Rauf Ul Hassan
I do not consider myself a writer. Instead, I am a player. As one of my friend s said: "You play with words. "
He was right. I play, and play it beautifully.
زندگی منظروں پر مشتمل ہے۔ ہر منظر ایک نئے منظر کو جنم دیتا ہے۔ ایک منظر سے آنکھیں بھر نہیں پاتیں تو دوسرا منظر اپنے جلوؤں کے ساتھ چشم ِ بے تاب کا منتظر ہوتا ہے۔ ایک منظر سے دوسرے← مزید پڑھیے
محبت کی کتاب میں سبھی باب تیرے نام کے تھے محبت کے عہد میں سبھی خواب تیرے نام کے تھے ہر اک حرف تیری آہٹ کا ترجماں شاید مضمون گویا تیری زلف پریشاں شاید الفاظ تیرے خیالوں میں گرداں شاید← مزید پڑھیے
خیال میں صورت ِیار بھی نہیں اور دل کو تیرا انتظار بھی نہیں اک میری نگاہ ہے نگاہِ اداس اک جلوؤں کا تیرے شمار بھی نہیں وہ چاہ ہی نہیں اور ہو بھی تو اب ترے چاہنے پہ مجھے اعتبار← مزید پڑھیے
شہر لاہور پر شام اتری تو تیری یادوں کا تحفہ ساتھ لے کر آئی۔ نومبر دسمبر کی سرد شامیں یوں بھی اداس ہوا کرتی ہیں۔ ایسی کئی شامیں میں نے تجھے سوچتے اور سورج کو ڈوبتے دیکھ کر گزاری ہیں۔← مزید پڑھیے
ایسا نہیں ہے کہ میری موٹر سائیکل بہت زیادہ پرانی ہے، لیکن کچھ زیادہ نئی بھی نہیں ہے۔ مجھے یہ موٹر سائیکل میرے والد صاحب نے عنایت کی، اور انہیں ان کے والد یعنی میرے دادا مرحوم نے۔ دادا جان← مزید پڑھیے
لاہور موٹروے واقعے نے دل کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ محض ایک زیادتی کا واقعہ نہیں بلکہ معاشرے میں پلنے والی اس بدبودار سوچ کی عکاسی ہے جس میں ہم صرف ایک موقع کی تلاش میں رہتے← مزید پڑھیے
شام کے سات بج چکے تھے. سفر شروع ہو چکا تھا. مسافر اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے. کوئی زیر لب سفر کی دعا پڑھ رہا تھا تو کوئی اپنے موبائل میں مصروف تھا. اگلی نشستوں پر بیٹھی← مزید پڑھیے
ایک کھڑکی ادھ کھلی سی اور سرد ہوا چلی سی اک خط ادھ لکھا سا اور سگریٹ ادھ جلی سی چاند مدھم مدھم سا جیسے پھول کی کلی سی دل تھا ڈوبتا سا اور آنکھ میں نمی سی کسی غم← مزید پڑھیے
ہم سب کہانیاں ہیں۔ کائنات میں پھیلی ہوئی لاتعداد کہانیاں۔ ان کہانیوں کے خالق نے اس بات کا خصوصی اہتمام کیا کہ کوئی کہانی دوسری کہانی سے مماثلت نہ رکھے۔ اسی لیے ہر کہانی کا آغاز جدا ہے, کردار الگ← مزید پڑھیے
ایک عرصے سے کچھ سوال ذہن میں تھے: (ا) انسانی عقل کی معراج کیا ہے؟ (ب) نظریہ سازی کے عمل میں عقل اور جذبات کا کیا مقام ہے؟ خود سے کیے گئے ان سوالات کے جواب میں ،مَیں نے جو← مزید پڑھیے
یونیورسٹی میں اکتوبر کے دوسرے ہفتے کی ایک خاموش شام اتر رہی تھی۔ سڑک کنارے بکھرے خشک پتے خزاں کی نوید سنا رہے تھے۔ اور ہم دونوں قدم سے قدم ملائے, خاموشی سے چلتے جا رہے تھے۔ یہ یونیورسٹی میں← مزید پڑھیے
آزادی کا اعلان ہو چکا تھا۔ ہندوستان سے مہاجرین قافلوں کی صورت میں مملکت خدادا پاکستان کو آباد کرنے پہنچ رہے تھے۔ فسادات کی آگ میں کسی قافلے کا خیر و عافیت کے ساتھ پہنچنا کسی معجزے سے کم نہ← مزید پڑھیے