میرایہ غیر متوقع سوال سن کر وہ طالب علم کھاجانے والی نظروں سے عجیب سوالیہ پلس استہزائیہ اندازمیں مجھے گھورنے لگا،شایداندرہی اندرکہہ رہاہوگا “وڈاآگیاتبلیغی جماعت دامنڈا ،جو اتنی وڈی شخصیت کونہیں جانتا” جب میں نے اس کے گھٹنے چھوتے ہوئے اسے یقین دلایاکہ واقعتاًمیں ان مولوی صاحب کو نہیں جانتا،تووہ ابھی گلےکو کھنکارکےان کا تعارف کروانے ہی لگاتھا کہ اعلان ہوا ابھی قبلہ کے گھر پہ تمام مہمانوں کے لئے چائے کا انتظام کیاگیاہے،اس کے بعدمٹیاری پھر حیدرآباد کے لئے واپسی ہوگی، لہذاسب تشریف لے چلیں باقی گپ شپ اب وہیں ہوگی۔
قارئین باتمکین !
بس مولوی صاحب کاتعارف وہیں رہ گیااور ہم ان کے دولت کدے پہ جاحاضر ہوئے،جومدرسے کے عقب میں واقع تھا،مگر جاتے ہوئے وہ طالب علم ہی کہیں کھسک گیاجس سے میں نےمولوی صاحب کے متعلق تفصیلی معلومات لینی تھیں اور جو حضرات گرامی میرے دائیں بائیں کراماً کاتبین بن کے بیٹھے تھے،اب پہلے خود ان سےتعارف کی ضرورت آن پڑی تھی کہ وہ مجھ سے عمر میں کافی بڑے لگ رہے تھے،ایسے میں بِلاتکلف کسی دوسرے کے متعلق ان سے پوچھنامجھے کچھ مناسب محسوس نہیں ہورہاتھامگر مولوی صاحب اورکلین شیو۔۔۔۔۔نماز جماعت اور درس ۔۔۔۔ان کااخلاق اور اخلاص وغیرہ میرے دل ودماغ میں ایک فلم کی طرح برابر چل رہے تھے،ابھی میں اپنامدعازبان پہ لایاہی چاہتاتھاکہ چائےکاگرماگرم کپ میری طرف بڑھاتے ہوئے ان میں سے ایک طالب علم خالص سندھی لہجے میں مجھ سےگویاہوا: آغاصاحب !کیوں پریشان ہوخیریت توہے نا؟ اندھاکیاچاہے دوآنکھیں۔۔ میں نے جھٹ سےکہا بھائی الحمد للہ میں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت بھی نیک مطلوب” چاہتا”ہوں۔ بھائی جان ذرابتائیے کہ یہ مولوی صاحب ہیں کون؟ کہاں ہوتے ہیں ؟ اور کیوں ہوتے ہیں کلین شیو؟
“پہلاتبلیغی دورہ “چندایک یاداشتیں( پہلی قسط)۔۔۔علیم رحمانی
اور کمال یہ ہے کہ ہماری توکم داڑھی پہ اساتذہ طنز کے نشتر چلارہے ہوتے ہیں مگر یہاں تو صفاچٹ پہ بھی ہاتھ چوماجارہاہے؟پیشانی کابوسہ لیاجارہاہے، تعظیم کی جارہی ہے ،مدارس کے مبلغین سے خطاب کروایاجارہاہے،مسجد میں پیش امامی کروائی جارہی ہے ؟ آخر معاملہ ہے کیا؟ اور داڑھی کی حرمت بارے سختی صرف ساڈے نال ہی کیوں ؟ کیوں ؟ کیوں؟
پتہ نہیں کتنے سارے” کیوں اور کیسے “سے مزّین سوالات کاسیلاب تھاجوچائے کی چسکی لیتے لیتے میرے منہ سے بہتاجارہاتھا،اور میرے ساتھ چائے پہ تشریف فرمامتوقع یاموجودہ عالم دین اس اچانک کے سیلابی ریلے میں بہتے بہتے بچ گئے ۔
انہوں نے ایک مشفقانہ نگاہ ڈالی ،چائے کے گھونٹ سے گلاصاف کیااور ڈھیر سارا احترام اپنے لہجے میں اتار کر ان کاجوتعارف کرایا تو میرے دل نے اس مولوی صاحب کے متعلق سابقہ خیالات پہ دماغ سے معافی مانگی اور دل ہی دل میں اس بات پہ اللہ کاشکر اداکیاکہ اس نے ایسے باعمل مولوی صاحب کی اقتداء میں نماز مغربین پڑھنے اور ان کادرس سننے کی توفیق عطافرمائی۔۔
بہر حال میرے درجن بھر کون ،کیوں اور کیسے کے جواب میں وہ بولے کہ یہ عظیم شخصیت ہیں ،معلم اخلاق ، مدرسہ خاتم النبیین بھٹ شاہ کےمدیراور وہاں کے کئی ایک تبلیغی مراکز کے سرپرست حجت الاسلام مولاناغلام قنبر کریمی صاحب قمی دامت برکاتہ ،جوحوزہ علمیہ قم المقدس سے اوائل انقلاب میں فارغ التحصیل ہونے والے علماء میں سے ایک زبردست اور جیدعالم دین ہیں ۔چلیں یہ توٹھیک ہوگیااور جی بھی خوش ہوگیاکیونکہ ان کی باتوں سے ہی ان کے علمی قدکاٹھ کاکچھ کچھ اندازہ ہوچلاتھامگر وہ کلین شیو کیوں ہوتے ہیں ؟
اس کیوں کا راز کھلنے سے پہلے ذرا کچھ قبلہ کریمی کی داڑھی سے ہٹ کے ان کی سدابہار شخصیت کی بات کرتے ہیں۔
غلام قنبر کریمی صاحب قبلہ رنگت میں قنبرانہ رنگ کے حامل ہیں مگر مزاج بھی خاصےقنبرانہ رکھتے ہیں ،مجال ہے کہ طالبعلم توطالبعلم کسی عام آدمی کوبھی نظر انداز کریں ۔ہم نے ان کی زیارت کرتے ہوئے ان کے گھر میں چائے پی اور وہ تبلیغی امور کی مشکلات ومسائل اور ان کا علمی وعملی حل بیان کرنے کے ساتھ زبردست لطائف سے محفل کو کشت زعفران بناتے رہے۔ کریمی صاحب قبلہ علمی حوالے سے علماء کے حلقے میں تو اپناایک مقام رکھتےہیں مگر اخلاق اور اخلاص کے لحاظ سےبھی اپنی مثال آپ ہیں۔
اس کے بعد بھی کئی مرتبہ قبلہ کی دست بوسی کامجھے شرف حاصل رہا اور میں نے آپ کوپہلے سے زیادہ شفیق اور بااخلاق پایا۔
پاکستان کے عام علماء کا سب سے بڑامسئلہ یہی ہے کہ یہاں علمی حوالے سے جوجتناقابل یامشہور ہوتاہےوہ عوام کے تعلق سے اتناہی بداخلاق اور اکھڑ مزاج ہو جاتاہےجس کی وجہ سے عوام ان کانام سن کرہی کانوں کوہاتھ لگاتے ہیں کہ زباں پہ بارخدایایہ کس کانام آیا۔
کراچی کی حدتک چند گنے چنے علما ہی ایسے ہیں جو عام آدمی سے بھی انکساری سے ملتے ہیں ورنہ سیٹھوں اور جاگیرداروں کے آگے تواضع سے جھک جانے کااخلاق سے دور کابھی واسطہ نہیں ہے۔
( آج کل قبلہ کریمی صاحب علیل ہیں دعاکیجیے کہ مالک دوجہاں محمدوآل محمد کے صدقے انہیں شفائے کاملہ وعاجلہ عطافرمائے)
بہرحال ہم نے چائے کے بعد ان سے اجازت چاہی اور وہ بس تک ہمیں رخصت کرنے آئے ،رات 11بجے مٹیاری مدرسہ ابوالفضل العباس رکی اور چندایک مبلغین کواتار کے پھر روانہ ہوئی، یوں ایک بجےہم حیدر آباد کے کسی اوپن ائیر امام بارگاہ میں پہنچ گئے جس میں چھت توخیر نام کونہ تھی مگر چاروں طرف سے اتنی چاردیواری تھی کہ راہ گزرتاشخص اندر کوجھانکتے اور ہماری زیارت کرتے ہوئے گزرتاتھا۔دریاں بچھی ہوئی تھیں مگر اوڑھنے کوکوئی چیز ندارد جبکہ ہم کراچی سے صرف چندایک کپڑے اور کچھ کتابیں ہی لے کرآئے تھے۔
اب اسی بے سروسامانی کےعالم میں رات گزارنی تھی اور یہ سوچ کے اور پریشانی بڑھ رہی تھی کہ نجانےاور کتنی راتیں یہاں گزارنی پڑیں گی کیونکہ کراچی سے ہمارے قافلہ سالار بن کے آنے والے عسکری بھائی ہمیں یہاں پہنچاکے اپنے ہاتھوں کوپیشانی تک اٹھاتے ہوئےایک خاص اداسے سلام آخرکہہ کے جاچکے تھے آج بھی مجھے ان کی یہ ادااسی طرح یاد ہے جسے وہ ابھی کاواقعہ ہو۔
ابھی توبقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ابھی تومنڈیوں والامنظر دیکھناتھا،ابھی اس شیعہ ذاکر کاسامناکرناہےجو ہروقت بھنگ پی کے ٹن رہتاتھا ابھی اس دیوبندی مولوی سےبھی ہماری ملاقات ہوگی جو شیعوں کی مجلس میں نذر نیاز با نٹاتھا اور علامہ عرفان حیدر عابدی کاعاشق تھا۔ابھی اس ھندوبھائی کی محبت کانرالاانداز دیکھناہے جس نے ہمیں چائے پلائی۔
وہ بھی کیسے۔۔۔۔۔؟
یہ جاننے کے لئےاگلی قسط کاانتظار کیجیے۔
جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں