اردن : بادشاه کا فیصلہ (قسط 1) ۔۔وہارا امباکر

شاہ حسین نے اپنی موت سے دو ہفتے پہلے اپنے بڑے بیٹے حسین کو اپنے پاس بلایا۔ وہ ایک فیصلہ کر چکے تھے، جس نے اس نوجوان کی اور اس ملک کی قسمت پر بہت اثر ڈالنا تھا۔

شاہ حسین ابھی امریکہ سے واپس آئے تھے جہاں وہ چھ ماہ ہسپتال میں داخل رہے تھے تا کہ لمفوما کا علاج ہو سکے لیکن کینسر شدت کے ساتھ واپس آیا تھا اور ڈاکٹروں نے بتا دیا تھا کہ ان کے پاس وقت بہت کم ہے۔ 22 جنوری 1999 کو انہوں نے عبداللہ کو فون کیا۔ ان کے 36 سالہ بیٹے آرمی کمانڈر تھے اور اپنے ملٹری کیرئیر کے بیچ میں تھے اور کہا کہ فوری ان کے پاس پہنچیں۔

عبداللہ عمان کی پہاڑی پر واقع اس محل میں پہنچے۔ ان کے والد کمزور اور نقاہت کا شکار تھے۔ کیمیوتھراپی کی وجہ سے ان کے بال اور داڑھی گر چکے تھے۔ کمرے سے سب کو نکال کر انہوں نے اپنے بیٹے کو کہا، “میں تمہیں ولی عہد بنانا چاہتا ہوں”۔

تین دہائیوں سے یہ عہدہ ان کے بھائی حسن کے پاس تھا۔ شہزادہ عبداللہ نے اپنا وقت ٹینک چلاتے، ہیلی کاپٹر اڑاتے اور پیراشوٹ سے چھلانگیں لگاتے گزارا تھا۔ سیاست اور محلاتی معاملات میں کبھی دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ ان کا شوق ملٹری تھا۔ اب ان کے والد ایسے کام کا کہہ رہے تھے جو خطروں بھرا تھا جس میں ایک بڑا مسئلہ فیملی کے ساتھ ہونے والا ممکنہ تصادم تھا۔ “چچا کا کیا ہو گا؟” عبداللہ کا اپنے والد سے یہ سوال تھا۔

بادشاہ نے فیصلہ کر لیا تھا۔ اس سے کچھ روز بعد اپنے بھائی کو کھلے خط کے ذریعے اس سے آگاہ کیا۔ شاہی خاندان کے کچھ افراد سے مایوسی کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ یہ تخت اس کے پاس جائے گا جس کو بادشاہ بننے کی خواہش نہیں ہے۔ اپنے بھائیوں، گیارہ بچوں اور بھتیجوں میں سے یہ انتخاب عبداللہ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبداللہ نے زندگی کا ایک بڑا حصہ اردن سے باہر گزارا تھا۔ پہلے برطانیہ سے سکول اور پھر امریکہ سے یونیورسٹی میں پڑھا تھا۔ واپس آ کر عام فوجی کی طرح کیرئیر شروع کیا تھا۔ وہی بیرک اور وہی راشن، جو اردن کے کسی بھی کمشنڈ آفیسر کے حصے میں آتی ہیں۔ ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے اب سینئیر عہدے پر تھے لیکن ان کا شوق تھرل کا تھا۔ خاص طور پر ان مواقع کی تلاش میں رہتے تھے جب وہ سپیشل فورسز کا حصہ ہوں۔ اس سے ایک سال پہلے انہوں نے خود ایک مجرموں کے بڑے گینگ کے خلاف آپریشن کی قیادت کی تھی۔ سڑکوں پر ہونے والی یہ جھڑپ ٹی وی پر لائیو نشریات کا حصہ بنی تھی۔

اب بادشاہ کا ایک فقرہ یہ سب کچھ تبدیل کرنے لگا تھا۔ بادشاہ نے ساتھ ہی یہ بتایا کہ ان کی زندگی بس آخری دموں پر ہے۔ عبداللہ بعد میں بتاتے ہیں۔ “مجھے ایسے لگا کہ میرے جسم میں سردی کی لہر دوڑ گئی ہو۔ یہ میری زندگی کا وہ پہلا موقع جب میں نے اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ حسین نے سب کچھ اپنے بیٹے کے سپرد کر کے علاج کی ایک آخری کوشش کے لئے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے والد کو جب 29 جنوری کو ائیرپورٹ چھوڑنے گئے تو عبداللہ کو اندازہ تھا کہ وہ والد کو آخری بار دیکھ رہے ہیں۔ بادشاہ جلد ہی واپس آ گئے۔ نصف صدی تک اردن پر حکومت کرنے والے بادشاہ جب واپس آئے تو ہوش میں نہیں تھے۔ انہیں عمان کے شاہ حسین میڈیکل سنٹر لے جایا گیا۔ 7 فروری 1999 کو دوپہر کو ملک بھر میں ٹی وی نشریات بند ہو گئیں۔ عبداللہ آخری گھنٹوں میں والد کے ساتھ تھے۔ وہ اپنے والد سے ملک کو چلانے کی کوئی نصیحت نہیں لے سکتے تھے۔ اردن کو چلانے کی، جو ہمیشہ بحرانوں کا شکار رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردن نامی کوئی ملک بیسویں صدی سے پہلے تاریخ میں موجود نہیں رہا۔ ایک ہزار سال سے دریائے اردن کے مشرق میں زمین اسلامی خلافت اور سلطنتوں کا حصہ رہی۔ دمشق اور بغداد سے یہاں حکومت رہی۔ جب ترکوں کی عثمانیہ سلطنت آئی تو انہوں نے حجاز پر ہاشمیوں کو حکومت کرنے کی اجازت دی اور ان کے پاس محدود آزادی رہی۔ ہاشمی خاندان کا نو سو سال سے مکہ پر کنٹرول تھا۔ دسویں صدی سے مقاماتِ مقدسہ ان کے پاس تھے۔ بیسویں صدی میں ایک ہاشمی کی آرزو نے اس خاندان کی قسمت اور مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل دیا۔

شریف حسین بن علی مکہ کے 78ویں امیر تھے۔ شاہ حسین کے پردادا اس وقت اقتدار میں آئے تھے جب عثمانی سلطنت منہدم ہو رہی تھی۔ ترکوں نے پہلی جنگِ عظیم میں جرمنوں کا ساتھ دیا۔ شریف حسین نے برطانیہ کے ساتھ بات چیت شروع کر دی کہ بغاوت شروع کی جا سکے تا کہ عرب ترکوں سے آزادی حاصل کر سکیں۔ 1916 میں انہوں نے برطانیہ اور اتحادی افواج کا ساتھ ترکوں کے خلاف اس شرط پر دینے کا فیصلہ کیا کہ برطانیہ نئی عرب اسلامک قوم کو تسلیم کرے گا۔ شریفِ مکہ کے چار بیٹے ۔۔۔ علی، فیصل، عبداللہ اور زید ۔۔۔ عظیم عرب بغاوت میں عرب افواج کی قیادت کرتے رہے۔ (اس میں برطانوی فوجی افسر لارنس کو فلم سازوں اور تاریخ لکھنے والوں نے لارنس آف عریبیہ سے مشہور کیا ہے)۔

عرب جیت گئے۔ برطانیہ اور فرانس نے عثمانیہ سلطنت کو تقسیم کر دیا۔ نقشے بنائے گئے جس میں نئے ممالک ایجاد ہوئے۔ عراق اور سیریا بنے۔ دریائے اردن اور بحیرہ روم کے درمیان اسرائیل بنایا گیا۔ اس دریا کے مشرق میں بدو قبائل اور وسیع صحرا میں برطانیہ نے شریف حسین کے تیسرے بیٹے عبداللہ اول کے لئے ایک ملک بنا دیا۔ اس کو پہلے ٹرانس جورڈن کی امارات کہا گیا اور پھر ہاشمیوں کی اردن کی سلطنت۔ نہ تاریخ میں ایسا ملک پہلے رہا تھا اور نہ ہی اس خطے میں پھیلے قبائل کی کوئی قومی شناخت تھی۔ نہ ہی تیل یا گیس کے بڑے ذخائر تھے، نہ زراعت کے لئے پانی۔ ان کا امیر عبداللہ بھی باہر سے آیا تھا۔ عام خیال تھا کہ ٹرانس جورڈن جلد ہی ختم ہو جائے گا اور اس کے بڑے ہمسائیوں میں سے کوئی اس پر قبضہ کر لے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کو پہلا سنجیدہ خطرہ نجد سے آیا جب اخوان قبائل نے ان پر 1920 کی دہائی میں حملہ کیا۔ سعود خاندان نے اس حملے پر قابو پانے میں مدد کی۔ پھر 1960 کی دہائی کے آخر میں فلسطینی گوریلوں نے اردن کی ریاست کو چیلنج کیا۔ فلسطین سے آنے والوں نے اردن کی فوج پر حملے کئے اور شاہ حسین کو کئی مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی۔ بادشاہ نے جواب میں آپریشن شروع کیا جو بلیک ستمبر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں ہزاروں فلسطینی عسکریت پسند مارے گئے اور بہت سے فلسطینیوں کو سیریا اور لبنان کی طرف دھکیل دیا گیا۔ سخت لڑائی فلسطین کے شہر زرقہ میں ہوئی۔

خطے میں بدامنی اردن کی سرحد کو 1980 کی دہائی میں پار کر آئی۔ اس کی وجہ فلسطین میں ہونے والا انتفادہ اور افغانستان میں ہونے والی جنگ تھی جس میں شرکت کرنے سینکڑوں اردنی رضاکار گئے تھے اور نئے خیالات اور عسکری مہارتیں لے کر واپس آئے تھے۔

دوسرے عرب حکمرانوں کی طرح اردن کے بادشاہ نے طاقتور اور بے رحم انٹیلی جنس نیٹ ورک بنائے کہ انتہاپسندوں کو قابو میں رکھا جا سکے۔ ساتھ ساتھ معتدل اسلام پسند جماعتوں کو سیاسی آزادی بھی دی۔ اسلامک فرنٹ اردن کی سیاست میں ہمیشہ سے نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے، کبھی حکومت میں رہی اور کبھی مخالف لیکن سیاسی عمل کا حصہ ہمیشہ رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاہ عبداللہ نے بادشاہ بنتے ہی خاندان کے معاملات نپٹانے کے ساتھ ساتھ خطے کا دورہ شروع کیا۔ اردن خطے میں تنہا تھا۔ خلیج کی جنگ میں تمام عرب ممالک نے صدام حسین کے خلاف امریکی حملے کی حمایت کی تھی۔ اردن اس میں نیوٹرل رہا تھا۔ یہ خطا معاف نہیں کی گئی تھی۔ شاہ عبداللہ نے سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے تعلقات واپس ٹھیک کرنے کے لئے دورے کئے اور یہ مرمت کامیابی سے ہوئی۔ اسرائیل کے ناپسند کئے جانے والے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو کھانے پر مدعو کیا۔ یہاں تک کہ دیرینہ حریف شام کے آمر حافظ الاسد کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور ان کی موت کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کے ساتھ بھی دوستی کی۔

عراق، شام، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان گھرے ہوئے اس چھوٹے ملک کو اگلے برسوں میں کئی بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا تھا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply