• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اخلاق اور دیانتداری، سیاسی تعصب کی نذر ہو رہے ہیں۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

اخلاق اور دیانتداری، سیاسی تعصب کی نذر ہو رہے ہیں۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

ہماری ایک عزیزہ جو بیرون ملک رہتی ہیں اور پی ٹی آئی کی شدید حامی ہیں۔ وہ مجھے کچھ ماہ پہلے کثرت سے عمران خان کے حق میں پوسٹیں بھیجا کرتی تھیں۔ میں نے اُن سے اُن پوسٹوں کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا کہ اِن کی حقیقت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آپ نے لی ہیں، اِس کا اصل حوالہ کیا ہے؟ چند پوسٹیں ایسی تھیں جن کے بارے میں، میں جانتا تھا۔ میں نے انہیں اُن کے بارے میں بتایا کہ یہ خبریں درست نہیں ہیں۔ اِس کے بعد کچھ عرصہ خاموشی رہی۔ عمران خان صاحب کی حکومت جانے کے بعد وہ شدید غم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اب ایسی ایسی پوسٹیں بھیجتی ہیں جو ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت ملک دشمن اور امریکہ کی غلام ہے۔ انہوں نے جسٹس ناصرہ اقبال سے منسوب ایک آرٹیکل بھیجا جس کے بارے میں، میں نے خود جسٹس صاحبہ سے معلوم کروایا اور اپنی عزیزہ کو بتایا کہ یہ خط اُن کی طرف غلط منسوب کیا گیا ہے۔ جس کا جواب انہوں نے دیا کہ خط یا مضمون کا مواد دیکھیں وہ بالکل سچ ہے۔ میں نے اُن سے پو چھا پھر لکھنے والے نے نام کیوں نہ لکھا؟ فرمانے لگیں۔ ”امپورٹڈ حکومت ہے، یہ لوگوں کو مروا دیتے ہیں، اس لیے اُس نے نام نہیں لکھا”۔ اِس دوران انہوں نے بہت کچھ بھیجا اُسے میں نے Ignoreکیا۔کل انہوں نے ایک خبر مجھے بھیجی جس پہ جیو نیوز کا نام تھا اور خبر یہ تھی “افغانستان پہ فضائی حملہ کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ معاہدہ کے قریب ہیں”۔ میں نے اُن سے گزارش کی اس خبر کی ویڈیو مجھے ’’جیو نیوز ‘‘ کے چینل سے بھیج دیں۔ لیکن اُن کا ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔

میرا مقصد کسی جماعت کی حمایت و مخالفت یا کسی چینل کے متعلق بات کرنا نہیں ہے۔ میرا اصل مقصد اِس سوچ سے متعلق گفتگو کرنا ہے، تاکہ ہماری نوجوان نسل نہ صرف اِس فیک (Fake) سوچ سے باہر آئے اور سچ کی تلاش کو اپنی عادت بنائے۔ وہ فیس بک اور اپنے سٹیٹس پہ کثرت سے ایسا مواد شیئر کرتی ہیں کہ انہیں اِن کے بارے میں بتایا اور خبر دار کرنا بھی ایک ایسی مصروفیت ہے کہ جس میں وقت بہت زیادہ صرف ہوتا ہے۔ جس روز وہ مجھے کوئی خبر بھیجیں،اس کی تحقیق میں ضرور کرکے انہیں بتاتا ہوں۔کیونکہ میرے اپنے باوثوق ذرائع ہیں جن کے ذریعے میں سچائی تک پہنچ جاتا ہوں۔

عمران خان صاحب کی حکومت سے علیحدگی کے بعد ایک بیانیہ سامنے آیا کہ انہیں حکومت سے نکالنے میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ دو دن قبل انہوں نے اپنے خطاب میں دو اور ملکوں کا اضافہ کیا ہے ’’بھارت اور اسرائیل‘‘۔ اگر عمران خان صاحب کے علاوہ کوئی بھی سیاستدان ایسا دعویٰ کرے تو اُس کے بعد دعوے کے ثبوت اور شواہد لائے جانے چاہئیں۔ہمارے ہاں چونکہ ایسا کوئی رواج اور ریت نہیں ہے لہٰذا لیڈر کی بات پہ ایمان لاتے ہوئے لوگ خود ہی ثبوت اور شواہد بنالیتے اور تیار کرکے وائرل بھی کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ ہماری سیاست آج کل اِس کی حقیقی مثال بنی ہوئی ہے۔ جنگ کسی کے خلاف اور محبت اپنے لیڈر کے لیے۔

اِس جنگ اور محبت میں تین بڑے نقصان ہورہے ہیں۔ ایک نقصان جس سے بچنے کی نصیحت میں اپنی عزیزہ سے بھی کرتا ہوں کہ آپ یورپ میں رہتی ہیں۔ یہاں کی سہولتوں سےاستفادہ کرتے ہوئے مطالعہ کی عادت ڈالیں، سیاست سے دلچسپی ہے تو سیاست پہ بہت شاندار کتب موجود ہیں۔ مزید کتب اس پہ شائع ہو رہی ہیں۔ اگر واقعی آپ نے تاریخ اور حالات کو سمجھنا ہے تو پھر تحقیق و مطالعہ کو اختیار کریں۔ چونکہ یہ کام وقت اور سنجیدگی کا متقاضی ہے، بہت ہی کم نوجوان اور لوگ ہیں جو اس طرح محنت کرتے ہیں۔اِس رویہ سے غصہ، جذبات اور مخالفت کا جلد اظہار نہیں ہوسکتا لہٰذا ایک بہت بڑی تعداد یورپ میں رہنے کے باوجود، سیاسی مخالفت برائے مخالفت کی نذر ہورہی ہے۔ آگے بڑھنے کا جذبہ مفقود ہوچکا ہے۔ بس دن رات سیاسی بھوت سوار ہے۔ غصہ ایسا ہے کہ جس کے اظہار اور ختم کر نے کا واحد ذریعہ ایسی پوسٹیں اور مواد ہے۔

یہ رویہ ایک نسل اور عہد کی تباہی کا سبب ہے۔ جس کے نتائج آج نہیں تو کل ضرور ظاہر ہوں گے۔

دوسرا نقصان یہ ہے کہ یہ پوسٹیں اتنی خطر ناک ہیں کہ جن کا تعلق پاکستان کی سالمیت و حفاظت سے ہے اور ممالک کے باہمی تعلقات سے ہے جو کسی حکومت کے لیے نہیں بلکہ ملک کے وجود کے لیے خطرناک ہو سکتی ہیں۔ امریکہ کو ایک دو مہینے سے تنقید اور اندرونی معاملات میں مداخلت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور ایسا بہت سا مواد بغیر ثبوت اور شواہد کے سوشل میڈیا پہ ڈالا گیا اور ٹرینڈز چلائے گئے ہیں۔

اِس کے پیچھے کون لوگ ہیں اور اُن کے کیا مقاصد ہیں؟ اِن کا جاننا بھی بہت مشکل ہے کیو نکہ یہ ایک پیچیدہ صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں یہ رویہ اختیار کرتی رہی ہیں لیکن ایک حکمران رہنے والی ذمہ دار سیاسی جماعت کے نام پہ یہ سب مواد وائرل ہونا خود اس سیاسی جماعت کے راہنماوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

تیسرا نقصان، پاکستان کی معاشی تباہی ہے۔ اب اِس تباہی کے ذمہ دار کون ہیں؟

اِس بحث میں جانے کے بجائے اِس حقیقت سے انکار کوئی پاکستانی نہیں کر سکتا کہ اِس وقت ملک معاشی تباہی کے دہانے اور دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ایسے حالات میں ہم سب پاکستانیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب اِس معاملے پہ اجتماعی سوچ کامظاہرہ کریں۔ اپنی گروہی اور جماعتی سوچ کے بجائے ملک کی فکر کریں۔ اس سوچ اور رویے کے بجائے پاکستان کی سوچ پیدا کریں۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ گزشتہ دور میں کرپشن نہیں تھی تو یہ محض اغماض ہے۔

یقین کیجئے! گزشتہ دور میں ہر دور سے زیادہ کرپشن تھی بلکہ کرپشن کے خلاف شور کرنے والوں نے زیادہ کرپشن کی ہے۔ بہرحال اِسے کسی جماعت اور شخصیت سے جوڑنے کے بجائے اسے ایک سماجی مسئلہ کے طور پر ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جب تک پوری قوم اِس ناسور کے خلاف جمع نہیں ہوتی اور حکومتی نظام کو بہتر نہیں کیا جاتا۔ اس کینسر سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔

کہتے ہیں ’’الناس علی دین ملوکہم ‘‘ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پہ ہوتے ہیں۔ اب حکمرانوں، راہنماوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپنے کارکنوں اور Followersکی تعلیم و تربیت کی خاطر ایسی گفتگو اور بیانات سے پرہیز کرنا ہوگا جس سے پاکستان کمزور ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

عوام اپنے لیڈر کے پیچھے چلتے ہیں۔ وہ ایسی ایسی خبریں اور پوسٹیں وضع کرتے ہیں جو لیڈر اور اس کی سیاست کو فائدہ دیتی ہیں لیکن ملک کے لیے شدید نقصان دہ ہوتی ہیں۔ المختصر، ایسے بہت سے نقصانات ہیں جن کا احاطہ ایک مضمون میں نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ سیاسی ماحول میں سب سے زیادہ متاثر نوجوان طبقہ ہو رہا ہے۔ جس کے پاس تعلیم ہے تو روز گار نہیں، روزگار ہے تو باعزت روزگار نہیں ہے۔ اُس کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔ صرف مستقبل نہیں، وہ اپنی شخصیت کی پرورش اور اُسے پروان چڑھانے سے محروم ہو چکا ہے۔ اُس کی سیاسی تربیت صرف نفرت، تصادم اور ’’مرنے مارنے‘‘ کے لیے ہو رہی ہے۔ جس کا اظہار پوسٹوں، خبروں، گمنام مضامین اور جھوٹ پہ مشتمل مواد سے ہوتا ہے، اس سیاسی تربیت سے اخلاق و معاشرت پر بھی بہت بُرے اثرات مُرتب ہورہے ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے موجودہ سیاسی صورتحال لمحہ فکریہ ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply