ادب ،ادیب اور سماج /منصور ساحل

تاریخی اوراق پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان غاروں میں رہائش پذیر تھا اور اپنی ضروریات کومحدودپیمانے پر پورا کرتا تھا ۔اِن ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیےاِس انسان نے دوسرے انسانوں کے ساتھ میل جول قائم کرکے سماج کی بنیاد رکھی۔سماج کی بدولت انسان کی پہچان و شناخت سامنے آئی اور زندگی گزارنے کے مختلف ذرائع کی تلاش کیے۔“سماج سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں “انجمن،مجلس،محفل یا گروہ یعنی سماج کے لغوی معنی ہیں “ایک ساتھ رہنا، اکھٹا رہنا”(1)۔انگریزی میں سماج کے لیے “سوسائٹی” SOCIATY کا لفظ رائج ہے۔

اصطلاح میں سماج سے مراد طرز بودو باش،رسم و رواج،رہن سہن،اخلاق و عادات،افکار و تصورات اور فلسفہ حیات کا ایک ایسا طریقہ یا نظام ہے جس کے تحت انسانوں کے گروہ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ سماج کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے قریب رہتا ہے۔ان کے اندر سماجی و معاشرتی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا اور وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ابتداء میں ایک انسان شکار کرتا تھا اور اکیلے ہی کھاتا تھا۔یہ انسان اپنی ذات تک محدود تھا اور اپنے لیے زندگی بسر کرتا تھا۔ پھر باہمی اشتراک اور میل جول کی وجہ سے قبیلے اور خاندان کی شکل میں رہنے لگا۔ محمد مصلح الدین صدیقی اس حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
” وسیع معنی میں سماجیات کو ان آپسی تعلقات کے مطالعہ کا علم کہا گیا ہے جو لوگوں کے میل جول کا نتیجہ ہوتے ہیں۔میل جول کی زندگی بسر کرنا انسانی فطرت کا تقاضہ ہے اسی لیے انسان کو سماجی حیوان کہا گیا ہے۔ انسان پیدائش سے لے کر موت تک کسی نہ کسی صورت میں اپنے سماج سے وابستہ رہتا ہے”(2)
سماج ایسے گروہ کا نام ہے جس میں افراد روایتوں اور کچھ پابندیوں کے ماتحت زندگی گزارتے ہیں۔سماج اور فرد کے باہمی تعلق کی اہمیت مسلم ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ فرد کی حالت بدتر ہو اور سماج بہتر ہو۔قاسم یعقوب اپنی کتاب”فرد سماج اور تہذیبی تجزیہ” میں فرد اور سماج کے تعلق کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
“فرد سماج کاوہ عنصر ہے جس کی یکجائی ایک سماج کی تشکیل کرتی ہے سماج کا مجموعی رویہ افراد کے رویوں کا انعکاس ہوتا ہے۔ سماج کی تشکیل ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سماج جس تشکیلی عناصر سے تالیف ہوا ہے اُس کی بنیاد فرد کی ذاتی سوچ اور عمل کاری سے وابستہ ہے افراد سماج کی فکری ،تخلیقی اور تہذیبی پرداخت کا تانا بانا بُنتے ہیں ۔فرد سماج کے ساتھ مساوی حیثیت سے موجود رہتاہے۔” (3)
ادب انسانی احساسات ،تجربات اورمشاہدات کا تحریری عکس ہے ادب زندگی کو نئی راہ دکھاتا ہے۔ ادب کے ذریعے سے ہم دوسرے انسانوں کے تجربوں اور مشاہدوں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کی لکھی ہوئی تحریریں اپنی کہانیاں معلوم ہوتی ہیں ۔ادب ،سماج اور زندگی کا تعلق لازم و ملزوم ہے کیونکہ زندگی کے نامعلوم تجربے ہمیں ادب میں ملتے ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ ادب کی تعریف کرتے ہوئےادب اور زندگی کوایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں:
” ادب وہ فنِ لطیف ہے ،جس کے ذریعے ادیب اپنے جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے واسطے سے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی و تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوت مخترعہ سے کام لے کر اظہار و بیان کے ایسے مسرت بخش حسین اور مؤثر پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع و قاری کا جذبہ و تخیل بھی تقریبا اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا اپنا تخیل اور جذبہ متاثر ہوتا ہے”(4)
زندگی ارتقا کا دوسرا نام ہے جس میں انسان کے انفرادی و اجتماعی رویےمسلسل ارتقا پذیر نظر آتے ہیں۔ادب اسی زندگی اور رویوں کی تصویر اور ترجمان ہے۔ ادب اور ادبی علوم و فنون سماج کا اہم حصہ ہیں سما ج کی ترقی میں ادب کے نمایاں کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ادب سماج کی تشکیل نو اور اس کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔بقول پروفیسر آل احمد سرور:
“ادب زندگی کی عکاسی بھی کرتاہے اور اس کی بدلتی ہوئی قدروں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔اس کی تصویریں بھی متحرک ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں اس کی اپنی روح بھی شامل ہوتی ہے۔واقعات اور حادثات کا ذکر کرتے ہوئےوہ انکشاف بھی کرتا ہے۔اس انکشاف میں خوش آئند مستقبل کے امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں”(5)
ادب اور سماج کا رشتہ بہت گہرا ہے ۔ادب اپنے سماج کا ردعمل ہے اور اِسی طرح ادیب اپنی ذات سے ہوتے ہوئے اپنے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرے کےادب میں مخصوص و یکساں روایات،اشتراکات اور موضوعات ملتے ہیں ۔ یہ موضوعات سماجی اثرات سے مستثنیٰ و الگ نہیں ہوسکتے ۔ اس حوالے سے پروفسیر محمد حسن کایہ بیان حقیقت پر مبنیٰ ہے:
“ادبی سماجیات کے بغیر ادب کی تکمیل کا احساس و ادراک ممکن نہیں کم سے کم اس کے ایک پہلو سے محرومی لازم ہوگی” (6)
سماج اور ادب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں یعنی سماج کی تشکیل سے ہی ادب کا وجود ہے۔ادب کا تعلق انسانی زندگی سے ہے اور انسانی زندگی کا منبع و سرچشمہ سماج ہے۔
” ادب ،سماج اور ادیب کی فکری صلاحیتوں میں بڑا گہرا تعلق ہے۔تخلیقی ہو یا تنقیدی ،ادب ہر صورت میں ایک بڑی حد تک سماج کی پیداوار ہوتا ہے اور سماج کو متاثر کرتا ہے۔تخلیقی ادیب سماجی حقائق سے تاثرات حاصل کرکے اور ان تاثرات میں اپنے مخصوص ذہنی عمل سے اپنی شخصیت کا رنگ بھر کر اِنہیں زبان کے سانچوں میں ڈھالتا ہے ۔اس کا نقطہء آغاز زندگی اور سماج ہے اور منتہا تخلیق ادب۔” (7)
ادب سماجی عمل کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی،تہذیب و تمدن ،معاشرت اور کلچر کی عکاسی کرتا ہے۔اچھا اور بہترین ادب وہ ہے جس میں سماج کی، معاشرے کی پوری تصویر ہمارے سامنے آتی ہو۔انسانی زندگی کی پوشیدہ پرتوں کو سمجھنے کے لیے سماج کی تفہیم ضروری ہے ۔ ادیب اُسی معاشرے کا فرد ہوتا ہے اور سماج کی تمام تبدیلیوں سے متاثر ہوتا ہے ۔ادب اور سماج کے متعلقات کے حوالے سے احتشام حسین کا کہنا قابل غور ہے:
“ادب ادیب کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ادب زندگی کی ازسر نو تخلیق ہے ادب انسان کی مادی کشمکش کا دلکش عکس ہے۔ادب صرف لفظوں کی خوبصورت مورتیوں کو فن کی لڑی میں پرونے کا نام نہیں درحقیقت ادب وہ ہے جن میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات بیان کیے گیے ہوں۔”(8)
ادب اور انسانی زندگی اس قدر باہمی مربوط ہے کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصورممکن نہیں۔ادب زندگی کا ترجمان اور ناقد ہے بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ادب دراصل زندگی سے ہی عبارت ہے۔ادب اور سماج کا رشتہ براہ راست ہے اس لیے ادب کو سماج کا آئینہ کہا گیا ہے مشہور فلسفی جی بی برسلی نے کہا ہے:
“ادب زندگی کا نگارخانہ ہے جس کا دائرہ کافی وسیع ہے “(9)
ادب سماجی زندگی اور ماحول کے زیر اثر عظیم ادب بنتا ہے ۔ادب انسان کی خارجی حقیقتوں کو،زندگی کے ٹھوس حقائق کو، اور انسانی احساسات و تجربات کو داخلی آئینے میں پیش کرتا ہے اورادب پاروں میں ان کی جھلکیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں ۔ ادب اور زندگی کے تعلق کے حوالے سے اے۔بی اشرف یوں رقمطراز ہیں:
“ادب اور زندگی کا رشتہ دائمی ہے۔ادب کاسرچشمہ حیات ہے۔ حیات ہی سے اس کے سوتے پھوٹے۔ادب پھول ہے تو زندگی اس کی مہکار۔ ادب جسم ہے تو زندگی اس کی روح،ادب د ل ہے تو زندگی اس کی دھڑکن اور جس روز یہ دھڑکن بند ہوگئی۔ادب کی موت واقع ہوجائے گی۔” (10)
ادیب ادب کو وسیلہ بناکر سماج کے مسائل کو اُجاگر کرتا ہے اور اپنی تخلیق میں اُن تمام پوشیدہ سماجی عناصر کا احاطہ کرتا ہےجو ایک عام انسان نہیں کرسکتا۔ ادب کا تعلق بالواسطہ سماج سے ہوتا ہے ایک ادیب اُسی سماج کا حصہ ہے اور اُسی سماج میں زندگی بسر کرتا ہےاس لیےادیب پر اُس سماج کے اثرات لاشعوری طور پر ہوتے ہیں۔جب ہم کسی ادیب کی نگارشات و تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو گویا ہم اُس عہد اور اس کے سماج کا مطالعہ کرتے ہیں اور اُس ادب میں ہمیں اُس سماج کی پوری تاریخ دیکھنے کو ملتی ہے۔پٹھان عالیہ کوثر کا یہ بیان ادب،ادیب اور سماج کے تعلق کو اور بھی تقویت بخشتاہے:
“حقیقت یہ ہے کہ ہر عہد کا فن کا اپنے دور کی تہذیبی ،سماجی اور سیاسی کشاکش سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتا۔فنکار اپنے گرد و پیش کےماحول اور خارجی زندگی کے تجربات سے جو مواد حاصل کرتا ہے اسے جوں کا توں ادب میں پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے جذبے کی آنچ اور اپنی شخصیت کی بھٹی میں تپا کر اسے موثراور دلنشین بنا دیتا ہے اور موزوںو مناسب پیرائے میں پیش کرتا ہے۔”(11)
ادب کوسماجی عمل اور سماجیات سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ادب انسان کےمردہ ضمیر کو بیدار کرتا ہے اور اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو عیاں کرتا ہے۔ادب نے ہمیشہ محبت ،اَخوت اور امن کا درس دیا ہے تاکہ سماج میں انسان انسانی منصب پر فائز ہوکر سماج کو ارفع مقام پر پہنچائے۔ادب تمام قوانین و اُصولوں سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بات کرتا ہے ۔” ادبی تخلیق ایک سماجی عمل ہے اور تخلیق ایک سماجی پیداوار ،لیکن ادب کی تخلیق فرد کرتا ہے اس لیے سماج سے ادب کے رشتے کو سمجھنے کے لیے سماج سے تخلیق کار کے مضبوط رشتے کو سمجھنا ضروری ہے۔ جسے غیر سماجی یا ذاتی ادب کہا جاتا ہے اس کا بھی سماج سے ایک طرح کا رشتہ ہوتا ہے ۔ یہ بھی ادبی سماجیات کے مطالعے کا ایک موضوع ہے۔سماج کی مخالفت کرنے والے یا سماج سے بغاوت کرنے والے ادب کا سماج سے مختلف نوعیت کا رشتہ ہوتا ہے۔” (12)
ادب پارے اور سماجیات کے باہمی رشتے کی وضاحت ابوالاعجازحفیظ صدیقی یوں کرتے ہیں:
” سماجی پس منظر سے الگ ہوکر خالص جمالیاتی سوچ ممکن ہی نہیں ۔ہم سماجی امور کو ادب کا موضوع کردار اور فکر و احساس کے دو اجزاء جو جزوی یا کلی طور پر سماجی ماحول کی پیداوار ہیں ادب میں شامل ہونے کے لیے بے قرار رہتے ہیں ۔ چنانچہ کسی ادب پارے میں سماجی زندگی کے رشتے کمزور تو ہوسکتے ہیں منقطع نہیں ہوسکتے۔” (13)
سماج اور ادب ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔ کسی بھی شاعر یا ادیب کی نگارشات کے مطالعے سے پہلے اس کی سماجی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ اُ س کا تخلیق شدہ فن پارہ انہیں حالات کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ایک اچھا اور پختہ ادیب کبھی بھی ادب برائے ادب کا قائل نہیں ہوسکتا اس کی تخلیقات میں کہیں نہ کہیں زندگی کی حقیقی تصویر موجود ہوتی ہے۔ المختصر ادب دل فریب انداز میں زندگی کے خارجی و داخلی موجودات کی پیش کش کا نام ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ جات
1۔احمد دہلوی،سید، فرہنگ آصفیہ ، لاہور: مکتبہ حسن سہیل ،۱۹۶۷ ،ص۳۲۸
2۔ محمد مصلح الدین صدیقی،سماجیات، حیدر آباد دکن : سنٹرل پبلشرز،حیدر آباد،۱۹۵۳، ص۲،۳
3۔ قاسم یعقوب،فرد سماج اور تہذیبی تجزیہ، کراچی: بک ٹائم،۲۰۱۷،ص ۲۹
4۔ عبداللہ ، سید،ڈاکٹر،اشارات ِتنقید، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز ،۲۰۱۸،ص۲۸۲
5۔ آل احمد سرور،ادب اور نظریہ ، لکھنؤ: ادارہ فروغ اُردو،۱۹۵۴،ص۲۳۰
6۔ محمد حسن ،پروفیسر،”ادبی سماجیات”، دہلی: بشمولہ عصری ادب،۱۹۸۳، ص ۱۴۰
7۔ راجیند ر ناتھ شیدا،ادب فکر اور سماج، دہلی : ایشیا پبلشرز،۱۹۷۲،ص۱
8۔احتشام حسین،سید،ادب اور سماج، ممبئ: کتب پبلشرز لمیٹیڈ،۱۹۷۳، ص ۲۰
9۔ محمد ایمن انصاری،ڈاکٹر،اُردو ناول میں سماجی مسائل کی عکاسی، لکھنؤ:نصرت پبلشرز،۱۹۸۸،ص ۲۷
10۔ اے بی اشرف ،ادب اور سماجی عمل، لاہور:منظور پرنٹنگ پریس،۱۹۸۰، ص۱
11۔ پٹھان عالیہ کوثر علی شاہ خان،ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں کا سماجی مطالعہ( پی ایچ ڈی مقالہ) ،راشٹر
ماتا اندرا گاندھی مہاودیالیہ جالنہ ،انڈیا، ۲۰۰۹
12۔ منیجر پانڈے،مترجم سرور الہدی،ادب کی سماجیات(تصور اور تعبیر)نئی دہلی : انجمن ترقی اُردو ہند، ۲۰۰۶،ص۵۵
13۔ ابوالاعجاز حفیظ صدیقی،کشاف تنقیدی اصطلاحات، اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان،۱۹۷۵،ص۹

Facebook Comments

منصور ساحل
اردو لیکچرر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج چارسدہ ایم فل اردو (ادب اور سماجیات) مدیر برگ ادب

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply