• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • “پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( چوتھی قسط)۔۔۔علیم رحمانی

“پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( چوتھی قسط)۔۔۔علیم رحمانی

جمالی گوٹھ کی جومسجد ہماراعارضی مسکن ٹھہری تھی۔یہاں پہنچتے ہی ہمارے ساتھی مولاناعلی زیدی صاحب نے یہ اعلان کرکے ہماراتراہ نکال دیاکہ وہی یہاں رکیں گےاور مجالس عزاسے خطاب کیاکریں گےاورانہوں نے بزبان خود ہمیں ابھی منزل کی تلاش جاری رکھنے کاحکم صادر فرمایا۔

یہ مسجد لب سڑک واقع اورنسبتاًاچھی کنڈیشن میں تھی،وہاں ہم نے نمازظہرین پڑھی اور ملحقہ حجرے میں وہی مخمور آنکھوں والے بزرگ ہمیں کھانا اور یہ خوش خبری بھی ساتھ لائے کہ ہم دونوں کے سینٹر والے بھی عنقریب یہاں ہمیں لینےکے لئے پہنچنےوالے ہیں، بزرگ کے چہرے مہرے سے یوں لگ رہاتھاکہ انہیں ہماری آمد کچھ پسند نہیں آئی ہےاور مولانازیدی جو بہت کمزور اورلاغر سے نوجوان تھے انہیں ایک آنکھ نہ بھائے تھے جس کانتیجہ غالباًچھٹی محرم کویوں نکلاکہ انہیں بوریابستر گول کرکے واپس کراچی روانہ ہوناپڑاتھاکیونکہ زیدی صاحب اپنے فرائض منصبی کے مطابق مجلس کے ساتھ نمازپنجگانہ بھی باجماعت پڑھارہےتھے ،لوگوں کودین کے بنیادی عقائد اور فقہی مسائل بھی بتلارہے تھے۔

لوگ مخمور انکل کی ذاکری اور خود اس کی حرکتوں سے کافی تنگ تھے جوبھنگ کانشہ کرتے اور مجلس کے لئے باہر سےآئے کسی عالم اور ذاکر کوٹکنے نہ دیتے تھےجبکہ عام مومنین زیدی صاحب سے خوش تھے بس یہی بات ان بزرگ کوکھلتی تھی اور یہی زیدی صاحب کی فوری واپسی کاسامان کرگئی۔اگرچہ اس ناخوشگوار واقعے کی خبر ہمیں وہیں مل گئی تھی مگر خون جگر جلانے کے سواکچھ نہ کرسکتے تھےاس لئے محرم میں چپ کاروزہ رکھ لیا۔

بہر حال زیدی صاحب کے لئے سینٹر کاانتظام ہونے کے بعد ہم بھی اپنے مطلوبہ مقامات تک جانے کے منتظر تھے،اس وقت کسی موبائل کاتوتصور ہی نہ تھاسو انتظار کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہ تھا کہ تین بجے ایک باریش مومن بائیک پہ تشریف لے آئے ان کی بات چیت سے اندازہ ہورہاتھاکہ وہ بہت شریف النفس اور کسی حدتک پڑھے لکھے آدمی ہیں انہوں نے ہماری آمد کاشکریہ اداکیااور ہماری کافی ہمت بندھائی جس سے ہمیں اتنی خوشی ہوئی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا کیونکہ یہ اس دودن کے سفرمیں ہم سے ٹکرانے والے واحدآدمی تھےجوہماری آمد سےکافی خوش تھےانہوں نے بتایاکہ وہ رمضان المبارک اور محرم الحرام میں تنہااپنے خاندان کے لئے عالم یامبلغ کاانتظام کرتے ہیں ان کے گاوں میں مسجد توموجود نہیں البتہ امام بارگاہ کے لئے جگہ مختص ہے مگر ابھی تک اس پہ کوئی تعمیرات نہیں ہوئیں وہیں چند ایک مومنین کی نماز جماعت کااہتمام ہوتاہےاور مولاناکوبھی وہیں ٹھہرایاجائے گا۔ انہوں نے مولاناناصر حسین ناصری صاحب کوساتھ چلنے کی دعوت دی اور وہ ان کے ساتھ روانہ ہوگئے۔

آخر میں یہ حقیر رہ گیااگر یہ بھی نہ رہتاتوآپ لوگوں کویہ یاداشتیں پڑھنے کوکہاں ملتیں مگر یہ بھی اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب بندہ اللہ کی راہ میں نکلتاہے تو بقول قرآن اللہ راستہ دکھاہی دیتاہے۔

شام چھ بجے ایک فربہی مائل شخص مونچھوں کوتاو دیتا سلام یاعلی مدد کہتے ہوئے ہاتھ جوڑتاحجرے میں داخل ہواہم نے بھی ان کا پرتپاک رویہ دیکھ کرکھڑے ہوکر ان سے معانقہ ومصافحہ کیا،ان کے بیٹھتے ہی مخمور بزرگ بھی چائے لےکرتشریف لےآئے اور ان کاتعارف کراتے ہوئے گویاہوئے کہ یہ ماسٹر سائیں اللہ بخش ہیں جو گورنمنٹ پرائمری اسکول ٹیچر اور سماجی طور پہ ایک فعال شخصیت ہیں اور یہ آپ کولینے آئے ہیں آپ انشاء اللہ ان کے گاؤں میں تبلیغی فرائض سرانجام دیں گے اور مجالس پڑھاکریں گے۔

سائیں نے میرابیگ پکڑااور مولانازیدی صاحب کے ساتھ اس بزرگ کوخداحافظ کہہ کے ہم مسجد سے باہرنکلے تومیں نے پوچھا،سائیں۔۔۔ آپ کاگاؤں یہاں سے کتنادور ہے؟ سائیں نےکہایہی کوئی چند ایک کلومیٹر،میں پوچھاکیسے چلیں گے ، فرمایا۔۔ آجانی بہہ جاسیکل تے۔۔۔۔۔سائیں۔۔۔۔ سائیکل لے کے آیاہوں بس جانے یاعلی کہہ کے چلے چلتے ہیں ۔میں بیگ ہاتھ میں پکڑ کرسائیکل کے سامان کے لئے لگائی گئی جالی پہ یاعلی مدد کہہ کے بیٹھ گیااور سائیں سائیکل کاپیڈل گھمانے لگے۔۔سائیکل اس قصبے سے نکل کر پگڈنڈیوں پہ ہم دونوں کولےکر سر پٹ دوڑنے لگی ابھی عشق کے کئی امتحانی پرچے تھے جنہیں میں نے باغواہ نامی گاؤں میں دینے تھے اور ان میں کسی نقل کی بھی گنجائش نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply