سندھ اور برصغیر۔۔شہباز الرحمٰن خان

ایوب علی شعبہ اردو کراچی پریمئر کالج کے پروفیسر رہے ،کئی  کتابیں بھی لکھیں، جن میں سے ایک کتاب خاصی شہرت یافتہ ہے “اردو زبان شعرائے کرام” ادب سے لگاؤ کے باعث اس کتاب کی اشاعت پر نظر ڈالنے کا موقع ملا، چونکہ آج کل ایک موضوع زیرِ بحث ہے جس کی بنیاد قومی ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں خارجی اور داخلی انقلاب آتے رہے ہیں، چنانچہ جب کبھی کسی ملک میں کسی دوسری قوم کا اثر قائم ہوا، وہاں کی زبان متاثر ہوئی، زبان چونکہ مادی حیثیت نہیں رکھتی کہ اس کی ضرورت کے مطابق کسی بھی شکل میں فوری طور پر تبدیل کر لیا جائے بلکہ  اس کی تبدیلی صدیوں میں اپنا اثر دکھاتی ہے۔

ایوب صاحب کہتے ہیں ،برصغیر میں مختلف راستوں سے آریاؤں کی آمد کا سلسلہ ایک ہزار قبل مسیح تصور کیا جاتا ہے، اس سے پہلے ہندوستان کے شمالی علاقوں میں دراوڈی قوم کی تہذیب کا پرچم لہرایا کرتا تھا ،یہ لوگ ایک معاشرتی اور ثقافتی نظام سے وابستہ تھے، اس کے بر خلاف آریا نسل کے لوگ نسبتاً سرخ سفید اور توانا تھے مگر خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے کسی نظام کے پابند نہ تھے۔

آریا نسل آگ گرج کی عبادت کیا کرتے تھے ،آریا کی آمد سے قدیم ہندو تہذیب میں بھی تصادم ہوا، دراوڑی تہذیب جس کی نشاندہی ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے کھنڈرات کرتے ہیں۔
ہندوستان میں دوسری نسلوں کے باشندے جن کی زبان تامل،تلگو وغیرہ تھی۔

کائنات کی فطرت ہے ہر شے کی تعمیر میں عروج اور زوال کا عنصر شامل ہوتا ہے۔
سنسکرت اور پراکرت زبانوں کے عروج زوال کی آنکھ مچولی میں ہزاروں سال گزارنے والے  پروفیسر دبیز کی تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں جبکہ اسلام کا ظہور ہوا، قدیم ہندوستان میں بیس سے زیادہ پراکرت زبانیں بولی جاتی تھیں۔۔

1 ۔پالی،

2۔ جینا پراکرت

3۔ مہاراشٹر

4۔ شورا سینی

5۔ مگدھی

Advertisements
julia rana solicitors london

پروفیسر کہتے ہیں محمود غزنوی کے دور میں میں اسکی فوج میں بہت ہندو تھے ،جو محل اور دربار کے کاموں پر معمور ہوتے تھے وہ آپس میں سندھی اور گجراتی زبان میں بات کرتے تھے اور سندھی سنسکرت اور پراکرت زبان کہلائی جاتی ہے ، برصغیر کی تاریخ  اور سندھ کی تہذیب وتمدن ختم کرنا ناممکن ہے۔

Facebook Comments

شہباز الرحمٰن خان
شہباز الراحمن خان سابق ڈپٹی جنرل سیکریٹری پیپلز پارٹی برائے نوجوان کراچی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply