”اقبال اور خاکِ ارجمند“ ایک نظر میں۔۔قمر رحیم خان

ڈاکٹر ظفرحسین ظفر صاحب نے جب راولاکوٹ کی پتھریلی زمین سے ”ارقم“ کا پہلا شمارہ ہی نکالا تو ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایک فرہاد صفت انسان ہیں۔”ارقم“ راولاکوٹ سے شائع ہونے والا پہلا اور شاید آخری ادبی رسالہ تھا۔ڈاکٹر صاحب جب اسلام آباد شفٹ ہوئے تو ارقم کی اشاعت کے ساتھ اس کے قارئین کی سانسیں بھی رک گئیں۔ اوراس کے اگلے شمارے کے انتظار میں ان کی آنکھیں پتھرا گئیں۔مگر دل کے کسی گوشے میں امید کی ”دینی“ابھی تک ”تُہکھ“ رہی ہے۔ الگ بات ہے، ان کی تازہ تصنیف ”اقبال اور خاکِ ارجمند“نے یہ راز افشا کیا کہ وہ خود بھی صندل کی لکڑی ہیں جو برابر ”تُہکھ“ رہی ہے۔ اقبال کو ہم ”لب پہ آتی۔۔سے زیادہ نہیں جانتے۔ اس لیے کہ اگلے ورقے پر جب شاہین اور کرگس کا تذکرہ پڑھا تو ہم نے اقبال کو ’بالائے طاق‘ رکھ دیا۔ کیونکہ ان دونوں کے ساتھ ہماری جانی دشمنی رہی ہے۔ دونوں بالترتیب ہمارے کبوتروں اور چوزوں کو اٹھا لے جاتے تھے۔ کرگس کی حد تک تواقبال سے جزواً اتفاق ممکن ہے لیکن شاہین کے معاملے میں ہماری ان سے نہیں بن سکی۔اختلاف کی ایک اور وجہ شاہین کے بچے کو ایک ہی وقت میں بال و پر لگوانے کی خواہش بھی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کرگس کے جہاں میں بیٹھ کر شاہین تلاش کر رہے تھے۔ آپ’لب پہ آتی‘کو ہی لیجیے۔ ’زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘۔ یہ دعا ہے یا بد دعا؟

بعد ازاں ہم نے اپنے ایک استاد گرامی کی زبانی،خوب’کُوٹ‘ کھانے کے بعد، جب یہ نصیحت سنی ’مٹا دو اپنی ہستی کو گر کچھ مرتبہ چاہیے‘ تو اس دن سے ہماری اقبال سے ناراضی چل رہی ہے۔اقبال یہ نصیحت نہ کرتے تو ہمیں سکول میں دس سال تک ’کھوتے‘کی طرح ’کُوٹ‘نہ پڑتی۔ سکول ماسٹر تو درکنار ہمیں شک ہے والدہ نے بھی کہیں سے یہ نصیحت سن رکھی تھی۔جب تک ان کے ہاتھوں میں جان رہی وہ سختی سے اس پر عمل پیرا رہیں۔ یہ ماننا پڑتا ہے کہ ہستی کے مٹ جانے کے بعد انسان ضرور کچھ نہ کچھ بن جاتا ہے۔ ہمارے کتنے ہی کلاس فیلو زڈرائیور، کنڈکٹر، مستری بن گئے۔ شکر ہے ہماری طرح ’کھوتا‘ نہیں بنے۔شکوہ پھر بھی نہیں، چلو کچھ نہ کچھ توبن ہی گئے۔ خدا نخواستہ کچھ بھی نہ بن پاتے تو لوگوں کو کیا منہ دکھاتے؟گویا آج ہم جس مقام پر ہیں اقبال ہی کی بدولت ہیں۔کچھ ہی عرصے بعد ہم نے سنا کہ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم خان (مرحوم)نے اقبال پر تنقید کی ہے۔ یہ سنتے ہی ہم تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقبال کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔گو اقبال کو تب بھی طاق سے نیچے نہیں اتارا۔ اس کی وجہ اقبال سے ہمارا ’شکوہ‘ تھا۔وہ اگر خواب نہ دیکھتے تو ہمارا کشمیر تقسیم نہ ہوتا۔

یہ ایسی شکایت ہے جس سے وہ کبھی اپنا دامن نہ چھڑا پائیں گے۔ اس شکائت میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ کراچی کی ایک بڑی بی بھی اقبال اور قائد اعظم سے ناراض ہے۔ کہتی ہے ”ایک نے ”کھاب“ دیکھا دوسرے نے پورا کر دیا۔ اب بتاؤ“؟ہم کیا بتاتے؟ مہاجرت کا دکھ تقسیم کے دکھ سے دوہرا ہے۔ اس تقسیمِ عظیم میں پاکستان کے لوگوں کو اپنا الگ وطن اور شناخت مل گئی، ہندوؤں کو الگ۔ بھارت کے مسلمانوں کو کیا ملا؟ یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔کشمیر کے ٹکڑے کردیے گئے۔ 75سال سے ہم ان ٹکڑوں کو اپنا لہو پلا کر پھر سے جوڑنے کی کوشش میں ہیں۔ جبکہ ان ٹکڑوں کو مکمل ہڑپ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ہمارے سینے پہ خاردار تاریں بچھا دی گئی ہیں اورہماری شناخت کو بتدریج مٹایا جا رہا ہے۔یہ سب ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ اور سہہ رہے ہیں۔ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو یقیناً  اس کرب کو اپنے سینے میں محسوس کرتے۔ مگرکیا اپنے دوقومی نظریے سے بھی دستبردار ہوجاتے؟

اقبال کی پیدائش سیالکوٹ کی ہے لیکن اس کے باجود وہ اپنے آبا و اجداد کے وطن کو بھولے نہیں تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ تصنیف علاّمہ اقبال پر ان کے لکھے گئے سات تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ جن میں ’اقبال اور خاک ارجمند‘ / ’کشمیر میں اقبال شناسی‘اور ’اقبال اور کشمیر۔ ایک جائزہ‘ ایسے مضامین ہیں جن میں اقبال کے کشمیر اور کشمیریوں کے اقبال سے تعلق کوبیان کیا گیا ہے۔ پہلے مضمون میں وہ لکھتے ہیں ”اقبال اور کشمیر یک جان دو قالب تھے۔…غنی کشمیری، شاہ ہمدان، انور شاہ کاشمیری اور سب سے بڑھ کر اپنے جد اعلیٰ بابالول حج(جو سلسلہ ریشیاں سے وابستہ تھے)سے اقبال کی روحانی وابستگی تھی۔ ……کشمیر سے اقبال کی والہانہ محبت کبھی کبھی ان سے نہایت جذبا تی اشعار کی تخلیق کا باعث بنتی نظر آتی ہے۔اس لیے کہ وہ ابھی تک اپنے وجودِ ِخاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاک کا پتلا سمجھتے تھے“(’فکر اقبال‘ از ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم)۔اقبال کے ایک فارسی شعر کا ترجمہ یوں لکھتے ہیں ”میرا جسم تو کشمیر جنت نظیر کی کیاری / باغ کا ایک پھول ہے۔ جب کہ میرا دل حجازکا گھر اور میری نوا شیراز ہے“۔وہ لکھتے ہیں ”اقبال وطنیت کے مغربی تصور کے سخت خلاف تھے اور اس کے پیر ہن کو مذہب کا کفن سمجھتے تھے۔لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھتے تھے(ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم)۔……یہ توکشمیریوں کا بخت ہے اور خاک کشمیر کے تقدس کا اظہار ہے کہ اس خاک سے اقبال کا خمیر اٹھاجو عہد حاضر میں ’جہان شعر و ادب کا پیغمبر‘ٹھہرا(’اقبال اور کشمیر‘ از جگن ناتھ آزاد)۔اقبال اور کشمیر ایک جذباتی اور روحانی موضوع ہے۔ اقبال کو کشمیر سے اور کشمیر کواقبال سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا(’علامہ اقبال:شخصیت اورفن‘ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)۔

عرفا ن احمد صدیقی نے اپنی کتاب’عروجِ اقبال‘ میں اقبال اور کشمیر کے حوالے سے معنی خیزو فکر انگیز تبصرہ کیا ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے یوں نقل کیا ہے۔
”کشمیر جنت نظیر سے اقبال کے وجود معنوی سے کچھ ایسا گہرا ربط ہے کہ اگر ہم اقبال کی شخصیت اور شاعری علامتی صورت میں دیکھنا چاہیں تو تخیل میں جلیل و جمیل نقوش ابھر آتے ہیں۔اس کے برف پوش، پُرجلال کہسار، اقبال کے فکر روشن کی تاب ناک رفعتوں کے عکاس ہیں اور اس کی گل بدامن وپُربہار وادیاں، کلام اقبال کی شعری اور فنی رنگینیوں کی آئینہ دار ہیں۔اقبال کی مفکرانہ شخصیت ہمیں مہاتماؤں کی یاددلاتی ہے، جو ہمالیہ کے دامن میں دھونی رمائے، آسن جمائے، جپ تپ، گیان دھیان میں محو رہتے تھے اور اس کی شاعرانہ فطرت کو وادی کے باسیوں کے ذوقِ جمال، حسن آفرینی و ہنر مندی سے ایک نسبت خاص ہے اور کیوں نہ ہو کہ اقبال خو د بھی اسی گلشن کا گلِ سر سید ہے“۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اقبال کی سفر ِ کشمیر کے لیے بے تابی اور سفر کا تذکرہ کیا ہے۔لیکن دراصل اس مضمون میں اقبال کے کشمیر سے تعلق و نسبت اور اس کی گہرائی و گیرائی کو مرکزی اہمیت حاصل رہی ہے۔ تیس صفحات پر مشتمل اس مضمون میں 67حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس ضمن میں کتنی عرق ریزی کی ہے۔دوسرے مضمون ’کشمیر میں اقبال شناسی ……ایک توضیحی مطالعہ‘ میں ڈاکٹر صاحب نے یہ دکھایا ہے کہ کشمیریوں نے اقبال کے کشمیر سے تعلق کو کیسے آگے بڑھایا ہے۔ان دونوں مضامین کے مطالعے کے بعد قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا اقبال کو کشمیرسے زیادہ محبت تھی یا کشمیریوں کو اقبال سے؟

ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ”ذہنی اور فکری افق کی وسعتوں کے باوجود اقبال نے اپنی عمر کے آخری دور میں بھی اپنی کشمیری شناخت کو برقرار رکھا۔1930ء کے خطبہ آلٰہ آباد میں علیحدہ وطن کا تصور پیش کرتے وقت اقبال کو کیا معلوم تھا کہ جب ان کا یہ خواب حقیقت بنے گا تو اہل کشمیر نئے امتحان سے دوچار ہو جائیں گے۔اس غیر فطری تقسیم سے ریاست کی تہذیب، کلچر، اور تشخص بری طرح مجروح ہو گیا۔البتہ فکر اقبال منقسم ریاست کے تمام حصوں میں ایک ایسا مشترکہ حوالہ رہا ہے جو زمان و مکاں کی حدود سے ماورا ہے“۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ سری نگر ائر پورٹ سے شہر کی جانب داخل ہوتے ہی اقبال پارک، لاہور کے اقبال پارک کی یاد دلاتا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی کی علامہ اقبال لائبریری ایک خوبصورت اور عالی شان عمارت میں قائم ہے جس میں چھ لاکھ کے قریب کتابیں ہیں۔

اس کے علاوہ تدریس و تحقیق سے متعلقہ دس ایسے ادارے ہیں جو اقبال کے نام سے منسوب ہیں۔یہ سارے ادارے اقبال کی شخصیت اور فکرو فن کے حوالے سے سرگرم رہتے ہیں۔ان سب میں اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی، یونیورسٹی آف کشمیر کو فوقیت حاصل ہے۔1977ء میں اقبال کی صد سالہ تقریبات سالگرہ کے موقع پر شیخ عبداللہ نے کشمیر یونیورسٹی میں اقبال چئیر کی منظوری دی۔ یہ دنیا میں پہلی اقبال چئیر تھی۔دوسال بعد اسے ترقی دے کر تحقیقی ادارے میں بدل دیاگیا۔اس ادارے میں جو تحقیقی کام اب تک کیا گیا ہے ڈاکٹر صاحب نے اس کا بھی اجمالی خاکہ بیان کیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں فکر اقبال کو اجاگر کرنے میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کا بنیادی کردار ہے۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں ”1977ء میں پہلی عالمی اقبال کانگریس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس میں جناب جگن ناتھ آزاد نے جنرل ضیا ء الحق سے بے تکلفانہ پوچھا! کیا پاکستان میں اقبال چئیئر قائم ہے؟جنرل صاحب نے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر خیرات محمد ابن رسا کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا نہیں۔ آزاد صاحب نے قدرے فاتحانہ انداز میں کہا کشمیر یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی سے آگے نکل گئی“۔اس کے بعد جنرل صاحب نے اقبال چئیر قائم کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ میں 2010ء تک پی ایچ ڈی کے 23ایم فل کے 46مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ 61کتابیں چھپ چکی ہیں اور 1981ء سے ایک تحقیقی و علمی مجلّہ اقبالیات سالانہ شائع ہو رہا ہے۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں نے فکر اقبال کو اجاگر کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کیاہے۔

اس کے علاوہ کتاب میں شامل دیگر مضامین کےs content پر تبصرہ اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔ البتہ ان کی فہرست قارئین کی معلومات کے لیے درج کی جاتی ہے:
٭ بالِ جبریل کی پہلی پانچ غزلوں کی تدوینِ نو
٭ مکتوباتِ اقبال میں ملّی نشاۃِ ثانیہ کے نقوش
٭ اقبال اور کشمیر ……ایک جائزہ
٭ علامہ اقبال شخصیت اور فن: چند تاثرات
٭ اسرار خودی (مرتّبہ ڈاکٹر سعید اختر درّانی) پر ایک نظر

یہ تمام مضامین ڈاکٹر صاحب کی محنت اور عرق ریزی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔تحقیقی مضامین و مقالہ جات کا تھوڑا سا مطالعہ بھی قاری کو عموماً  تھکا دیتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کی تحریران کی شخصیت کی طرح سادہ و آسان ہے اور اس میں پانی کی جیسی روانی ہے۔اس کے ساتھ کلام اقبال کے اسرار ورموز سے سرکتے ہوئے حجاب انکشافات قاری کو کتاب پڑھنے کے بعد بھی اس کی ورق گردانی پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک ثقیل موضوع پر قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھنا محقق کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ اور شاید ڈاکٹر صاحب نے بھی اس کی شعوری کوشش نہیں کی ہو گی۔لیکن دراصل وہ فطری طور پر ایک ایسے ادیب ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ پڑھنے، سمجھنے میں دقّت نہیں ہوتی بلکہ ان کا انداز بیاں اور تحریرکی شگفتگی قاری کو اپنے دام میں یوں پھانس لیتی ہے کہ وہ جتنا پڑھتا جاتا ہے اس کی تشنگی بھی بڑھتی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تحریر کی ان تمام تر خوبیوں نے تحقیقی مقالہ جات کے مخصوص اسلوب کو بھی متاثر نہیں کیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بجا ہو گا کہ یہ کتاب تحقیق اور تخلیق کا خوبصورت امتزاج ہے۔ ان کی تحریریں communicationکے سبھی اصولوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے نظر آتی ہیں۔حتیٰ کہ تحقیق کے میدان میں بھی ڈاکٹر صاحب کی تحریر کی انفرادیت اور شناخت برقرار رہی ہے۔یہ مشکل کام کسی سکّہ بند ادیب کا قلم ہی انجام دے سکتا ہے۔مذکورہ کتاب اقبالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کشمیر کے مرغزاروں سے اٹھنے والا ہوا کاتازہ جھونکا ہے جو ذہن و فکر پر اپنا لمس چھوڑ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کتاب نے اگر مجھ جیسے کوڑھ مغز کو بھی مدتوں بعد اقبال کو طاق سے نیچے اتارنے پر مجبور کیا ہے تو یقینا ً موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں اور صاحب مطالعہ لوگوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔اس کے علاوہ اقبال کی کشمیر سے نسبت اور تعلق کا تذکرہ، زمانے کی چیرہ دستیوں اور محرومیوں کی شکارلاوارث کشمیر کی نئی نسل کے لیے بہت حوصلے کا باعث ہے۔ وہ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان،ایران اورافغانستان کے لٹریچر اور یہاں پر مسلم تہذیب کی تشکیل نو میں کشمیریوں کا گراں قدر حصہ ہے۔ سو اس اعتبار سے بھی ڈاکٹر صاحب کی یہ کاوش کشمیری قوم کے لیے ایک بڑی خدمت ہے۔ یقیناً ہم لوگ ان کی اس خدمت کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ البتہ یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ سفر جاری رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply