آئین پاکستان کٹہرے میں/پروفیسر رفعت مظہر

ذوالفقارعلی بھٹو کو آئینِ پاکستان دینے اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے پر تاریخِ پاکستان میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن اُسی بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکایا گیا۔ یہ ”کارنامہ“ اُس وقت کی عدلیہ نے ضیا الحق کے حکم پر سرانجام دیا اور آئین بے بسی سے مُنہ دیکھتا رہ گیا۔ وہ ضیا الحق جو آئینِ پاکستان کو سوصفحے کی فضول سی کتاب کہتا تھا، عدلیہ اُس کے حکم پر ڈھیر ہوئی اورایک منتخب وزیرِاعظم عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے بنچ کے ایک رُکن جسٹس نسیم الحسن نے بَرملا اقرار کیا کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینا غلط تھا۔ 2008ءکے عام انتخابات کے بعدجب پیپلزپارٹی برسرِاقتدار آئی تو اُس نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ وہ درخواست 12 سال گزرنے کے بعد آج بھی شنوائی کے لیے ترس رہی ہے حالانکہ اب تو ایک سیاسی جماعت کے حق میں جھٹ پَٹ فیصلے بھی ہوتے ہیں (محترم جسٹس اطہرمِن اللہ نے بھی اپنے اختلافی نوٹ میں اِس کیس کی شنوائی نہ ہونے کا ذکر کیا ہے)۔

آئین سے سنگین غداری کے مرتکب آمر پرویز مشرف کو اِسی عدلیہ نے نا  صرف 3 سال تک کے لیے حقِ حکمرانی عطا کیا بلکہ آئین میں ترمیم کا حق بھی دے ڈالا۔ طُرفہ تماشا یہ کہ جوشخص سزائے موت کا سزاوار تھا، بلاشرکتِ غیرے حکمران ٹھہرا اور منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو اپنے خاندان سمیت جَلاوطنی کا دُکھ جھیلنا پڑا۔ جب میاں نوازشریف تیسری مرتبہ واضح اکثریت کے ساتھ وزیرِاعظم منتخب ہوئے تب پرویزمشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقارسیٹھ کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل خصوصی بنچ تشکیل دیا گیا۔یہ مقدمہ 6 سال تک چلتا رہااور بالآخر 17 دسمبر 2019ءکو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنایا لیکن 13 جنوری 2020ءکو جسٹس مظاہرعلی نقوی کی سربراہی میں قائم لاہور ہائیکورٹ کے بنچ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو ہی کالعدم قرار دے دیا۔ یہ وہ دَور تھا جب لاڈلا اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر اقتدارکے جھولے جھول رہا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے سابق چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف کو بہرحال بچانا تھا، سو بچالیا۔ یہ کارنامہ بھی آئین کے محافظوں کے ذریعے ہی سرانجام دیا گیا۔

اِس امر کے شواہد موجود ہیں کہ سپریم کورٹ نے اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر پاناما سے اقامہ نکال کر 3بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف سے اقتدار چھینا۔ آئین کے محافظوں کا یہ کارنامہ تاریخِ عدل کا سیاہ ترین باب ہے۔ یہ کارنامہ 27 جولائی 2017ءکو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 5 رُکنی بنچ نے سرانجام دیا۔ جسٹس شیخ عظمت اِسی بنچ کے رُکن تھے جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد شوکت خانم کینسر ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے رُکن منتخب ہوئے۔ اِس بنچ نے میاں نوازشریف کی نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا تھا۔ یہ فیصلہ اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم 5 رُکنی بنچ نے کیا۔ اِس بنچ میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔ اِس بنچ نے آرٹیکل 62-1F کے تحت میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیا۔ یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس محترم عمرعطا بندیال نے تحریر کیا۔ یہ وہی معزز عمرعطا بندیال ہیں جنہوں نے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کیس میں ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی کالا قانون ہے اور پھرفیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی 5 سال تک محدود کر دی گئی۔ ایسے فیصلوں کو اگر ”آئین سے کھلواڑ“ کہا جائے تو توہینِ عدالت کا خطرہ ہے اِس لیے اِنہیں عدلیہ کی ”کرشمہ سازیاں“ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسی کرشمہ سازیاں جن میں عدلیہ کبھی لاڈلے کو فائدہ پہنچانے کے لیے آرٹیکل 63-A کی تشریح کرتے ہوئے آئین ہی RE-WRITE کر دیتی ہے اور کبھی 9 رُکنی بنچ کو 5 رُکنی بنچ میں بدل کر فیصلہ سنانے کا کارنامہ سرانجام دیتی ہے۔ تحقیق کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں آج بھی ایسے جسٹس صاحبان کی کثیر تعداد موجود ہے جو کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت ڈنڈی مارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی لیکن سبھی سیاسی فیصلے تو ہم خیال ججز ہی کرتے ہیں۔ یہ بنچ چونکہ معزز چیف جسٹس عمرعطا بندیال تشکیل دیتے ہیں اِسی لیے ایسے یک طرفہ فیصلوں کی زَد میں وہ خود بھی آجاتے ہیں۔

تازہ ترین ہنگامہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی ازخود نوٹس کی تاریخ کا بپا ہے۔ محترم چیف جسٹس نے 22 فروری کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کی تاریخ نہ دینے پر ازخودنوٹس لیتے ہوئے 9 رُکنی بنچ تشکیل دیا۔ عدالتی کارروائی کے پہلے ہی دن بنچ کے 2 معزز ارکان جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کی بنچ میں موجودگی پر شدید اعتراضات اُٹھائے گئے۔ دوسرے دن اِن دونوں ہم خیال ججزکے علاوہ حیرت انگیز طور پر بنچ کی تشکیل پر معترض جسٹس اطہرمَن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی بنچ سے فارغ کرکے نیا 5 رُکنی بنچ تشکیل دے دیاگیا۔ اِس بنچ کا فیصلہ 3 ارکان کی اکثریت سے ازخود نوٹس کے حق میں آیا جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال خاں مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھے۔ اُسی دن مختلف حلقوں کی جانب سے یہ شور اُٹھا کہ اَزخود نوٹس 4/3 سے مسترد ہوا ہے کیونکہ جسٹس اطہرمَن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پہلے ہی اَزخود نوٹس کی مخالفت کر چکے ہیں جبکہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال خاں مندوخیل نے اب مخالفت کر دی ہے۔

اِسی فیصلے کے مطابق صدرِپاکستان نے انتخابات کے لیے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کی جس پر الیکشن کمیشن کی طرف سے عمل درآمد بھی شروع ہوگیا۔ بعدازاں ملکی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمشن نے 30 اپریل کے بجائے یہ تاریخ 8 اکتوبر کر دی۔ اِس تاریخ کے خلاف تحریکِ انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی جس پر چیف جسٹس صاحب نے جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خاںاور جسٹس جمال خاں مندوخیل پر مشتمل اپنی سربراہی میں5 رُکنی بنچ تشکیل دیا۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل مختلف اعتراضات اُٹھاتے ہوئے اِس بنچ سے الگ ہوگئے۔ 3 رُکنی بنچ نے پنجاب میںنہ صرف انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا بلکہ مکمل انتخابی شیڈول بھی دے دیا حالانکہ خودمختار ادارے کی حیثیت سے یہ الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار ہے۔ مرکزی کابینہ نے اِس 3 رُکنی بنچ کے فیصلے کو مسترد کر دیا جبکہ پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے وزیرِاعظم اور اُن کی کابینہ کو فیصلے پر عمل درآمد روکنے کا حکم دے دیا۔ پارلیمنٹ چونکہ تمام اداروں کی ”ماں“ ہے اور اُس کا ہر حکم سپریم ہے اِس لیے مرکزی حکومت تو فیصلے پر عمل درآمدکرنے سے معذورجبکہ چیف جسٹس صاحب آج بھی اپنے فیصلے پر ڈَٹ کر کھڑے ہیں۔ اُدھر 7 اپریل کو اَزخود نوٹس کے خلاف 9 رکنی بنچ سے علیحدہ کیے جانے والے جسٹس اطہرمِن اللہ کا 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ سامنے آگیا ہے جس میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ ازخودنوٹس چار، تین کی اکثریت سے مسترد ہو گیا ہے۔ اِس حوالے سے اب نہ تو 30 اپریل کی صدارتی تاریخ آرڈر آف دی کورٹ ہے اور نہ ہی 3 رکنی بنچ کی 14 مئی کی تاریخ۔ گویا 9 رکنی بنچ سے شروع ہو کر 3 رکنی بنچ تک پہنچنے والی یہ ساری پریکٹس ہی ختم۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حرفِ آخر یہ کہ قومی سلامتی کمیٹی کے 7 اپریل کے اعلامیے میں ملک کے اندر نفرت اور تقسیم کی کوششوں کی مذمت کر دی گئی ہے۔ اسی اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشے پر مبنی پالیسی عوامی توقعات اور خواہشات کے بالکل منافی ہے۔ اعلامیے کے مطابق ”دہشت گردوں کو بلارکاوٹ واپس آنے کی اجازت دینے اور اعتمادسازی کے نام پر دہشت گردوں کو جیلوں سے رہا کرنے کی وجہ سے امن واستحکام منتشر ہوا“۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہ سب کیا دھرا عمران خاں کا ہے جس سے ملک میں ایک دفعہ پھر دہشت گردی جڑ پکڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدم استحکام اور انتشار کی تگ ودَو کرنے والا اب بھی ”لاڈلا“ ہی رہے گا؟۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply