احتیاط اور توکل کو سمجھیے۔۔ڈاکٹر سیّد عزیز الرحمٰن

موجودہ صورت حال میں احتیاط اور توکل کی بحث ایک بار پھر چِھڑ گئی ہے۔طرح طرح کی بولیاں اور طرح طرح کے احکامات سامنے آرہے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سیرت ِ طیبہ سے اس حوالے سے ہمیں کیا راہنمائی میسر آتی ہے۔

اس موقع پر یہ بحث بھی سامنے آرہی ہے کہ فلاں فلاں عمل سنت ہے اور کسی بھی موہوم خطرے کی بنیاد پر سنت نبوی کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ایک مغالطہ ہے،وہ یہ کہ یہاں سنت ترک کرنے کی تعلیم نہیں دی جارہی، بلکہ ایک سنت سے دوسری سنت کی طرف منتقل ہونے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ایک سنت عام حالات کی ہے ،اور ایک سنت خاص حالات کی۔ یہ معاملہ محض بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے ہی نہیں ہے، دوسرے معاملات میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں طرح کی ہدایات منقول ہیں۔مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اور آپ کی ہدایت یہی ہے کہ استنجے وغیرہ کی ضرورت بیٹھ کر پوری کی جائے گی۔ لیکن ضرورت کے تحت آپ ہی سے کھڑے ہوکر بھی قضائے حاجت ثابت ہے۔ لیکن وہ عام سنت نہیں ہے بلکہ خاص ضرورت کے وقت کی سنت ہے۔

یہی معاملہ اس صورت میں بھی ہے۔ چنانچہ مصافحہ سنت ہے، مگر مخصوص حالات میں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی(جذام کا مریض) دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا ًبیعت کی، نہ مصافحہ کیا۔ اصل الفاظ ملاحظہ فرمایئے:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الشَّرِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ فِي وَفْدِ ثَقِيفٍ رَجُلٌ مَجْذُومٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ فَارْجِعْ»
مسلم، 5822
جہاں تک اس روایت کا معاملہ ہے کہ کسی بھی قسم کی بیماری متعدی نہیں ہوتی وہ روایت بھی ملاحظہ کیجیے، عام طور پر یہ روایت بھی پوری بیان نہیں کی جا رہی۔
وَقَالَ عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ ، وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ
بخاری، 5707
اس روایت کے آخری جملے کا مفہوم یہ ہےکہ جذام سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہیں۔

اس موقع پر وہ روایت بھی سامنے رہنی چاہیے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کا صحیح مفہوم بیان کیا ہے ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ أَعْقِلُهَا وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ قَالَ:‏‏‏‏
اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ،‏‏‏‏ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ترمذی ، 2517

اس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اونٹ کو باندھنے کے بعد اللہ پر بھروسہ کروں یا اس کو کھلا چھوڑ کر بھروسہ کروں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو پہلے باندھو پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان روایات میں توکل اور بھروسے کے ساتھ ساتھ احتیاط اور سنت کی مختلف صورتیں بھی بیان کردی گئی ہیں ۔خدا کے لیے دین کو درست مآخذ سے درست طور پر سمجھنے کی کوشش کیجیے، گلی کوچے میں ہر شخص کو یہ حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ قرآن اور سنت کے ایک ٹکڑے کو یا ایک جملے کو لے  کر پوری عمارت دین اس پر قائم کرے اور لوگوں کو گمراہ کرے۔
اللہ تعالی ہمیں ہدایت عطا فرمائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply