لاک ڈاون کی ماں کی آنکھ۔۔عارف خٹک

دوران لاک ڈاؤن دو بار پنجاب اور ایک بار خیبرپختونخوا  جانا ہوا۔ ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے کراچی سے سکھر ساڑھے چار گھنٹے لگے اور سکھر سے فیصل آباد براستہ موٹروے پانچ گھنٹے لگے۔ یاد رہے کہ سکھر تا فیصل آباد موٹروے کھل چکی ہے۔لیکن اس موٹروے پر کوئی پٹرول پمپ نہیں ہے، پچھلے ایک ماہ میں تین قیام گاہیں کھل چکی ہیں جس میں سےصرف ایک شاپ آپ کو چائے، بسکٹ اور ساتھ میں باتھ روم کی تھوڑی بہت سہولیات دے سکتی ہے۔ پیٹرول کیلئے آپ کو کسی قریبی انٹر چینج سے اتر کر پیٹرول بھروانا پڑتا ہے۔ کوشش کریں کہ پیٹرول شیل، پی ایس او یا بائیکو کا ہو کیونکہ پرائیویٹ پیٹرول پمپس میں ملاوٹ ہوتی ہے جس سے آپ کی گاڑی کا انجن گڑبڑ کرسکتا ہے۔ رات کا قیام آپ ملتان یا فیصل آباد بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ بچے اور خواتین ساتھ نہ ہوں۔ورنہ رستے میں بنی  ہوئی  آرام گاہوں میں گھس جایئے اور آنکھ جھپکا کر نیند پوری کرلیجیے۔

پشاور تک کا سفر آپ آرام سے سولہ گھنٹوں میں کرسکتے ہیں۔ اگر بیوی ساتھ ہو تو یہی سفر آپ 14 گھنٹوں میں بھی کرسکتے ہیں۔
پشاور اس وقت مکمل طور پر بند نہیں ہے مگر ہوٹل کسی بد کردار حسینہ کی طرح باہر سے بند اور اندر سے کھلے ملیں گے۔ کرایہ آپ سے پورا چارج کریں گے تو آگے سے منہ بناکر کہیے “اجی چھوڑیئے خان صاحب دس ہزار فی نائٹ ہوٹل والا ابھی چار مانگ رہا تھا اور آپ ہمیں مجبور کررہے ہیں کہ اپنے رشتہ دار کے گھر چلا جاؤں جو کہ ساتھ ہی ہے۔” باخدا اگلے لمحے خان صاحب آپ کو فری قیام کی آفر کرے گا ،چلیں اس بہانے دو ماہ سے اکیلے خوار ہونے سے اچھا ہے کہ مہمان کو ٹھہرا کر “کچھ کہا جائے کچھ سنا جائے” اور دل ہلکا کرلیا جائے۔

اگر سوات جانا ہے تو کرنل شیرخان انٹر چینج سے بائیں ہاتھ گاڑی موڑ لیجیے اور سوات موٹروے پر چڑھ جائیے۔ کوشش کریں کہ خیبرپختونخوا  میں ٹول ٹیکس ادا کرتے وقت کھلے پیسے ساتھ رکھیں کیونکہ ان کے پاس پانچ پانچ سو اور ہزار کا کھلا نہیں ہوتا ورنہ آپ کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی لائن لگ سکتی ہے۔ سوات موٹروے پر گاڑی ایک سو بیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی  رفتار سے بھگانے کی غلطی ہر گز مت کیجیےگا کیونکہ آغاز سفرمیں صوبائی حکومت نے آپ کیلئے ہدایات لکھی ہیں “کہ یہ پاکستان کا واحد موٹروے ہے جس کو صوبائی حکومت نے بنایا ہے۔” تو سمجھ جایئے کہ BRT والے ماہرین اور انجینئرز یہاں بھی آپ کو ملیں گے۔ ہر دس کلومیٹر کے بعد بغیر کسی بورڈ یا انتباہ کے تقریباً ہر موڑ پر آپ کو “U Turn” ملے گا۔ ہر یوٹرن پر آپ کو اپنا اسمارٹ وزیراعظم ضرور یادآئے گا۔ اگر آپ انصافی ہیں تو یہ کہہ کر حکومت کو خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں کہ کیا ہوا کہ موٹروے ٹیڑھی میڑھی ہے۔ خان پرچی دیکھ کر تو تقریر نہیں کرتا۔ اگر آپ پٹواری ہیں تو بلڈ پریشر کی دوائیاں بھی لے سکتے ہیں۔اپنی صوابدید پر بغیر کسی ہدایات کے آپ کو مخالف سمت آنیوالی سڑک پر جانا ہوگا۔ مردان کے “باغیچہ ڈھیرے” کے پاس مقامی لوگوں کیساتھ ساتھ آپ کو ان کی گائیں بھی موٹروے پر چہل قدمی کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔ لہذا سپیڈ80  کلومیٹر فی گھنٹہ سے اوپر ہرگز مت رکھیں اور بریک پر مسلسل پاؤں رکھ کر چلیں تاکہ آپ کی وجہ سے “باغیچہ ڈھیرے” کی گائیں زخمی نہ ہوجائیں۔

کیونکہ یہ گائیں مقدس ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہاں چار سو سادات ہی سادات پھیلے ہوئے ہیں جو خود کو یوسفزئی بھی کہلاتے ہیں، جن کی بددعا اور گالی سے انسان تو کیا فرشتے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ جب آپ اور آپ کی گاڑی دونوں ہانپ کر پسینہ پسینہ ہوجائے تو سمجھ جائیے کہ اب آپ کو 100 روپے ٹول ٹیکس دینا ہے۔ مالاکنڈ کی پہاڑیوں میں ایک دفعہ پھر موٹر وے غائب ہوجاتی ہے۔ اگر آپ کی گاڑی سی این جی پر ہے تو فوراً  پٹرول پر لے آئیے اور اے سی بند کرلیجیے۔ کیونکہ اب آپ نے ایسی عمودی چڑھائیاں چڑھنی ہیں کہ آپ کو لگے گا کہ گاڑی ہمارے مجاہد اعظم امت ارطغرل کے گھوڑے کی طرح اگلی ٹانگیں اٹھائے گی۔ اور اگلے لمحے آپ کی گاڑی الٹی قلابازیاں کھا کر سینکڑوں فٹ نیچے گہری کھائیوں میں جارہی ہوگی۔ مزے کی بات ان عمودی چڑھائیوں میں آپ کو انتہائی خطرناک موڑ بھی ملیں گے جن کے کنارے پاک فوج کے FWO کے جوانوں نے لکھا ہوا ہے “امید ہے کہ  آپ کا سفر یادگار اور شاندار ہوگا”۔ ہمارے کچھ پشتون بھائی ان چڑھائیوں پر بیچ سڑک میں گاڑیاں روک کر ایک دوسرے کا حال احوال اور خیرخیریت بھی معلوم کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

اوپر جاکر آپ دس منٹ تک اپنے حواس یکجا کرسکتے ہیں اگر زیادہ ہی حواس ٹھکانے لگانے ہوں تو گاڑی سے نیچے اتر آئیے اور مالاکنڈ کے پہاڑوں میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو دل کھول کر گالیاں دے لیجیے۔ مگر کوشش کریں کہ ایسا کرتے ہوئے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیجیے کہ پہاڑوں میں گونجتی آپ کی آوازیں واپس آپ کو ہی گالیاں دیں گی۔ یہاں کے پہاڑ بھی سرٹیفائیڈ یوتھی ہیں۔ تبھی تو فیصل آباد کا مشہور ٹریکر محمد عبدہ ان سے پیار کرتا ہے۔

ویسے اس مضمون پر اہلیان کراچی کو ہنسنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کیونکہ کراچی حیدرآباد موٹروے پر فاسٹ لین میں بھاگتے ٹرکوں کیساتھ، جھومتی موٹر سائیکلیں، اوور سپیڈ پیلے رکشوں اور بس لائن میں رینگتی مرسیڈیز کو کھا جانیوالی  نظروں سےدیکھتے سندھیوں کے ہم بھی گواہ ہیں۔ بہرحال تحریک انصاف کی موٹروے پاکستان پیپلز پارٹی کے موٹروے سے ہزار درجے بہتر ہے۔ کیونکہ وہاں سو روپے لیتے ہیں اور یہاں دو سو تیس لیتے ہیں۔

خیر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ لاک ڈاؤن میں بھی آپ انجوائے کرسکتے ہیں۔ عموماً پولیس آپ کو نہیں روکتی اگر بدقسمتی سے روک بھی لے تو گاڑی میں فورا ًتلاوت لگا لیں اور آہستہ سے ان کو بتائیں کہ پشاور میں اماں کورونا کی وجہ سے ہسپتال داخل ہیں،یا پھر دادی کا جنازہ بس تیار ہےاور آپ کا ہی انتظار ہورہا ہے۔ اگر کراچی کی طرف آنا ہو تو ابا کوہسپتال داخل کرا دیجیے یا بیگم کا انتقال کروا لیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

باخدا رستے میں چار دفعہ ہم نے خود پنجاب اور سندھ پولیس والوں سے اپنی زبان دراز اور گناہگار بیوی کی بخشش اور جنت الفردوس کی دعائیں منگوائی ہیں۔
آزمائش شرط ہے!

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply