آئس! نام ٹھنڈا کام گندا۔۔ثنااللہ خان احسن

گزشتہ برس سندھ رینجرز نے جرائم پیشہ عناصر کی اطلاع پر کراچی کے ایک علاقے میں چھاپا مارا جہاں سے انہیں پاؤڈر کے ڈرم ملے۔ اس سفوف کو دیکھ کر پہلے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر یہ کیا مواد ہے۔ کیمیکل تجزیے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ رینجرز کو ملنے والا سفید پاؤڈر درحقیقت ایکسپائرڈ یعنی زائدالمیعاد ادویات کا چورا تھا جن میں پیراسیٹامول، پیناڈول کی گولیاں شامل تھیں۔

گرفتار ہونے والے افراد سے مزید تفتیش کے بعد یہ معلوم ہوا کہ زائد المیعاد پیراسیٹامول، پیناڈول اور وِکس کو جرائم پیشہ گروہ کراچی میں جمع کرتے ہیں اور پھر اسے کوئٹہ میں مقیم افغان ڈرگ پیڈلر کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ان ادویات کو پیسوں کے عوض فروخت نہیں کیا جاتا بلکہ افغان اسمگلر زائد المیعاد گولیوں کے چورے کے بدلے نیا نشہ ’’کرسٹل میتھ‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ اس نئے نشے کو نوجوانوں میں ’’آئس‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے جو کہ ہیروئن اور کوکین سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحقیقات کے مطابق ایکسپائر ہوجانے والی پیراسیٹامول، پیناڈول،وکس اور دیگر نزلہ، زکام کی ادویات سے اسمگلرز ایفیڈرین (Ephedrine ) اور ڈی ایکس ایم یعنی ڈیکسٹرو میتھورفان نکالتے ہیں جس سے ’’آئس‘‘ نامی نشہ تیار کیا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات قارئین کے ہوش اْڑا دے گی کہ نزلہ زکام کی ایکسپائرڈ ادویات کا یہی چورا مرغیوں، مچھلیوں، گائے اور بھینسوں کی فیڈ تیار کرنے میں بھی شامل کیا جارہا ہے۔منشیات کا گھناؤنا کاروبار دنیا کے بدنام ترین غیر قانونی کاروبار میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2003ء میں منشیات کی اسمگلنگ سے 320 ارب ڈالرز کا بزنس کیا گیا تھا اور 2016ء میں منشیات کی اسمگلنگ سے500 ارب ڈالرز کا کاروبار ہوا۔

آئس جس کا اصل نام “میتھ ایمفیٹامین” ہے جسے مختصراً میتھ یا کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے۔ یہ جھاڑی نما مخصوص پودوں اور درختوں سے حاصل کئے جانیوالے ایک خاص کیمیکل کو کہتے ہیں۔ لیکن اب یہ کیمیکل مصنوعی یعنی سنتھیٹک طریقے سے بھاری مقدار میں لیبارٹریوں میں ایفیڈرین سے بھی تیار کیا جاتا ہے-
ایفیڈرین نامی کیمیکل کھانسی نزلہ بخار کی ادویات بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور ہر فارماسیوٹیکل کمپنی اس کو ایک مخصوص مقدار میں کوٹے کے تحت حاصل کرسکتی ہے جس کی باقاعدہ بین الاقوامی طور پر مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے لیکن گزشتہ دور حکومت میں حنیف عباسی اور یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے انتہائ بھاری مقدار میں یہ کیمیکل پاکستان منگوایا تھا جو مشہور زمانہ ایفیڈرین کیس کہلاتا ہے- حنیف عباسی کو اس کیس میں سزا ہوگئ تھی لیکن یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے ضمانتوں پر رہا ہیں ۔
آئس نشہ ایک ناسور کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔

کرسٹل میتھ ‘‘یا ’’آئس ‘‘ کیا ہے؟ اس نشے کو ’آئس ہیروئن‘‘ اور دیگر ناموں سے بھی فروخت کیا جارہا ہے اور یہ تیزی سے نوجوانوں میں فیشن کی طرح مقبول ہورہا ہے۔ کراچی کے پوش علاقوں سمیت یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نوجوان بھی اس منشیات میں مبتلا ہو رہے ہیں، جس سے والدین اور متعلقہ محکمہ لاعلم دکھائی دیتا ہے۔ ’’آئس‘‘ چونکہ کسی پودے سے تیار نہیں کی جارہی، اس لیے اسے دنیا بھر میں چرس اور ہیروئن سے زیادہ مقبولیت مل رہی ہے۔

چرس اور ہیروئن کے پودوں کی کاشت اور ان کی اسمگلنگ میں منشیات فروشوں کو زیادہ مشکلات پیش آتی تھیں جبکہ اس کی بہ نسبت ’’آئس‘‘ کو لیبارٹری میں ایک مقام پر تیار کیا جاسکتا ہے۔’’کرسٹل میتھ‘‘ نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ’’ کرسٹل‘‘ یا ’’آئس‘‘ نامی یہ نشہ ’’میتھ ایمفٹامین‘‘ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق’’آئس‘‘ کے مسلسل استعمال سے انسان میں خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کسی توانائی کے مشروب کی طرح جسم میں طاقت محسوس ہوتی ہے۔ ’’آئس‘‘ پینے کے بعد انسان کے اندر توانائی دگنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران انہیں بالکل نیند نہیں آتی۔ ’’آئس‘‘ کا شکار رہنے والے ایک فرد کا کہنا ہے کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ انتہائی تیز کام کرتا ہے اور اس میں بے پناہ توانائی آجاتی ہے۔ تاہم جب نشہ اترتا ہے تو انسان انتہائی تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتا ہے۔ یہ نشہ بالکل کوکین کی طرح کام کرتا ہے لیکن یہ کوکین سے سستا اور اس سے زیادہ خطرناک ہے۔

ایک گرام کوکین 10ہزار سے 12 ہزار روپے کے درمیان میں فروخت ہوتی ہے جبکہ ایک گرام ’’آئس‘‘ 1500 روپے سے تین ہزار روپے میں بھی فروخت ہورہی ہے۔ ’’آئس‘‘ کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انہیں قتل کرنے کی سازش کررہا ہے۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکی ہے جہاں ’’کرسٹل‘‘ تیار کی جاتی تھی جبکہ اس کی ایک بڑی مقدار افغانستان سے اسمگل ہو کر آتی ہے۔

نوجوانوں کو نشے کی لت کیوں پڑ رہی ہے؟ نفسیات و منشیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہات ہیں، جن میں ذہنی دباؤ  سرفہرست ہے۔ یہ دباؤ  جذباتی، معاشرتی، گھریلو حالات اور تعلیم کا بھی ہو سکتا ہے۔ منشیات کی لت کی دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن ہے اور تیسری وجہ دوستوں کا دباؤہے۔ یعنی کچھ دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو دوستوں کے دباؤ  میں آکر نوجوان اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔

اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے امیر گھرانوں کے نوجوانوں کو دیکھ کر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی ’’آئس‘‘ کی لت کا شکار ہو رہے ہیں۔ امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں ’’آئس‘‘ کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی بتائی جاتی ہے، تاہم اس کے برعکس ’’آئس ہیروئن‘‘ کی لت انسان کو ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا کر رہی ہے۔ منشیات دماغ کے خلیوں میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں دماغ اس طرح سے کام نہیں کرتا جس طرح سے عام لوگوں کا کرتا ہے اور نتیجتاً انسان ذہنی، جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے
اس کے مینوفیکچررز یورپین ڈرگ مافیا اپنے آلہ کاروں کی مدد سے دنیا کے کونے کونے میں اس زہر کو پہنچانے کا عزم کر چکے ہیں۔

مختلف کیمکلز سے تیار ہونے والے اس نشے کے عادی افراد میں دن بہ دن خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ ایک وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ زیادہ تر سیاستدان، تاجر، جسم فروش طبقہ، سرکاری افسران، ایلیٹ کلاس سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات اس لت کا شکار ہو رہے ہیں۔۔عادی مجرمان، ڈرگ مافیا ممبرز، اور جنگوں میں ظلم کے پہاڑ کھڑے کرنے والے فوجی بھی اس کو شوق سے استعمال کرتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق مسلسل آئس کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ وہ ہر قریبی شخص کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کوئی انھیں مارنے کے لیے سازش کررہا ہے۔

انجینئرنگ یونیورسٹی کے ایک طالب علم ، جو کچھ عرصہ اس لعنت کا شکار رہا، نے بتایا کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ وقتی طور پر تیز ہوجاتا ہے اور اس میں بے پناہ توانائی آجاتی ہے اور وہ دو اور تین تین دنوں تک جاگ سکتا ہے لیکن درحقیقت ذہن، نشہ اترنے کے بعد یکدم کمزور ہو جاتا ہے، یادداشت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے، جسم میں درد، بے چینی اور خوف کا شدید احساس پیدا ہو جاتا ہے.۔ بعض اوقات وقت پر نشہ نہ ملنے پر انسان اپنے آپ کو اور دیگر لوگوں کو اذیت پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔۔

آئس بہت مہنگا نشہ ہے اس لیے عام آدمی یا متوسط طبقے کی پہنچ سے بہت دور ہے البتہ جو اس کا عادی ہو جائے وہ اس کے حصول کیلئے ہر جائز و ناجائز حربے کو اختیار کر سکتا ہے۔۔
اس کا ایک گرام 80 ڈالر تک ملتا ہے، مہنگا ہونے کی وجہ سے لوگ پوائنٹ کے حساب سے خریدتے ہیں اور ایک پوائنٹ گرام کے دسویں حصے کے برابر ہے جس کو ایک نارمل انسان استعمال کرنے کے بعد دو دن تک جہاز بنا ہوا ہوتا ہے. اس کا عادی بننے کیلئے ایک سے تین پوائنٹ کافی ہے۔

پاکستان میں قبائلی علاقے بالخصوص خیبر ایجنسی کو آئس کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ جہاں یہ زہریلا اور مہلک نشہ افغانستان سے سمگل ہو کر آتا ہے۔ مہنگا ہونے کی وجہ سے یہ پہلے صرف امراء کی دسترس میں تھا اور ان کی پارٹیوں میں سرو کیا جاتا تھا۔ کیونکہ خالص اور اصل آئس کی ایک چھوٹی سی پڑیا 5 سے 10 ہزار تک ملتی تھی۔ لیکن جہازوں” کی تعداد اور کھپت میں غیر معمولی اضافے کے پیش نظر افغانستان سے کثرت سے سمگلنگ اور مقامی لیبارٹیوں میں تیار شدہ دو نمبر آئیس” کی وجہ سے قیمتیں بتدریج کم ہو کر 500 سے 1500 کے درمیان تک آ گری ہیں-

’آئس‘‘ کی فروخت کس طرح ہورہی ہے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق ’’کرسٹل‘‘ یا ’’آئس‘‘ کی فروخت روایتی انداز کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کی جارہی ہے۔ منشیات فروش واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز کو استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر منشیات فروش واٹس ایپ پر پیغامات بھیجتے ہیں اور اپنا شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ’’آئس‘‘ کا عادی بنانے کے لیے یہ گاہکوں کو ان کے گھر تک بھی پہنچائی جا رہی ہے۔ حکام نے کچھ ایسے گروپ پکڑے جو ٹیکسی سروس استعمال کرتے تھے۔ان میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی شامل تھے اور یہ گھروں میں جاکر ڈرگز پہنچاتے تھے۔ ایسے گروپ شہر کے پوش علاقوں میں سرگرم ہیں کیونکہ وہاں کے نوجوانوں کے لیے چار، پانچ ہزار روپے کا انتظام کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ پوش علاقوں کی ڈانس پارٹیز میں ’’آئس‘‘ کا استعمال فیشن بنتا جارہا ہے اور اسے مہمانوں کے لیے ’’سوغات‘‘ کی طرح پارٹیوں میں رکھا جانے لگا ہے۔

خیبر پختونخوا  میں اس خونی نشہ کا استعمال اور کاروبار بہت مضبوطی سے اب اپنے خونی پنجے گاڑ چکا ہے۔ اور بڑے شہروں پشاور، لاہور اور کراچی سمیت ملک بھر میں اس کا پھیلاؤ خطرناک حد تک تیزی سے جاری ہے۔ عام افراد کے ساتھ ساتھ تجارت پیشہ افراد ، سیاستدان، سرکاری افسران تک اس نشے کی لت میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ بدقستی سے یہ نشہ ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے اور اس سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ طالبات اور خواتین کی بھی ایک قابلِ ذکر تعداد اس جان لیوا نشے کی عادی ہے۔

جتنی تیزی سے یہ مہلک نشہ اقبال کے شاہینوں کے پر کاٹ رہا ہے، اس سے کئی گنا سستی اور غفلت کا ارتکاب پاکستان کی حکومتیں کر رہی ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سسلسلے میں اب تک کسی بھی قسم کے کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ابھی تک خصوصی طور پر آئس کے سمگلروں اور پینے والوں کے لیے کوئی سزا ہی مقرر نہیں کی گئی ہے۔

حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سسلسلے میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ابھی تک خصوصی طور پر اس کے سمگلروں اور پینے والوں کے لیے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے۔
حیران کن بات تو یہ ہے کہ رینجرز کی تفتیش سے قبل ’’ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان‘‘ (ڈریپ) اس بات سے بے خبر تھی کہ ملک میں ’’آئس ہیروئن‘‘ کی تیاری ایکسپائرڈ پیرا سیٹامول، ٹیلی نول اور نزلہ، بخار جیسی عام ادویات سے کی جارہی ہے۔ مئی 2006ء میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ازخود سماعت کے دوران وفاقی اداروں کو حکم دیا تھا کہ ادویات ساز کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایاجائے کہ وہ اپنی کمپنی کی ایکسپائرڈ ادویات کو 15 دن کے اندر تلف کر دیں۔ تاہم اس حکم کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔

رواں برس جنوری کے مہینے میں کچی گلی کی ہول سیل میڈیسن مارکیٹ میں ’’ایف آئی اے‘‘ نے جب چھاپا مارا تو اتنی بڑی تعداد میں زائد المیعاد ادویات برآمد ہوئیں کہ جس کی حکام کو توقع بھی نہیں تھی۔ رینجرز حکام کے مطابق مقامی اور ملٹی نیشنل ادویات ساز کمپنیاں ضائع کی ہوئی ادویات اور ان کی تیاری میں نکلنے والے خام مال کو بھی اسکریپ ڈیلرز کو فروخت کر دیتی ہیں جو اسے آگے منشیات بنانے والوں کو بیچتے ہیں۔موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس اہم مسئلے پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے۔

زائد المیعاد ادویات کو ٹھکانے لگانے، جامعات میں منشیات کی فروخت اور اس حوالے سے قوانین کو مضبوط کرنے اور نوجوانوں کو نشے سے نجات دلانے کے لیے سرکاری بحالی مراکز کے قیام میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام رہی ہیں تو انہیں قانون کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری اس پوسٹ کے توسط سے حکومت وقت سے بھی درخواست ہے کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے جتنی جلد ممکن ہو، اس کے سدباب کیلئے قانون سازی کی جائے اور اس لعنت سے جڑے تمام لوگوں کیلئے سخت سے سخت سزائیں مقرر کی جائیں۔ نیز اسکے خلاف بلا تاخیر فوری سرکاری مہم شروع کی جائے۔ تاکہ اس مہلک نشے کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہو سکے۔
بشکریہ قومی اخبار-طبی بلاگز

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply