سانحہ موٹروے۔۔۔۔ ثاقب ملک

ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں نہیں، ارض و سما کے مالک کو فقط ایک، فقط ایک فسوں خیز سپہ سالار کی تلاش ہوتی ہے. جو وقت آنے پر مارون گولڈ کی ڈبی سلگا سکے. الحذر الحذر یہ وقت آن پہنچا کہ بھاڑے کے ٹٹو اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے والے ژولیدہ فکر اپنی ہی سپاہ پر پل پڑے.

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی

بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہوے

آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے. کب ہماری خوابیدہ قوم جاگے گی؟ بیچ چوراہے جو لمبی تان کر سوئی پڑی ہے. اگر فسوں خیز اور صابر، کیانی پر دشنام طرازی جاری رکھی گئی تو تاریخ کا کوڑا دان منتظر ہے. ایسے اجلے آدمی کی سپاہ پر موٹروے پولیس کے سیاہ کار اہلکاروں کو ترجیح دی گئی؟ وہ اہلکار جس نے صابر کیانی پر کیچڑ اچھالا؟ اگر جواں سال کپتان نے ایک ہاتھ جڑ دیا تو اس پر ایسا واویلا کیوں؟ کس نے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کیا؟ انکل سام کے حواری جو بلوچستان میں رینجرز کی کامیابیوں کی زک اٹھانے پر برافروختہ ہیں؟. بھارت نواز اور حکومت نواز ایک میڈیا گروپ؟ چڑیا رکھنے والا صحافی جو آنکھیں سکوڑ کر فوج کے خلاف زہر اگلتا ہے؟ جس کے نیو یارک میں دس کروڑ روپے محفوظ ہیں؟ چڑچڑی بڑھیا جسے فوج کے نام سے ہی نفرت ہے. جو اپنے سر میں جوئیں پیدا ہونے کی ذمہ داری بھی آئی ایس آئی اور فوج پر تھوپتی یے؟ ہے کوئی جو اس ملک کو سنبھالے؟. ہم نے اس ملک کو زرداریوں، نواز شریفوں، اسفندیار ولیوں اور مولانا پر چھوڑ رکھا ہے. پھر بہتری کی توقع کیسے؟ مایوسی مگر ندارد، کیونکہ اللہ کی رحمت سے مسلمان مایوس نہیں ہوتا جلد ہی یہ ملک نوچنے والے اپنے انجام کو جا پہنچیں گے.

برقی پیغام ملا کہ فوج پر حملہ اپنی ہی عوام نے کر دیا. یہ حکمت یار تھا. وہ جہاں دیدہ لیڈر جس نے ریگن کی دیسی مرغی کی دعوت ٹھکرا دی اور ہاتھوں سے یخنی پینے پر اکتفا کیا. ایسے ایسے اجلے لوگ کہ دل ماشاد. مگر ارض پاک کے حکمران کہ ملک کو ہندوستان کا باجگزار بنانا چاہتے ہیں. کہاں ہیں نواز شریف؟ کہاں ہیں پرویز رشید؟  وہ آدمی جو مٹک مٹک کر ایثار کیش اور نیک طینیت کپتان کو گالی دیتا ہے. وہ کپتان جس نے 92 کا ورلڈ کپ، شوکت خانم اور نمل کالج اس ملک کو دیا. جس کے لانبے چہرے پر کسرت کرنے کے بعد پسینے کے قطرے چمکنے لگتے ہیں. ہاں سیاسی حرکیات سے نا آشنا ہے. مہمانوں کی تواضع سے بے پروا خان، مہمانوں کے سامنے ہی شیرو سے کشتی کھیلتا رہتا ہے. اک دن مجھے بھی کہا. خاکی نے انکار کیا کہ کتوں کے منہ نہیں لگتا. کپتان کے چہرے پر بچوں سی معصومیت در آئی تھی مگر میرے انکار پر مایوس.. میں نے ایک ثانیہ سوچا پھر ہم دونوں فرش پر اور شیرو ہمارے اوپر تھا. روح سرشار ہوگئی. ایسے اجلے آدمی پر زہر میں بجھے الزامات؟ حیف ہے. آدمی مگر پیچیدہ جبلتوں کے تعامل کا شاہکار ہے. ماتھے پر ہاتھ دھرا اور عارف عصر کے نیم تاریک کمرے جا پہنچا. وہی پلنگ جہاں کیپسٹین کے اسگریٹ جا بجا موجود.. پوچھا، آخر کب تک یہ ملک یونہی بغیر مارشل لاء کے رہے گا؟ عارف نے تسبیح کے دانوں سے سر اٹھایا اور بولے جب تک ڈی ایچ اے میں صابر سپہ سالار کو دوسرا پلاٹ نہیں مل جاتا.

چمکتی صبح تھی، برخوردار پتلون میں ناڑا ڈال رہا تھا کہ پیام بر نے سپہ سالار کا الفت نامہ پہنچایا. فورا سے پیشتر چلے آئیے کہ قومی سلامتی کے ایشوز پر تبادلہ خیال کرنا ہے. بھاگم بھاگ گھوڑے کو ایڑ لگائی اور فوجی مستقر جا پہنچا. کمرے میں اسگریٹ کا دھواں ختم ہونے کو تھا. ژولیدہ فکری پر افسوس ہوا کہ سامنے خالی مارون گولڈ کی ڈبی منہ چڑا رہی تھی. خاموش اور صابر سپہ سالار نے ایک نگاہ اٹھائی، ایک شکایتی نظر کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس ملک کو میں نے اپنے خون سے سینچا اور آپ ایک مارون گولڈ کی ڈبی بھی نہ لا سکے؟ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے. یالعجب یالعجب ایسی بواللعجمی؟

ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں نہیں، ارض و سما کے مالک کو فقط ایک فسوں خیز سپہ سالار کی تلاش ہوتی ہے. جو وقت آنے پر مارون گولڈ کی ڈبی سلگا سکے. الحذر الحذر یہ وقت آن پہنچا کہ بھاڑے کے ٹٹو اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا کرنے والے ژولیدہ فکر اپنی ہی سپاہ پر پل پڑے.

Advertisements
julia rana solicitors london

(ثاقب ملک معروف بلاگر اور “آرچر آئی” کے مدیر ہیں۔ ثاقب ملک ہنستے ہنستے کام کی بات سنانے کے ماہر ہیں۔ “مکالمہ” اس خوبصورت پیروڈی کیلیے ثاقب کا ممنون ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply