وقت لیا جب ایمبیسی سے معلومات کی تو معلوم ہو ا کہ پاکستانیوں کے لئے اب ویزے میں بہت مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور یہ کئی دنوں پر محیط ہوجاتی ہے جبکہ باقی ممالک کے لئے سری لنکا کا ویزہ ملنا منٹوں کی بات ہے ۔ایک لمحہ کو ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ ہماری جو خواہش ہے سری لنکا جانے کی وہ خواب ہی رہ جائے گی، مگر قسمت سے   ویزہ مل گیا اور یوں پہلے قطر پھر سری لنکا کے شہر کولمبو پہنچ گئے سفر بہت طویل  تھا حالانکہ پاکستان سے کولمبو کے لئے کراچی اور لاہور سے کئی پروازیں ہیں مگر پشاور سے کوئی نہیں اور قطر ائیر ویز کے ذریعے بکنگ ہوئی تھی پشاور میں سری لنکا کی کرنسی ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اور یوں ڈالرز پر ہی گزارا کرنا پڑا کیونکہ پشاور کی کرنسی مارکیٹ والوں نے کہا کہ آپ کے لئے کرنسی لاہور سے منگوانی پڑے گی اور اس میں تین سے چار دن لگیں گے سو کرنسی تو نہیں ملی۔اسی طرح ڈائریکٹ فلائیٹ بھی۔

حالانکہ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ پاکستان اور سری لنکا کے مابین اسوقت جاری تجارتی لین دین 43کروڑ80لاکھ ڈالر ہے جبکہ سری لنکن سرمایہ کار پاکستان کے ٹیکسٹائل ،لیدر،زرعی ،توانائی اور گارمنٹس سیکٹر میں مشترکہ سرمایہ کاری کے معاہدوں سے کروڑوں کمارہے ہیں اور ہمارے جنرل راحیل شریف بہت دفعہ سری لنکا کا دورہ کر چکے ہیں اور اسی طرح ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے والے نواز شریف کی نظریں بھی سری لنکا کی جانب ہیں کہ ان سے سرمایہ کاری کی جائے اور پاکستان کے تعلقات بھی سری لنکا کی حکومت سے بہت اچھے ہیں صرف ان کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد تھوڑے حالات خراب ہوگئے تھے مگر پھر اسی نہج پر آچکے ہیں اس لئے تو سری لنکا کا ہر بڑا فوجی پاکستان میں تربیت حاصل کرتا ہے تھوڑی سی اگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سری لنکا سے ہمارے سٹریٹیجک نوعیت کے تعلقات کا آغاز جنرل ضیاء کے دور میں ہوا۔ بھارت سری لنکا میں 70 کی دہائی کے آخر میں تامل علیحدگی پسند تحریک کی بنیاد ڈال چکا تھا جو 1984ء میں باقاعدہ عسکری شکل اختیار کر گئی۔ بھارت کا منصوبہ یہ تھا کہ اس تنظیم کے ذریعے سری لنکا کو کمزور کرکے وہاں فوج اتاری جائے اور خود کو “مہا بھارت” بنانے کا ایک اہم سنگ میل عبور کیا جائے۔ اس منصوبے کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے کے لئے جنرل ضیاءنے سری لنکا کو دفاعی شعبے میں تعاون کی پیش کردی جو  اس پورے عرصے میں فوجی تربیت تک رہا۔

جب تامل تحریک نے زور پکڑنا شروع کیا تو پاکستان نے اپنا ایمونیشن بھی سری لنکا کو بیچنا شروع کردیا۔ سری لنکن گورنمنٹ کوبلیک میل کرکے قیام امن کے نام پر بھارت نے 1987ءمیں سری لنکا میں اپنی فوج اتاری تو سری لنکا نے پاکستان کی خفیہ مدد سے اسے تگنی کا ناچ نچادیا۔ نہ صرف یہ کہ راجیو گاندھی کو سری لنکن ایوان صدر میں گارڈ آف آنر زکے دوران ایک سری لنکن فوجی نے اپنی رائفل دے ماری جس سے اس کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ ملٹری آپریشن کے دوران بھی بھارت کو ایسی عسکری و سیاسی مار پڑی کہ وہ رسوا ہو کر سری لنکا سے اس حالت میں نکلا کہ علیحدگی پسند تنظیم تامل ٹائیگرز کو بھی اپنا دشمن بنا گیا اور بالآخر تامل ٹائیگرز نے ہی راجیو گاندھی کو قتل بھی کردیایوں سارا کھیل الٹا بھارت کے گلے پڑ گیا۔

نوے کی دہائی میں سری لنکا ایک حد تک تامل ٹائیگرز کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوچکا تھا اور اپنے فساد زدہ شمالی صوبے کے دارالحکومت جافنا کو تامل ٹائیگرز سے چھڑا لیا تھا لیکن 2000ء میں انہوں نے پھر قوت پکڑنی شروع کردی اور جافنا کو ایک بار پھر شدید خطرات لاحق ہوگئے۔ اس موقع پر جنرل مشرف نے فوری طور پر سری لنکا کو بھاری ہتھیاروں کی سپلائی شروع کردی جس سے سری لنکن فوج اس خطرے سے نمٹنے کی پوزیشن میں آتی چلی گئی۔اس عرصے میں سری لنکا نے پاکستان سے اسلحے کی خریداری تیز کردی 2007ء تک سری لنکا نے پاکستان سے 50 ملین ڈالر کا اسلحہ خریدا۔ جب تامل ٹائیگرز کو اندازہ ہوا کہ پاکستان ان کی کمر توڑنے کے لئے سری لنکا کی بڑے پیمانے پر مدد کر رہا ہے تو انہوں نے 2006ء میں سری لنکا میں تعینات پاکستانی سفیر بشیر ولی محمد پر خود کش حملہ کردیا جس میں وہ تو محفوظ رہے لیکن سات افراد مارے گئے، اس حملے کے باوجود پاکستان نے تعاون روکا نہیں بلکہ اس میں اضافہ کرتے ہوئے 2009ءمیں150 ملین ڈالر کا اسلحہ سری لنکا کو فراہم کیا۔

مئی 2009ء میں تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوا اور 19 مئی کو بدنام زمانہ دہشت گرد “پربھاکرن” مارا گیا جو تامل ٹائیگرز کا سربراہ تھااورصرف وہی نہیں مارا گیا بلکہ پوری دہشت گرد تنظیم کا جڑ سے صفایا کردیا گیا جس سے یہ تیس سالہ دہشت گردی اپنے انجام کو پہنچی۔فوجی آپریشن کے اختتام پر سری لنکا کے ڈپٹی وزیر خارجہ حسین احمد بھائلہ کا یہ بیان عالمی توجہ حاصل کر گیا۔“سری لنکا کی حکومت اور اس کے عوام پاکستان کو اپنا وہ حقیقی دوست سمجھتے ہیں جس کی ہمیں جب بھی ضرورت پڑی وہ ہمارے ساتھ کھڑا نظر آیا’،تب سے پاکستان کے سری لنکا کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے آج سری لنکن آرمی کی ہائی کمانڈ میں شائد ہی کوئی افسر ایسا ہو جس نے پاکستان سے عسکری کورس نہ کئے ہوں حتیٰ کہ سری لنکن فوج میں فیلڈ مارشل کے رینک تک پہنچنے والے واحد آرمی چیف Sarath Fonseka بھی پاکستان کے تربیت یافتہ ہیں جو تامل ٹائیگرز کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے موقع پر فوج کے سربراہ تھے

خد ا خدا کرکے ہم نے سری لنکا کے ائر پورٹ پر لینڈ کیا تو ہوش ٹھکانے آگئے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور کے ایئرپورٹس سے بہترین ائیرپورٹ جس کا ہم نے تصور ہی نہیں کیا تھا یہ خوبصورت اور ہر چیز سے مزین ائیرپورٹ ہمارے لئے پہلا دھچکا تھا اب امیگریشن میں مسئلہ انگریزی کا تھا سری لنکن کی انگریزی ہم سے بھی گئی گزری ہے یہ ائیرپورٹ پر ہی ہمیں پتہ چل گیا جب وہ انگریزی کو سری لنکن یعنی سنگالہ لہجے میں بولتے تھے جو ہمارے سر سے ہی گزر رہی تھی

خیر سے ایک فارم دیا گیا جس کو پر کرنے کے بعد ائیرپورٹ سے باہر آگئے جہاں ڈرائیور انتظار کر رہا تھا اور ایک گھنٹہ پھر سنگالہ لہجے کی انگریزی ایک گھنٹے تک میری منتظر تھی اب یہ روٹین کی بات ہونے والی تھی جب تک سری لنکا میں قیام تھا یہ انگریزی سننے کو ملتی اس سے کلچر ، مذہب، ایجوکیشن ، حکومت کے حوالے سے بات ہوئی اور یوں ہوٹل رونیکا پہنچ گئے جہاں ہمارا قیام تھا اور ہم پہلے ہی امیدوا ر تھے جو سری لنکا پہلے پہنچ گئے تھے باقی راستے میں تھے رات کا وقت تھا اور کولمبو میں اکیلے سمندر کا شور ایک خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا ہلکی ہلکی بارش بھی ہورہی تھی نزدیکی انڈین ریسٹورنٹ میں مینو چیک کر کے چاول کا آرڈر دیا سوچا تھا کہ پشاور کا  کابلی پلاﺅ ہوگا یا پھر پشاوری بریانی مگر امیدوں پر اوس پڑ گئی یہ چاول تھے مگر عجیب قسم کا   ذائقہ بھی   تھا اور ساتھ میں بیٹھے ہوئے لوگ کتنے مزے سے کھارہے تھے جبکہ میرے حلق سے وہ چاول نہیں اتر رہے تھے مگر کہتے ہیں کہ مجبوری کا نام شکریہ سو اب مجبوری تھی اور یوں جب پیسے دینے کی باری آئی تو ایک فانٹا اور چاول کے 600روپے لئے گئے جو پاکستانی 360روپے بنتے ہیں  جبکہ اس رقم میں پاکستان میں دو پلیٹ اچھی خاصی بریانی آجاتی ہے تو اندازہ ہوا کہ کولمبو مہنگا شہر ہے اور جس کولمبو میں ہماری رہائش تھی وہ کولمبو تھری تھا اور مجموعی طور پر وہاں پر 16کولمبو ہیں جو پہلے نمبر پر ہے وہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ ہے اور جو 16ویں نمبر پر ہے وہ سب سے کم ترقی یافتہ ہے ،

اس بارے میں جب پوچھا گیا تو بتا یا گیا کہ ایک ایک علاقے کو ڈیویلپ کرنے میں اتنا وقت نہیں لگتا جتنا سب علاقوں کام کرنے میں لگتا ہے اور اس منطق میں وہ کامیاب بھی ہیں وہاں کولمبو ون میں سفر کے دوران لگتا ہے کہ آپ ہالینڈ کے کسی شہر میں سفر کر رہے ہیں کیونکہ 4فروری1948کو سری لنکا کو آزادی ملی تھی اور یہ ہالینڈ کی کالونی تھی جس کے اثرات اب بھی وہاں موجود ہیں عمارتوں ، شاپنگ مالز پر ہالینڈ کی عمارتوں کو گمان ہوتا ہے اسی طرح دیگر کولمبو میں جایا جائے تو وہاں بھی آپ کو عمارتیں ایک ہی جیسی ملے گی راستوں میں بھیک مانگنے والے آپ کا خیر مقدم کریں گے اور ساتھ ہی بدھا کے چھوٹے بڑے مجسمے آپ کو نظر آئیں گے جہاں کوئی نا کوئی کھڑا پوجا کر رہا ہوگا

سری لنکا کی مجموعی آبادی دو سے تین کروڑکے لگ بھگ ہے جس میں 25فی صد مسلمان ہیں اور اسلام وہاں پر تیزی سے پھیلنے والے مذہبوں میں سے ہے جب کہ باقی ہندو اور بدھ مت کے پیروکار ہیں وہاں پر مذہب کی آزادی ہے اگر بدھا کا مجسمہ آپ کو نظر آئے گا تو ساتھ میں نزدیک ہی مسجد سے اللہ اکبر کی صدا بھی بلند ہوگی اور مندر سے گھنٹیوں کی آوازیں بھی آپ کے کانوں میں گونجی گی وہاں کے لوگ زیادہ تر مچھلی ، گارمنٹس، ہوٹلنگ، سیاحت کے کاروبار سے منسلک ہیں بازاروں میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی نظر آئے گی کیونکہ لڑکیوں کی پیدائش لڑکوں کی نسبت زیادہ ہے ، یونیورسٹیوں ، کالجوں، مارکیٹوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوگی جو اپنے کام سے کام رکھیں گے اور نہایت خوش اخلاقی سے آپ کا سامنا کریں گے زیادہ تر لوگ ڈریس کوڈ کی پروا نہیں کرتے لڑکیاں بھی اپنے ڈریس کی اتنی پروا ہ نہیں کرتیں جتنی ہمارے ملک میں   پر توجہ دی جاتی ہے جو پہنا بس پہن لیا شہروں کے باہر صورتحال بالکل مختلف ہے وہاں پر آپ کو غربت کے آثار نظر آتے ہیں مگر شہروں میں ترقیافتہ کام بہت زیادہ ہوئے ہیں۔

اگر تقابلی جائزہ لیں تو ہمار ا پشاور ان کے کولمبو 11یا 12سے مقابلہ کرے گا اور کولمبو تھری اسلام آباد کے برابری کا ہے وہاں پر ساحل سمندر کے علاوہ جافنا ، کینڈی ، کوہ آدم دیکھنے کی جگہیں ہیں ہمیں صرف کینڈی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ہاتھیوں کی بھرمار ہے اور سیاح ہاتھیوں کو دیکھنے کے لئے وہاں بطور خاص جاتے ہیں جس میں زیادہ تر چین، یوکے، امریکہ، کینیڈا، اٹلی، انڈیا کے لوگ شامل ہیں سیاحت کے لئے وہاں کوئی موسم نہیں 12مہینے موسم ایک ہی جیسا ہوتا ہے کبھی بارش تو کبھی گرمی ، کینڈی میں ہاتھیوں پر سوار ی مہنگی ہے مگر لوگ شوق سے سواری کرتے ہیں اور وہاں ہاتھیوں کی کھال اور دانتو ں سے بنی ہوئی اشیاءبطور تحفے تحائف لیتے ہیں مگر وہ چیزیں باہر بھی ملتی ہیں یہاں اس کی قیمت زیادہ ہوگی لہذا خریداری کی بجائے صرف انجوائے کرنا بہتر ہے سری لنکا میں قیمتی پتھروں کا بھی کاروبار ہوتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے وہاں پر اگر بڑے بڑے ٹیمپل جانا پڑے جو ان کی مذہبی جگہیں ہیں تو غیر ملکی سیاح سے رقم وصول کی جاتی ہے جو ان کے ریونیو میں اضافے کا باعث ہے اور وہاں بہت سے سیاحت اور دیکھنے کی جگہیں ہیں جہاں جاتے ہوئے آپ کو پیسے دینے پڑیں گے

سری لنکا چونکہ ایک غیر اسلامی ملک ہے مگر جسم فروشی وہاں پربھی ممنوع ہے جبکہ مساج سنٹر ز کی آڑ میں جسم فروشی ہوتی ہے ، اور ایک اندازے کے مطابق صرف کولمبو میں چالیس ہزار کے قریب جسم فروش ہیں کچھ عرصہ قبل لاہور کی دو درجن سے زیادہ لڑکیاں پکڑی گئی تھیں جن کو لاہور کے ایک سیاسی رہنما کی پشت پناہی حاصل تھی، ان مساج سنٹرز میں سری لنکن، تھائی، بنگالی، انڈین اور چایئنہ سمیت روس کی لڑکیاں کام کرتی ہیں جبکہ بڑے بڑے ہوٹل بھی جو پہلے لوگوں کے گھر تھے مگر اب انہوں نے کچھ تبدیلی کرکے انہیں ہوٹل بنا دیا ہے ان میں کام کرتی ہیں جو زیادہ تر غیر ملکی سیاح کے لئے تفریح کا سامان بنتی ہیں جس کی وجہ سے سری لنکا میں ایچ آئی وی پازیٹو کے کیسز زیادہ ہیں ۔ ہم نے بھی کوشش کی کہ کسی طرح معلوم کریں کہ کس علاقے کی لڑکیوں کی تعداد یہاں زیادہے اور یہ ہمیں ٹک ٹک کے ڈرائیور سے پتہ چلا کہ یہاں پر پاکستانی لڑکیاں بھی مل جاتی ہیں جس میں زیادہ تر لڑکیاں پنجاب سے لائی جاتی ہیں ۔ ہم نے ایک مساج سنٹر کا وزٹ کیا جہاں اس انداز میں ہر لڑکی جھپٹنے کو تیار تھی جیسے گڑ پر مکھی بیٹھتی ہے ۔ میں چونکہ اور دوستوں کے ساتھ گیا تھا جو مجھے وہاں بات کرنے کے دوران چھوڑ گئے تھے پیچھے دیکھاتو کوئی نہیں تھا مساج وساج کا کوئی اراداہ نہیں تھا صحافیانہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوئے جب ہوٹل آتے ہوئے ایک ٹک ٹک ڈرائیور نے سری لنکن زبان میں ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا کہ جگی جگی کرنے جانا ہے ، جواب دیا کہ سمجھے نہیں پھر جب سمجھایا تو کھوجی کتوں کی طرح سب کی حسیں بیدار ہوئیں اور جانے کا سوچ لیا ۔ اور یوں پھر ایک مساج سنٹر کے سامنے ٹک ٹک رکی اور تب معلوم ہوا کہ مساج سنٹر کی آڑ میں یہاں سب کچھ ہوتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سری لنکا میں آپ کو جگہ جگہ پر انڈین ریسٹورنٹ ملیں گے جس میں انڈین خوراک سمیت سری لنکن sea فوڈ ملے گاساحل سمندر پر بنے ہٹ میں شام سے ہی محفلیں جمتی ہیں اور شراب کے دور چلتے ہیں جہاں سری لنکن بیئر سے لیکر ہر قسم کا برانڈ آپ کو ملے گا ،سیاحت کے لئے سری لنکا ایک بہترین مقام ہے جہاں اگر آپ کے جیب میں دو سے سے تین لاکھ روپے ہیں تو آپ آسانی کے ساتھ ایک مہینہ گزار کر خوبصورت لمحات گزار سکتے ہیںہم نے ریڈیو نیدر لینڈ کے تعاون سے وہاں دوہفتے ریفریشر کورس میں گزار لئے جس میں ہمیں جنجر ڈی سلوا، ماریجکے کومان، آفکا کی طرح ٹرینرز اور انڈیا، فلپائن، ویتنام، جارجیا، سری لنکا، انڈیا اور نیپال سے بہترین دوست ملے جو صحافت اور ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ تھے ان سے ان چودہ دنوں میں بہت کچھ سیکھا اور ہم سب نے سٹڈی کے ساتھ سری لنکا کو خوب انجوائے کیا اور سری لنکا کو ایک پر فضا مقام پایا اور بہت سی خوبصورت یادیں لے کر اپنے ساتھیوں سمیت اس امید کے ساتھ واپس اپنے اپنے ممالک آگئے کہ اگر زندگی نے وفا کی تو پھر سری لنکا کا وزٹ کیا جائے گا جس میں مزید سری لنکا کو مسخر کیا جائے گا

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply