انتظار حسین کے ناول “تذکرہ” پہ ایک نظر/محمد سلیم حلبی

انتظار حسین کا نام اور کام دونوں قابلِ قدر اور قابلِ تعریف ہیں۔نام میں انتظار ہے،انتظار جو اذیتوں اور مصائب کی انتہا کا نام ہے جبکہ حُسین وقت کے یزیدوں کے سامنے سینہ سپر ہونے اور حق کا عَلم بلند کرنے اور محبوب کی راہ میں جانثار و فدا ہونے کا نام و نشان ہے۔

میری شناسائی انتظار حسین سے کرونا کے ایام میں عطیہ حسین کے ناول شکستہ ستون پر دھوپ کے توسط سے ہوئی، جس کا ترجمہ انتظار حسین کے ہاتھوں ہُوا۔عطیہ حسین کا خوب صورت ناول جب انتظار حسین کے ہاتھوں ترجمہ ہوا تو کتاب کو انتظار حسین کے خوب صورت،شُستہ اور رواں ترجمے نے چار چار چاند لگا دئیے۔لکھنوی معاشرے کو انتظار حسین جیسے جید قلم کار سے بہتر کون جان سکتا ہے۔انتظار حسین کے ترجمے نے لکھنو اور عطیہ حسین کو جہاں زیرِ بار کر دیا، وہیں اردو کے قاری کو شاندار ناول پڑھنے کو دستیاب ہُوا۔

اس وقت میرے سامنے انتظار حسین کا ناول نیا گھر/تذکرہ پڑی ہوئی ہے۔تذکرہ جہاں پُِرکھوں کی ردواد،سرگزشت،اور دُکھوں اور رنج و علم کی نشانی ہے تو وہیں نئی نسل کی پریشانیوں بھری زندگی کا نقشہ اور دفتر ہے۔

انتظار حسین کا دکھ ہم سے الگ اور مختلف ضرور ہے مگر سماج سے نہیں،یہ دکھ برصغیر کی تقسیم کا دکھ ہے،تہذیب و تمدن اور روایت کے  بگاڑ اور جدیدیت کے نام پہ انسانی رنج و الم کو مزید بڑھاوا دینے اور سماج میں انسانی وجود کو کموڈٹی سے تشبیہ دینے کا ہے۔

تذکرہ میں ہمیں افراتفری،غیر یقینی اور تشکیک کا عنصر بڑے پیمانے پہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اس غیر یقینی اور تشکیک نے جہاں اس جہان کو جہنم کدہ بنایا،   وہیں انسان کو حریص،مکار اور دغا باز اور روایت و اقدار اور اصولوں کے منافی لاکر کھڑا کردیا ہے۔

ناول میں ماضی کو رومانوی اسلوب اور طرز سے دکھا کر انتظار حسین گزشتہ زندگی کو گلیمرائز کرتے ہوئے جبکہ نئے زمانے کے جھنجھٹوں اور مصائب سے شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔

انتظار حسین کے ناول اور کہانیوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ہیرو کو ہیروئن کھونا پڑتی  ہے۔چاہے بستی ہو،آگے سمَنْدر ہو یا پھر تذکرہ۔۔ سب میں محبوبہ کا نہ ملنا اور ان کی یاد بار بار آنا شکست اور ٹوٹنے کی علامت بن کے سامنے آتی ہے۔ان کے ناول بستی میں سے یہ ڈائیلاگ مجھے بہت پسند ہے
“یہ ہماری یادوں کی واپسی کا موسم ہے جانے کب کب کی بھولی باتیں یاد آجاتی ہیں۔”

ناول میں دکھ،رنج و الم کا ایک دستر خوان بچھا ہوا ہے۔مصنف نئے سماج کو قبول کرنے سے قاصر اور گریزاں ہے۔جیل خانہ کے ساتھ گھر اور گھر کے بکنے اور بار بار بدلنے اور نئے کرائے کے گھر کی بجائے اپنا بنانے میں مجھے لگتا ہے مصنف ملکی صورتحال سے شدید خفا اور بدظن ہے،گھر کے ساتھ جیل اور وہاں پھانسی کے مناظر سے یہ گمان ہوتا ہے ،مصنف بنگلہ دیش اور ملک میں جاری صورتحال اور کشمکش میں لوگوں کو مارنے اور مرنے کی قبیح  اور گھناؤنے کھیل پہ تنقید کرنے کی کمزور سی کوشش تمثیلی طور پر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اس مکالمہ کو دیکھیے کہ کس طرح گھر کے  جیل کے نزدیک ہونے سے مصنف بے چینی کا اظہار کررہا ہے
“زبیدہ گھر تو ہم نے بنالیا ہے مگر۔۔۔۔”
“زبیدہ نے چکرا کر مجھے دیکھا۔پھر”
“پھر میں یہ سوچ رہا تھا”۔میں نے رکتے رکتے آخر کہہ ہی ڈالا “یہ گھر تو بالکل جیل کے سائے میں ہے”۔

پرندوں اور درختوں کے متعلق تذکرہ انتظار حسین کا پسندیدہ موضوع ہے،جہاں درخت ہونگے وہاں پرندوں کی چہچہاہٹ اور شور ضروری ہے۔درختوں پہ ہار سنگھار،گڑسلیا ں ،چڑیوں اور بلبل کی آماجگاہیں بنی ہوِئی ہیں،وہیں شام اور صبح کے سمے پرندوں کی یورش ہوتی ہے اور یوں ماحول کی خامشی جو کسی بھیانک خبر کی وعید سنانے کی آرزو لئے ہوئے ہے کو توڑ کر فضا کو خوش کن آوازوں سے لبریز کردیتے ہیں۔

درختوں کے تناظر میں معاشرے میں موجود بے حسی پہ مصنف سخت نوحہ کناں ہے۔اشتہارات سے بھر پور اور میٹریلسٹ معاشرے میں انسانوں کے ساتھ درختوں کی بھی کوئی وقعت نہیں۔وہ منظر بہت بھیانک ہے جب کرائے کے مکان کو اس لئے چھوڑنا پڑتا ہے کہ مالک مکان گھر میں موجود درختوں کو کاٹ کر اس زمین پہ ایک کمرہ بنانا چاہتا ہے۔تب مصنف اس شرط پہ گھر کو چھوڑتا ہے کہ جب تک میں یہاں سے روانہ نہ ہوں تب تک درخت نہیں کاٹے جائیں گے۔گھر چھوڑنے کے بعد کے ایک مکالمہ کے جواب میں یوں لکھتے ہیں۔
“میں نے بھی سوچا کہ واقعی رہنے کےلئے وہی جگہ مناسب تھی۔میں خواہ مخواہ جذباتی ہوگیا۔درخت کٹ رہے تھے تو کٹنے دیتا۔آخر آدم بھی تو اتنا کٹ گیا اور کٹتا ہی چلا جارہا ہے۔میں نے اس پر کب احتجاج کیا؟”.

قصہ مختصر ناول میں ماضی کی یاد مصنف کو ذہنی طور پہ مفلوج کئے جارہی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ حال اور مستقبل پریشان کُن ہیں،غیر یقینی ہے،افراتفری ہے۔
کتاب میں جہاں مایوسی،غیر یقینی اور تشکیک کا عنصر موجود ہے وہیں یقینی صورتحال کے ساتھ ہمدردی و جانثاری کے ساتھ محبت اور امن و آشتی کا جذبہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی کاموں کی طرح یہ ناول بھی ہمارے حال کی بدحالی کے باعث مصنف کو ہمارے سماج سے دور کئے جارہا ہے،اس سماج سے جو کبھی اصول و اقدار اور روایت کا شاندار مرقع اور ہمارے ماتھے کا جھومر تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply