احمدی، فرد، ریاست اور اختیار کفر۔۔۔ انعام رانا

(تحریر کی طوالت کی معزرت، مگر پوری پڑھیے۔ آج سے ڈھائی سال قبل  فیس بک وال پر یہ تحریر لکھی تو قادیانی اور قادیانیت نواز قرار پایا تھا۔دونوں کیا ہر جانب سے  گالیاں اور دھمکیاں ملیں۔ سوچا دیکھوں تو مکالمہ نے کیا بدلا ہے)

میرا بچپن ہی سے احمدی حضرات سے کافی تعلق رہا ہے۔ میری ایک پھپھو کا سنی گھرانا بوجوہ پھپھا کی ریلوے ملازمت ربوہ میں مقیم ہوا، بلکہ اب بھی وہیں رہتا ہے اور اب بھی سنی ہی ہے۔ راشد ، اویس، ارمغان اور منہاس سمیت بہت سے فیس بکی و غیر فیس بکی احمدی دوست ہیں۔ راشد سے تو ایسا رشتہ کہ اک سید زادے نے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میرے مقابل ایک احمدی تم کو زیادہ پیارا ہے۔ مانچسٹر میں عرصہ ایک احمدی بھائی کے ساتھ ایک ہی گھر میں مقیم رہا اور اکٹھے کام کرتے تھے۔ بطور وکیل بھی میں احمدی کلائنٹس سے منسلک ہوں۔ جب تجسس کے دور میں تھا تو مرزا صاب کی بہت سی کتب بھی پڑھیں (کئی احمدیوں سے زیادہ اور اورجنل ایڈیشنز) اور ردّ قادیانیت کے حوالے سے بھی کئی انگریزی اردو کتب زیر مطالعہ رہیں۔ حق بات کہ میں نے احمدی حضرات کو ہمیشہ بہت حلیم الطبع، ایک دوسرے کا معاون اور خوش اخلاق پایا۔ جتنی خوش اخلاقی، نظم اور کمٹمنٹ کے ساتھ احمدی حضرات اپنے عقیدے کی تبلیغ کرتے ہیں، کاش ہم سب کریں۔ باقی مولوی انکا بھی نرا مولوی ہی ہے۔

فیس بک پر پھر اک تازہ بحث چلی ہے اور گو میری رائے دینے یا نا دینے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ نا میری دلیل کسی کو منا سکتی ہے کہ احمدی مسلمان ہیں اور نہ کسی احمدی کو قائل کر سکتی ہے وہ مسلمان نہیں۔ یہ عقیدہ اور عشق کا معاملہ ہے، اور دلیل کا یہاں کیا کام۔ بس گزارش ہے کہ تحمل سے پڑھ لیجیے۔

صاحبو میرا دینی علم یا مرتبہ اس قابل نہیں کہ میں کسی کے ایمان یا کفر کا فیصلہ کر سکوں۔ میں ایک گناہگار مسلمان ہوں۔ عمل کوئی نہیں بس عقیدہ ہے، عقیدہ ہے کہ میں درِ محمد(ص) کا کتا ہوں اور مجھے اور کسی در کی ضرورت نہیں۔ میں تو کسی بڑے سے بڑے صحابی کو بھی اپنے صاحب(ص)  کی نبوت میں شریک یا ان کے در کے چوکیدار سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ میرے صاحب(ص) کی ذات اور پیغام میں کوئی ایسی کمی ہی نہیں کہ اسے پورا کرنے کیلیے کسی صحابی، کسی امام، غوث، مجدد، کسی ظلی، کسی مسیح موعود کی ضرورت پڑے۔ یہ ہماری نفسیاتی ضرورت تو ہو سکتی ہے، میرے آقا(ص) کی کمزوری نہیں۔ میرا تو خدا بھی جنابِ محمد ص کا بتایا خدا ہے۔ اور پھر کوئی ایسی خاص تبدیلی بھی تو نا آئی کہ بندہ کسی نئے کو مانے۔ سچ پوچھو تو مجھے اللہ میاں بھی کہیں کہ نیا نبی بھیجا ہے تو کہوں گا شکریہ باس پر مجھے میرے محمد ص ہی کافی ہیں۔ مگر یہ تو ذاتی عقیدہ ہے۔ جہاں تک تصور ختم نبوت ہے، تو میں تو بطور وکیل اسے کاپی رائیٹ کا مسلئہ سمجھتا ہوں۔

مثال سمجھیے کہ میری ایک فرم ہے، جولیا اینڈ رانا۔ یہ میری پہچان ہے۔ اب اگر کوئی صاحب جولیا اینڈ رانا کے نام سے ایک فرم بنا لیں اور کہیں ہم اصلی ہیں، یا ہم مین برانچ کی شاخ ہیں(جبکہ میں نے تو یہ مینڈیٹ دیا ہی نہیں)، یا یہ کہیں کہ جولیا اور رانا میں رانا دراصل میں ہوں۔ تو بھائی یہ میرے کاپی رائیٹ / پیٹنٹ کی خلاف ورزی ہے۔ میرے کلائنٹس گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ بس ابن عربی ہوں، مجدد الف ثانی ہوں، محمد جون پوری ہوں، کوئی بریلوی دیوبندی اکابر ہوں، یا مرزا صاحب، میرے نزدیک کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی ہے۔ اب بھائی میرے پاس دو رستے ہیں۔ ایک کہ ڈنڈا سوٹا لے کر میں یا میری فرم میں کام کرنے والے یا میرے کلائنٹ اس دوسری فرم میں وڑ جائیں اور شیشے توڑیں یا دعوی جواب دعوی اور گالی گلوچ کھیلیں۔ دوسرا طریقہ ہے کہ میں اپنے پیٹنٹ اور کاپی رائیٹ کی خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی کروں اور اس فرم کو مجبور کروں کہ یا تو نام بدلے اور یا بند ہو۔ میرے کلائنٹ گمراہ نہ کرے۔

پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ مگر یہ صرف ایک پارلیمانی قانون نہیں تھا۔ اس پارلیمنٹ میں ہر فقہ اور ہر طبقہ کے مسلمان تھے جنھوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا۔ اب پاکستان کی حد تک تو یہ اجماع امت ہوا۔ کیا باقی کے وہ تمام ممالک جہاں مسلم اکثریت ہے انھوں نے بھی کوئی ایسا فیصلہ کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو یہ اجماع امت ہوا اور جب تک کوئی نیا اجماع نہ ہو جائے اسلامی فقہ کے تحت یہ قائم ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ کیا ریاست کو یہ حق ہے؟ تو بھائی کیا فرد یا گروہ افراد کو ہے؟ پھر تو شیعہ بھی کافر ہے، سنی بھی اور باقی بھی۔ اگر پاکستان ایک سکیولر ریاست ہو تو یہ اسکا مسلئہ ہی نہ ہو۔ مگر جب آپ نے اسلام کو بطور ایک سرکاری دین اپنا لیا تو اب آپ کو اسکے تقاضے بھی پورے کرنے ہوں گے۔ آپ کو خود کو مسلمان کہلانے والی اکثریت کے کاپی رائیٹس کا فیصلہ کرنے والی مقتدر اتھارٹی بھی بننا ہو گا۔ یہ دینی سے زیادہ انتظامی مجبوری ہے۔ اگر یہ اختیار ریاست سے لے لیا گیا تو فرد اس اختیار کا ایسا استعمال کرے گا کہ ہم پھر ریاست کو دعوت مداخلت دیں گے۔ سو ہماری مقننہ کو ہی یہ اختیار ہونا چاہیے۔ مگر پھر اسی مقننہ کے پاس کیے باقی قانون بھی مانیے۔ میٹھا ہپ اور کڑوا تھو نہ کیجیے۔احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینا ایک اسلامی ریاست کا انتظامی فیصلہ ہے جو ہم سب مانتے ہیں گو اسلام واضح طور پر کہتا ہے کہ جو خود کو مسلمان کہے اسے مسلمان مانو۔ لیکن قانون جو بھی ہے ماننا تو ہو گا۔ اسی طور باقی معاملات، جیسے تعداد ازدواج، طلاق ثلاثہ، جہیز، شادی کی کم سے کم عمر پر بھی یہی اصول لاگو ہو گا۔

صاحبو آخری عرض کہ اس مسلئے پر اتنے ڈیفینسو اور اگریسسو مت ہو جایا کیجیے۔ درگزر سے کام لیجیے ، محبت سے کام لیجئے۔  مرزا ساب کو پڑھی لکھی مسلمان کلاس نے خوش آمدید کہا جو نئے حالات میں مذہب اور اسکے روایتی پن پر یا تو شرمندہ تھی یا کنفیوز یا پھر حق کی متلاشی تھی۔ شاید ہمیں انکے اخلاص پر شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اسی طور مرزا ساب سے جڑے جیسے کوئی احمد رضا بریلوی ساب یا قاسم نانوتوی ساب یا اپنے کسی پیر ساب سے جڑا۔ انیس سو دو کے دعوی نبوت کے بعد کئی پلٹ گئے کئی نا پلٹے۔ اپ انکے فہم اور تشریح کو غلط کہہ سکتے ہیں مگر نیت کو شاید نہیں۔ پھر وقت گزارا، اور جیسا ہوتا ہے کہ یہ جماعت مضبوط ہوئی شدید معاندانہ روئیے کی وجہ سے اسکے اتحاد اور خوف نے رفتہ رفتہ اسے اک کلٹ بنا دیا۔ اپ کی نفرت نے کیا اس جماعت کو کمزور کیا؟ لگتا تو نہیں۔ الٹا اک تحصیل کا مسلئہ عالمی مسلئہ بن گیا ہے۔ جہاں تک نئی احمدی نسل کا تعلق ہے وہ ایسے ہی احمدی ہیں جیسے میں اور اپ شیعہ یا سنی یا وہابی، کیونکہ ہمارے ماں باپ اور انکے ماں باپ تھے۔ اب اگر ڈنڈے کے زور پہ شیعہ سنی نہیں ہوتا  یا اسکا الٹ تو پھر احمدی بھی اپ جیسا مسلمان نہیں ہوتا۔ اپ کا مقصد اگر تبلیغ اسلام اور عشق احمد مجتبی ص تھا، تو اپ نے نفرت کے اندھیروں میں اسے کھو دیا۔اپ کا ان کا اللہ ایک، قرآن و نماز و دیگر عبادات ایک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آل وسلم کی نبوت ایک، فرق تو یہ کہ کیا کوئی بعد والا اس میں شریک ہو سکتا ہے؟ بس اس ایک نکتے پر دعوت دینی ہے، بات کرنی ہے ، مکالمہ کرنا ہے اور جو اللہ کرم کرے تو اپ کا احمدی پاکستانی بھائی اپ کا مسلمان بھائی بھی بن جائے گا۔ مگر اپ تو شروع ہی گالی دے کر، تحقیر کر کے، نفرت دکھا کر کرتے ہیں، بھلا یوں بھی کوئی بچھڑوں کو بلاتا ہے؟  اپ محمدی دعوت کے رستے پر محمدی اخلاق لئیے بنا چلے اور منزل سراب بن گئی۔

صاحبو، پاکستان میں احمدی مسلئہ اگلے سو سال تک کیلیے حل ہو چکا اور یہی حل پاکستان کیلئیے، ہمارے لئیے اور خود احمدیوں کیلئیے مناسب ہے۔  سو سال بعد جب نفرتیں کم ہوں گی، شاید علم اور دلیل کا چلن ہو گا تو راہ نکلے۔ اگر شدت کے بجائے دعوت کو اپنایا گیا، احمدی دوستوں کی نئی نسل نے بھی غوروفکر شروع کیا اور جانبین دائروں سے نکل کر سوچنے پر آمادہ ہوے تو میرا گمان ہے کہ دونوں طرف کچھ چیزیں بدلیں گی اور نئے عقائد کی بنا پر احمدی ، جو ابھی غیر احمدی کو مسلمان نہیں سمجھتے، اپنا موقف ری کنسڈر کریں گے اور سرکاری مسلمان بھی سرکاری کافروں کو اسماعیلی یا بوہرہ فرقہ کی حیثیت دینے پر راضی ہو جائیں گے۔ (ویسے حیرت ہے  کہ اپنے عقائد کے باوجود وہ اپ سے بچے ہوے ہیں) اور شاید یہی امت کیلئے بہترین حل ہو گا۔ مگر تب تک خدارا، نفرت و شدت کو لگام دیجیے۔ آپکی مناظرہ آرائیوں، حملوں، نفرت اور پابندیوں نے احمدی حضرات کو نفسیاتی طور پر شدید خوف میں مبتلا کیا اور وہ نہ صرف اپنے موقف پر ڈٹ گئے بلکہ مزید پکے ہو گئے۔ کسی ملحد کو موحد کرنا تو شاید آسان ہو مگر احمدی کو محمدی کرنا نہیں۔ خوف میں جیتی اقلیت ہمیشہ عقیدے میں پناہ دھونڈتی ہے اور اس پر مزید پکی ہو جاتی ہے۔ پھر اپ نے تو احمدیت کو اپنی ایسی چھیڑ بنا لیا کہ لگتا ہے اپ خود بھی خوفزدہ ہیں۔ احمدیوں کو بھلے کافر مانیں اور مسلمانوں کے حقوق نہ دیجیے، مگر انسان مان کر انسانی حقوق تو دیجیے۔ پاکستانی بھائی تو مانئیے۔ اللہ آپکو دین و دنیا کی خوشیاں عطا فرمائیں۔ آمین

Advertisements
julia rana solicitors

انعام رانا

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”احمدی، فرد، ریاست اور اختیار کفر۔۔۔ انعام رانا

  1. اللئ کے نبی ص کا ارشاد ایک جماعت سچی اور باقی غلط راستے پر ہوں گے.پاکستانی حکومت یہ فیصلہ بھی کر دے کہ وہ ایک جماعت کونسی ہے اجماعی طور پر تا کہ تمام لوگ اس میں شامل ہو جائیں اور فلاح پائیں.
    فیصلے کا انتظار رہے گا

  2. جس دن تم لوگوں میں اتنی برداشت آ گئی کہ جو شخص تمہاری xyz کمپنی فرم ٹریڈ مارک کا نام استعمال کرے تم اس کے ساتھ کھانا پینا ایک ساتھ رہنا شروع کر دو اس دن یہ بھاشن مسلمانوں کو دیں کہ وہ ان زندیقوں کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ کریں
    مسلمان صحابہ کی پیروی کریں جنہوں نے مسیلمہ اور اس کے لشکر جو چالیس ہزار پر مشتمل تھا اسود عنسی وغیرہ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ قابل تقلید ہے یا یہ یک جہتی کونسل جو آپ لوگ تجویز کرتے ہو
    کیا آپ اپنے ذاتی مخالفوں سے بھی یہی حسن سلوک روا رلھتے ہو یا یہ صرف تخریب اسلام کے وقت یاد آتا ہے ایاھم و ایاکم لا یفتنو نکم لا یضلونکم خوارج اور بد مذہبو ں کے لیے کے لیے حکم نبوی تھا تو ختم نبوت کے منکر اور ہر نبی و رسول صحابی اہل بیت کے گستاخ اور ان کو گالیاں دینے والے مرزا کذاب اور اس کے پیروکاروں سے اتنی ہمدردی کیوں احمدی صرف مسلمان ہیں اور جو شخص ان قادیانیوں کو احمدی لکھتا ہے وہ ان کا در پردہ سہولت کار ہے چاہے زہر کو جتنا ملفوف کر کے آے ھم انداز قدرت را شناسم
    یہ دو نمبری نہیں چلے گی
    کیا انہیں اس تدبر حکمت اور فراست کا علم نہیں تھا
    اور 24 ہزار مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں کو تہ تیغ کرنا آپ کی سو کالڈ تہذیب سے کتنی بڑی لا علمی تھی

  3. مسیح موعود اور امام مہدی کی پیش خبری بھی تو رسول کریم صلعم نے دی ہے۔اور آپ اس کو قبول کرنے یاماننے سے فخریہ انکار کر رہے ہیں۔مرزاصاحب کو تو ایک طرف کردیں، پیغمبر اسلام کی ان پیشگوئیوں کو ٹھکرا کرآپ کونسی جنت کمارہے ہیں۔

Leave a Reply