• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • افغانی اور کشمیری احسان فراموشی مت کریں۔۔۔۔۔اسامہ اقبال خواجہ

افغانی اور کشمیری احسان فراموشی مت کریں۔۔۔۔۔اسامہ اقبال خواجہ

دنیا کے مختلف ممالک میں محب وطن شہری کچھ کچھ عرصے بعد دوسرے علاقوں سے آئے مہاجرین کی واپسی کے مطالبات کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا ملک  اسلامی جمہوریہ پاکستان  اسلام کی پہلی سوپر پاور ہونے کے ساتھ ساتھ، اسلام کا اکلوتا قلعہ بھی ہے۔ جس کا نقشہ ہندوستان کے مشہور علی گڑھ مسلم کالج کے جانے مانے انجینئرز نے الٰہ باد کے مقام پر عالمی شعرا کرام سے منظور کروایا۔ قلعے کے اس پراجیکٹ پر باقاعدہ کام کا آغاز 1940 میں ہوا اور پھر کچھ ہی عرصے کی محنت اور عظمت سے یہ وجود میں آگیا۔ عین اس وقت جب اس کی تعمیر، تکمیل کے ساحل سے ٹکرانے لگی تھی، ایک سنگین مسئلے نے جنم لیا۔ جی ہاں! ہماری شہہ رگ اس وقت کے تازہ ترین دشمن کے نرغے میں آ گئی۔ بس پھر کیا تھا، دنیا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ہر طرف سے نارِ نمرود کے الاؤ روشن کیے   اور ہم پر چڑھ دوڑی۔

خواتین و حضرات! کہانی اگر اس قدر سادہ ہوتی تو مطالعہ پاکستان لکھوانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ سیدھا تاریخ پاکستان چھاپ دی جاتی اور ہر شہری کا اس پر ایمان ہوتا کہ کشمیر کی خاطر ہندوستان نے کئی بار ہم پر حملہ کیا اور ہر بار اُسے  منہ کی کھانا پڑی۔ روس شدید سردی سے تنگ آکر بحیرہ عرب کے بھاپ اڑاتے پانی سے روزانہ کئی مرتبہ غسل کر چکا ہوتا۔ مگر یہ ہماری قوتِ ایمانی تھی جس کے بل بوتے پر ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے پر تو  کشمیریوں کے علاوہ کسی نے مدد تو درکنار، نیک خواہشات والا میسج تک نہیں کیا۔ ہاں البتہ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ افغانستان  والے قضیہ  میں قبلہ و کعبہ  امام سعودیہ جی اور ایک اہلِ کتاب دوست نے توپ و تلوار سے لے کر علمی و قلمی جہاد تک ہماری مدد و نصرت کے ساتھ راہنمائی بھی فرمائی۔

خیر مدعے کی طرف آئیں، تو کہانی پہلے کشمیر سے شروع ہوتی ہے کیونکہ مسئلہ بھی پہلے وہاں ہی پیدا ہوا تھا۔ خیر اس مسئلے پر کشمیریوں کے لیے ہم نے مار بھی کھائی اور مارا بھی خوب۔ دکھ صرف اس بات کا ہے کہ  چند مفاد پرست کشمیری آج بھی ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آخر کیا کیا یاد دلاؤں جب قبائلی بھائیوں کو ہم نے ان کی مدد کے لیے روانہ کیا یا جب ڈوگرہ مہاراج نے ہندوستان کی جانب رُخ کیا اور ہم ملزموں کی طرح اقوام متحدہ میں پیش ہوئے۔ ارے ہندوستان اگر یہ دعوی کرتا ہے کہ نہرو اپنے وعدۂِ رائے شماری سے اس لیے پھر گیا کیونکہ ہم نے سیٹو اور سینٹو میں شمولیت اختیار کی تو میرے پیارے کشمیری بھائیو یہ آپ کی بھول ہے، اگر آپ نے پچھلے چند برسوں میں ایک لاکھ پیارے گنوائے ہیں تو ہم نے بھی آپ کی خاطر آزاد کشمیر کو بیس کیمپ کے ساتھ ساتھ پتا نہیں کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ ذرا مقبوضہ اور آزاد خطے کا موازنہ تو کر کے دیکھیں، کیا سرینگر، وادی یا بارہ مولا میں مظفرآباد، باغ یا راولاکوٹ جیسی کوئی ایک بھی یونیورسٹی ہے؟ کیا آپ کو مقبوضہ وادی میں راولاکوٹ جیسا ایک بھی شیخ زید ہسپتال میسر ہے؟ کیا آپ کے ہاں سپر ہائی ویز کا وہ جال موجود ہے جو ہم نے آزاد کشمیر میں قائم کر رکھا ہے؟ کیا سرینگر ائیرپورٹ دور سے بھی، مظفرآباد بلکہ راولاکوٹ کے ائیرپورٹ کا مقابلہ کرتا ہے؟

کشمیری شاید بھولے بھالے ہیں اسی واسطے میں ان کے لیے سخت رویہ اختیار نہیں کرتا مگر یہ افغانی، اللہ ہی انہیں ہدایت دے۔ بھئی دل سے تو کبھی انہوں نے ہمیں مانا نہیں، ہندوستانیوں کے ساتھ اندر خانہ تعلقات شروع سے رکھتے آئے ہیں۔ ہمیں یاد ہے جب اسّی کی دہائی میں ایک ملحد کے حمایتی ڈاکٹر نجیب نے اپنے اسلام دشمن عزائم کا اظہار کیا تو ہم نے اُس کے سیاسی پیر سمیت دانت کھٹے میٹھے ایک ساتھ کر دیے۔ افغانیوں کو آزادی دلائی، طالبان کو شرعی حکومت بنوا کر دی۔ اُن پر اپنے گھروں کے دروازے کھولے، انہیں یہاں کاروبار کی اجازت دی۔ انہوں نے یہاں شادیاں تک کیں ، اب تک تو ان کی اولادیں بھی یہاں رچ بس گئیں تھیں۔ بس ہم نے ایک واپسی کی درخواست ہی کی مگر ہر بار کی طرح ان کمبختوں نے اب بھی ہماری پیٹھ میں چھرا ہی گھونپا۔ ہم نے تو حالات کے جبر سے تنگ آکر روس کے خلاف جہاد کو غلطی بھی قرار دے دیا تھا، مجاہدِ ماضی حمید گل جی سے لے کر مولانا شیرانی تک سب نے اقرار بھی کر لیا مگر یہ ہیں کہ لوہے کے چنے بنانے پر تُلے ہوئے ہیں ہمیں۔

آخری بات، ہمارے ہاں ٹیکس صرف چند محب وطن شہری دیتے ہیں مگر استعمال کے وقت   سب ہماری عزت کا جلوس نکالتے ہیں۔ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:مضمون آزادی اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا جارہا ہے،جس سے ادارے کا متفق ہونا  ضروری نہیں !

Facebook Comments

Usama Iqbal Khawaja
صحافی بننے کی کوشش میں، بول نیوز کے ساتھ منسلک ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply