اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کا قتل اور پہلا مارشل لاء۔۔انجینئر عمران مسعود

21 ستمبر 1958 میں مشرقی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں شروع ہونے والی کارروائی اس وقت پُر تشدد ہنگامے میں تبدیل ہو گئی جب عوامی لیگ کے 6 ارکان کو سپیکر نے رولنگ دے کر نا اہل قرار دیا۔ مجبوراً پولیس کو مداخلت کرنی پڑی،سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی کہ وہ اپوزیشن کی حمایت کر رہے ہیں، یہ ہنگامہ چلتا رہا کہ 24 ستمبر  کو سپیکر کو کارروئی سے روک دیا گیا، ڈپٹی سپیکر شاہد علی نے جب کارروائی کا آغاز کیا تو کسی نے کرسی اٹھا کے پھینکی ایک شخص نے پیپر ویٹ اٹھا کے دے مارا، نتیجتاً ان کا چہرا زخمی ہو گیا۔ دو روز بے ہوشی کے بعد 26ستمبر 1958 کو انتقال کر گئے۔ اس ہنگامہ آرائی میں شیخ مجیب الرحمٰن نے قومی پرچم اتارا اور ان پر قومی پرچم کی توہین کا الزام بھی لگا۔یہ سیاسی ہنگامہ آرائی نہ تھمی تو 7 ستمبر 1958 کو پہلا مارشل لا لگا دیا گیا۔ پھر امریکی غلامی اور کٹھ پتلی حکومتوں کے اس دور کا آغاز ہوا جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ خیزی نے ایک بار پھر تاریخ دہرا دی جو انتہائی شرم ناک ہے۔جس کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ عنقریب پاکستان میں اسلام تو نافذ نہیں ہوسکے گا لیکن فرقہ واریت ضرور بڑھے گی، لیکن اب تو اس سے بھی آگے سیاسی فرقہ واریت کا  زہر ہم میں سرائیت کر چکا ہے۔ پہلے گستاخ و مرتد و کافر کے نعروں نے خوب خون ریزی مچائی تو اب غدار, وطن فروش اور جاہل پٹواری وغیرہ نے سیاسی فرقہ واریت کو جنم دیا. سیاسی نفرتوں میں اتنا آگے مت جائیں کہ ہمیں پھر 70 سال پیچھے گرنا پڑے۔

مرے حبیب بہت احتیاط ہے لازم
کہیں نہ عشق ترا شرک میں بدل جائے

Advertisements
julia rana solicitors

تاریخ دہرانے کا مقصد   کسی جماعت کی حمایت یا مخالفت مقصود نہیں بلکہ یہ پیغام دینا ہے کہ اختلاف رائے برداشت کرنے حوصلہ پیدا کیجیے ۔ ہم ایک قوم کی بجائے یوتھیا اور پٹواری کی تقسیم میں بٹے ہوئے ہیں جو شاید اب بڑھ کے محب وطن اور غدار کی تقسیم تک پہنچ چکی ہے۔ سیاسی وابستگی کا اظہار ہر پاکستانی کا شعوری اور جمہوری حق ہے۔ سیاستدان اور لیڈروں کا المیہ تو یہ ہے کہ وہ عوامی جذبات اور مقبول عام بیانیہ بیچتے ہیں اور افسوس کے ساتھ صحافیوں کی بھی ایک تعداد اپنی مقبولیت کی خاطر ان نعروں کا ساتھ دیتی۔ حقائق جانتے ہوئے بھی چھپا لیتی ہے، ممکن ہے ہر ایک کی اپنی کوئی ہمدردیاں اور وابستگیاں بھی ہوں گی، شاید اس سیاسی پولرائزیشن اور جذباتی فضا کے اندر کچھ کہنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں آپ پر بھی کوئی لیبل نہ لگ جائے کیونکہ ہمارے لیڈر اب سرِ عام حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں اور ملک دشمن اور وطن فروش کا فیصلہ بھی عدالتوں کی بجائے سڑکوں پر ہو رہا ہے، کیونکہ جب ادارے اپنا کام نہ کریں تو فیصلے اور سزا و جزا سڑکوں پر ہی ہونے لگتی ہے۔

Facebook Comments

انجینئر عمران مسعود
میں پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہوں. تاریخ, مذہب اور ادب و فنون سے دلچسپی رکھتا ہوں. فارغ اوقات میں مصوری کا شغف ہے. بطور لکھاری تاریخ اور مذہب کو تنقیدی پیرائے میں دیکھنے اور لکھنے کو موضوع بناتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply