• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • استعفیٰ نہ دیں ، ریفرنڈم کروالیں ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

استعفیٰ نہ دیں ، ریفرنڈم کروالیں ۔۔۔سید عارف مصطفٰی

استعفیٰ نہ سہی لیکن اس دھرنے والے مسئلے کا کوئی غیر معمولی حل تو اب نکالنا ہی پڑے گا کیونکہ معاملات گھمبیر تر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور حکومت ہو یا کہ مولانا فضل الرحمان دونوں ہی کے لیئے اب ایک دوسرے کی عزت بچانا ناگزیر دکھائی دیتا ہے اور یوں فیس سیونگ کیے بغیر یہ دھرنے والا معاملہ جلدحل  ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور گو کہ مولانا کی پھونک نکل چکی ہے لیکن وہ ضدم ضدا میں سارے عقیدتمندوں کا سیاناس مارنے پہ تلے نظر آتے ہیں ۔۔۔ اس لیے عین مناسب ہے کہ آئین میں دی گئی گنجائشوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور چونکہ اس میں اہم قومی معاملات پہ قوم سے رجوع کرنے کا آپشن فراہم کیا گیا ہے اوربلاشبہ دھرنے کے نتیجے میں ملکی معیشت اور امن و امان کو لاحق خطرات سے اہم قومی مفادات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں چنانچہ اس اہم قومی معاملے پہ قوم کی رائے لینا بھی ناگزیر ہوگیا ہے ۔۔۔ اور یوں اس امر میں کوئی حرج نہیں کہ صدر مملکت کے فرمان کے ذریعے ایک قومی ریفرنڈم کروالیا جائے اور عوام سے پوچھ لیا جائے کہ کہ کیا وہ عمران خان کا استعفیٰ چاہتے ہیں یا انہیں نئے الیکشن درکار ہیں ۔۔۔ ؟؟ اس طرح سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو فیس سیونگ بھی مل جائے گی اور میری دانست میں یہ سارا کام عدلیہ کی نگرانی میں جتنی جلد کروالیا جائے اتنا ہی بہتر ہے اور اسکے کم ازکم نصف اخراجات اپوزیشن بلکہ جمیعت علمائے اسلام سے لیئے جائیں
یہاں میں ایک بار پھر یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ معاملات اب جلد حل کے متقاضی ہیں ورنہ کسی کا کچھ بگڑے نہ بگڑے وطن عزیز کا بہت کچھ بگڑ جانا لازمی ہے کیونکہ معیشت کا پہیہ پھر سے جام ہوچلا ہے اور یوں مزید بیشمار لوگوں کا بیروزگار ہوجانا یقینی ہے ۔۔۔ دھرنے پہ بیٹھے لوگوں کا ذہنی معیار یہ ہے کہ یا تو صم” بکم” کی مانند ہیں یا پھر اس عمر میں بھی لنگڑی پالا کھیل رہے ہیں اور ایک دوسرے کو چادروں پہ اچھال اچھال کر خوش ہورہے ہیں لیکن آخر کب تک ؟؟ بارش اور بیماری تو کسی کی بھی دوست نہیں ، وہاں ادھر پریڈ گراؤنڈ میں زندگی مشکل تر بلکہ اجیرن ہوتی جارہی ہے۔۔۔ کیا ستم ظریفی بلکہ سنگدلی ہے کہ ادھرموسم کی شدت سے خیمے اور سانسیں اکھڑنا معمول ہوچلا ہے اور ادھر جمیعت کی قیادت محل نما گھروں میں نرم و گرم بستر میں آرام فرما رہتی ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے گم صم عقیدتمندوں سے بس خطاب کرنے کے لیے ہی اپنی سیاسی جاگیر کا دورہ کرنے تشریف لاتی ہے
کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جانے انجانے میں عمران خان اور مولانا فضل الرحمان ، دونوں ہی بھارتی مقاصد اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی پاسداری کے لیے استعمال ہوگئے ہیں ایک نے کشمیر کے بھارتی ادغام کے معاملے میں مؤثر جوابی عسکری کارروائی نہ کرکے اور دوسرے نے عین اسی بحرانی دور میں آزادی مارچ کرکے میڈیا اور ذہنوں سے اس معاملے کو محو کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ۔۔۔ آپ کسی انصافی کو یہ کہنے سے سے کیسے روک سکتے ہیں کہ عمران خان کو یہودی ایجنٹ پکارنے والے مولانا نے تو اس وقت درحقیقت بھارتی ایجنٹ ہونے کا کردار ادا کیا ہے اور مجھے یہ نہیں سمجھ میں آتا کہ ان دونوں نے کشمیر کے معاملے پہ قومی مفادات سے اس قدر پہلو تہی کیوں کی ہے ۔۔۔ ویسے تو اس ضمن میں سو باتیں کہی جاسکتی ہیں لیکن اگر مولانا کی الیکشن میں دھاندلی والی بات میں کچھ وزن ہو، تب بھی آخر موصوف کے لیے ایسی کیا ماری جارہی تھی کہ اس آشوبی وقت حضرت کو مظلوم کشمیریوں کی مدد کے لیئے سرحد پہ اپنا لشکر لے جانے کے بجائے اسلام آباد آدھمکنے کی سوجھی ۔۔۔ حالانکہ وہ اگر کشمیری سرحد کی جانب ایک قدم بھی اٹھاتے تو ساری قوم بلا لحاظ رنگ و نسل اور بنا تفریق زبان و مسلک انکی پشت پہ جاکھڑی ہوتی اور اہم قومی معاملات پہ بچکانہ سوچ اور طرز عمل کے عادی عمران خان کو یہ کہنے کی جرات بھی نہ ہوپاتی کہ لائن آف کنٹرول عبور کرنے کا مطلب ملک سے بیوفائی ہے جو کہ درحقیقت ایک برعکس بات ہے اور یوں یہ پابندی ایک ستم ظریفانہ مذاق بلکہ بزدلی و بے حمیتی کے معاملے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے ۔۔
بڑے ادب سے یہ بھی عرض ہے کہ مولانا یہ بھی نہ بھولیں کہ ابھی قوم کی جانب سے ان کا یہ احتساب بھی بنتا ہے کہ برس ہا برس کشمیر کمیٹی کے مزے لوٹنے کے دوران انہوں نے کشمیر کاز کے لیے آخر کیا کیا اور انہیں اس عہدے پہ بطور رشوت فائز رکھنے والی نون لیگی و جیالی حکومتوں سے بھی یہ پوچھا جانا باقی ہے کہ کشمیر کمیٹی میں مولانا کی بے عملی اورپست کارکردگی پہ ان سے کیا حساب لیا گیا اور اس قدر خطیر رقومات کے زیاں پہ انکے خلاف مقدمات کیوں قائم نہیں کیئے گئے ۔۔۔ مولانا یہ بھی یاد رکھیں کہ اب قوم یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ عین ان دنوں میں کہ جبکہ مظلوم کشمیریوں پہ نازل ہوئی قیامت کو چوتھا مہینہ بھی آن لگا ہے تو وہ اپنے اس سیاسی تماشے کے ذریعے ان مظلوموں کی جانب سے پوری دنیا کی تؤجہ ہٹانے میں وہی کردار ادا کررہے ہیں کہ جو بھارت اور امریکا کو مطلوب ہے اور یوں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وہ درحقیقت کس کا کھیل کھیل رہے ہیں ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply