• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزادی، بزرگی ، تجربے کی تنہائی کا بوجھ/ناصر عباس نیّر

آزادی، بزرگی ، تجربے کی تنہائی کا بوجھ/ناصر عباس نیّر

ایرخ فرام نے کوئی اسی برس پہلے لکھا تھا کہ لوگ اپنی ہی آزادی سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ وہ آزادی کی آرزو میں مرے جارہے ہوتے ہیں۔پھر آزادی کے لیے لڑتے ہیں۔ بالآخرآزادی حاصل بھی کر لیتے ہیں، مگر پھر کیا ہوتا ہے ؟

وہ اسی آزادی سے خوف کھاتے ہیں اور اسی سے دور بھاگتے ہیں۔کیوں ؟ ا س لیے کہ آزادی کا ایک اپنا بوجھ ہے۔ آزادی سے پہلے ، آ پ دوسرے کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ’دوسرے ‘ آ پ کی تقدیر کے مالک ہوتے ہیں۔
آزادی ،آپ حاصل ہی اس لیے کرتے ہیں کہ اپنی تقدیر خود ، اپنے ہی قلم سے لکھ سکیں۔

آپ کے ہاتھ میں قلم آبھی جاتا ہے ،مگر اپنی تقدیر کا پہلا لفظ خود لکھنے سے ، آ پ پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے ۔ اپنے لیے کوئی فیصلہ کرنے، اپنے ہی بل پر کوئی قدم اٹھانے کے خیال ہی سے آ پ کو پسینے آنے لگتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ فیصلے مشکل ہوتے ہیں ، بلکہ اس لیے کہ ان فیصلوں کی جملہ ذمہ داریاں بھی آ پ ہی کو اٹھانا ہوتی ہیں۔ آزادی کا خوف ،دراصل خود فیصلہ کرنے اور اس کے نتائج قبول کرنے کا خوف ہے۔

جس طرح اپنی آزادی کا خوف ….اور بوجھ ہے، اسی طرح اپنی عظمت و بزرگی کا بھی ایک ڈر اور ایک بار گراں ہوتا ہے۔
بزرگی وعظمت کی آرزوتو بہت سے دلوں میں ہوتی ہے، مگر ہر ایک کی بساط ہوتی ہے نہ توفیق کہ اسے سہا ر سکے۔ چناں چہ کئی لوگ اس عظمت کا ایک نقاب سا اوڑھ لیتے ہیں۔ انھیں نقاب منتخب کرنے، یا بنانے اور عمدگی سے پہننے میں مہارت ہوتی ہے، اس لیے وہ دنیا کو یقین دلانے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ واقعی ایک برگزیدہ ،جملہ افضل و اعلیٰ انسانی صفات کی حامل شخصیت ہیں۔اوران کی زبان سے نکلا ہر لفظ صداقت کا حامل اورا ن کا ہر عمل اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں کا پاسدار ہے۔ان کی زبان سےنکلاہرکلمہ،کلمہ مستندہے۔وہ ا ن سب بشری کمزوریوں سےمبراہیں،جن کی دلدل میں ان کےارادت مندگھرےہیں۔

ا س یقین پر ارادت مندوں کے گروہ کے گروہ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں ۔ مگر ان کے دل کا حال خدا جانتا ہے یا کچھ وہ لوگ جنھیں ان کی خلوت میسر ہوتی ہے۔ وہی جانتے ہیں کہ ان ’’بزرگ شخصیتوں ‘‘کا دل اوران کی روح ، اس عظمت وبزرگی کا بوجھ اٹھانے سے اپنی معذوری ظاہر کرچکے ہوتے ہیں۔

وہ اپنی کمزور،خوفزدہ ، پژمردہ روح کی تسکین کے دوسرے ذرائع تلاش کرتی ہے۔ دنیوی مرتبے، ناموری ، دولت، جائیداد، جنسی لذت وغیرہ۔ مگر ان سب کے لیے بھی کئی عمدہ ،نفیس اورنہایت مہین نقاب ہوتے ہیں۔ ارادت مند پہچان ہی نہیں سکتے۔ یہ بزرگ سب شعبہ ہاے زندگی میں موجود ہوا کرتے ہیں۔

اسی طرح آدمی کے تجربے کا بھی ایک بوجھ ہوتا ہے۔ جس طرح آزادی اور بزرگی کی خواہش کی جاتی ہے، اسی طرح نئے نئے تجربات کی بھی آرزو کی جاتی ہے۔ مگر جس طرح لوگوں کے کندھے آزادی اور بزرگی کے بوجھ سے عاجز ہوتے ہیں، اسی طرح خود اپنے ہی تجربات کے بوجھ سے ۔

وہ نئے تجربوں کی آرزو تو کرتے ہی ہیں، زمانہ بھی انھیں نئے نئے تجربے کرواتا ہے۔ بوجھ،ان دونوں تجربوں کا ہوتا ہے۔ تجربے کا بوجھ کیا ہے؟تجربے کو الف تا ی پوری طرح ، ہر طرف،ہر جہت سے محسوس کرنا ، اس کے کسی بھی رخ سے روگردانی نہ کرنا، اس کی جملہ تمازت ، شدت ، یہاں تک کہ کراہت کو بھی دیانت داری سے محسوس کرنا اور اسے علم کا سرچشمہ بنانا۔

لوگوں کے لیے کتاب ، کسی مقتدر شخصیت ، کسی معروف قول ، رائج حکایتوں کو علم کا سرچشمہ بنانے میں آسانی ہے کہ وہ خود سوچنے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں۔ وہ سفر کیے بغیر منزل پر پہنچنے کا اطمینان محسوس کرسکتے ہیں۔درخت اگانے اور اس کی دیکھ ریکھ و تراش خراش کی زحمت اٹھائے بغیر، پھل کھاسکتے ہیں۔ آدمی کے لیے وہ سب’’ دوسرے ‘‘جو شہرت، قدامت ،روایت، طاقت کے حامل ہوتے ہیں، ان پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنا آسان ہوتا ہے۔ اپنے سلسلے میں آدمی شک میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں کی ذمہ داری بنانے میں راحت محسوس کرتا ہے۔

آزادی، بزرگی اور تجربے کا بوجھ،دراصل اپنی تنہائی کا بوجھ ہے۔ ایسی تنہائی جو ہر طرح کی بیرونی و ماورائی مدد کے یقین سے خالی ہو اور آدمی کو اپنے وجود کے سب اسرار کا سامنا ہی اکیلے نہ کرنا پڑے ، بلکہ خود سے متعلق ہر سوال کا جواب ،خود اپنے بشری ذرائع سے تلاش کرنا ہو۔ لوگ تنہائی کا واویلا بہتت کرتے ہیں، تنہا ہوتے نہیں ہیں۔ وہ تنہا ہونے کی دہشت سے سہمے ہوتے ہیں۔ وہ اس دہشت سے بچنے کے لیے ’دوسروں ‘ پر انحصار کرتے ہیں۔ انھیں اپنے کہے، لکھے، کیے کی حیثیت، معنویت اوراہمیت کا خود ہی کم یقین ہوتا ہے۔

آزادی کی تنہائی کے بوجھ سے بچنے کے لیے بہ قول ایرخ فرام لوگ اذیت رساں(sadist) اور اذیت کو ش(masochist) بنتے ہیں۔ دونوں ’دوسرے ‘ پر انحصار کرتے ہیں۔ایک،کسی دوسرے شخص کو مسلسل اذیت پہنچاتا ہے، ایک خود ہی پر ہر قسم کا تیر ستم آزماتا رہتا ہے ۔ کچھ کے یہاں اس درجہ اپنی تنہائی کا خوف طاری ہوتا ہے کہ وہ تخریب پر اتر آتے ہیں۔ وہ جنگیں کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں،یا پھر دوسروں کی دن رات کردار کشی کرتے ہیں۔ ’دوسروں ‘ یا خود کو مسلسل اذیت پہنچانے والے، سب سے زیادہ خود ہی سے دہشت زدہ ہوتے ہیں۔

اپنی بزرگی کی تنہائی کا بوجھ،بلند ترین چوٹی پر اکیلے کھڑے ہونے کے خوف کا پیداکردہ ہے۔ اس بوجھ سے بچنے کے لیے، اپنے ارادت مندوں کے گروہ میں ہر وقت رہا جاتا ہے اور اپنے لیے احترام وعقیدت کے بلاتعطل اظہار کو پسند کیا جاتا ہے۔

اپنے تجربے کی تنہائی کے بوجھ سے گریز کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔ لوگ دن رات تفریحی ولذت انگیز سرگرمیوں میں محو رہتے ہیں۔ وہ دوسروں کی بنائی ہوئی دنیا میں مگن ہوتے ہیں کہ اپنی تنہائی کے سامنے کا وقت ہی نہ ملے۔ دوسروں کی بنائی ہوئی دنیا میں سوشل میڈیا، کھیلیں، ڈرامے، کتابیں، گیت، فلم ،تھیئٹر کچھ بھی شامل ہوسکتا ہے۔

اس دنیا میں سب کچھ برا نہیں۔ اگر کوئی برائی ہے تو ان کی طرف وہ التفات ہے جو اپنے تجربے سے گریز کے سبب کیا جائے، یعنی اگر آ پ کتاب اس لیے پڑھیں کہ آ پ اپنے تجربے میں مضمر سوال کا سامنا کرنے سے بچ سکیں تو پھر آپ خود سے گریز کررہے ہیں اور کتاب میں محض پنا ہ لے رہے ہیں، خود کو ایک مصنف کی ذمہ داری میں سونپ رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آ پ کتاب اور اپنے حقیقی تجربات میں ایک مسلسل گفت وشیند شروع نہیں کرسکتے ، دونوں کو ایسےآئنے نہیں بناتے جو ایک دوسرے کے مقابل آکر عکسوں کا لامتناہی سلسلہ خلق کرتے ہیں تو کتاب بینی بھی ، اپنی تنہائی کے بوجھ سے گریز کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply