یہ تب کی بات ہے جب ہم گلشن اقبال کراچی کے ایک دینی مدرسے میں لمعہ اوّل کے طالب علم ہواکرتے تھے۔اس وقت مدارس کے سینئر طلباء کورمضان المبارک اورمحرم الحرام میں اندرون سندھ مختلف مقامات پہ تبلیغی دوروں پہ بھیجاجاتاتھا سوزندگی میں پہلی بار ہم نے بھی تبلیغ پہ جانے کی نیت سے اپنانام لکھوادیا اور محرم الحرام سے دودن پہلے جامعہ علمیہ جاپہنچے ،جہاں مجھ سمیت ساٹھ مبلغین کوحیدر آباد لے جانے کے لئے این ای ڈی یونیورسٹی کے ایک پوائنٹ کابندوبست کیاگیاتھا۔
روانگی سے قبل علامہ سیداصغر نقوی صاحب قبلہ نے مختلف ہدایات دیں اور دوران تشکیل پیش آنے والی ممکنہ مشکلات پہ صبر وتحمل کی تاکید کے ساتھ زور دے کر یہ بات کہی کہ چونکہ آپ حضرات محرم الحرام کی تبلیغی مجالس کے لئے جارہے ہیں اور ابھی تک کسی کے لئے کوئی جگہ معین نہیں ہوئی ہےاور یہ بھی معلوم نہیں کہ کس مزاج کے مومنین سے آپ کاسابقہ پڑے گا اس لئے جہاں جائیے وہاں پھونک پھونک کے قدم رکھناپڑے گا،جہاں بھی آپ کوجگہ ملے وہاں فی سبیل اللہ مجالس اور تبلیغ دین کیجیے، مگر یہ بات یاد رکھیے کہ آپ سے سب سے پہلاسوال مومنین کی جانب سے یہی کیاجائے گاکہ زنجیر زنی کے بارے میں آپ کاکیاخیال ہے؟ وہ اسی سے آپ کاامتحان لیں گےکہ مولوی صاحب کیابیچتے ہیں مگر آپ سب نے اس مسئلے پہ کسی بھی قسم کی ذاتی رائے دینے کی بجائےانہیں یہ بتاناہے کہ اس مسئلے میں ہرمقلد کواپنے مجتہد کے فتوے پہ عمل کرناچاہیے اور بس۔
مقررہ وقت پہ ہم روانہ ہوئے ،مغربین کی نماز سے پہلے بھٹ شاہ پہنچے ،شاہ عبداللطیف بھٹائی کے مزار پہ فاتحہ پڑھی اور مزار کے قریب واقع مسجد میں مغربین کی نماز باجماعت پڑھی لیکن جیسے ہی نماز کے بعد مصافحہ شروع ہواتویہ دیکھ کر ہمارا تراہ ہی نکل گیاکہ نماز پڑھانے والے مولوی صاحب چٹے کلین شیو تھے اور ہم نے زندگی میں پہلی بار نمازپڑھانے والے کوکلین شیواور کلین شیو آدمی کو معمم دیکھاتھا۔ہمیں آج تک یہی بتایاگیاتھاکہ داڑھی مونڈھنے والے کاحشر یزید وشمر کے ساتھ ہوگا اور وہ فاسق ہے ،فاجر ہے اور پتہ نہیں کیاکیاہے ۔سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس مولوی صاحب کے پیچھے پڑھی گئی نماز کااعادہ کریں یا اب کے اللہ میاں کے حضور معافی کی عرضی گزاریں۔ دوسری طرف بہت سے علماء اور طلباء ان کی دست بوسی بھی کررہے تھے اور ہم حیران بلکہ باقاعدہ پریشان کھڑے تھے کہ یاالہی یہ ماجرا کیاہے؟
خیر نماز کے بعد نزدیک واقع مدرسہ خاتم النبیین ﷺ میں ہمارے لئے طعام کابندوبست تھااور ہم سب کچے پکے مدرسے کے ہال میں پہنچ گئے جہاں وہی کلین شیو مولوی صاحب کرسی پہ براجمان مبلغین سے کچھ خطاب فرمانے کے لئے تیار ہمارے جمع ہونے کاانتظار کررہے تھے ۔بھوک نے تبلیغ کاسارابھرم نکال دیاتھا،اوپرسے کلین شیو مولاناخالی پیٹ بھی ہمیں ہضم نہیں ہورہے تھے کہ انہوں نے بسم اللہ اور مختصر خطبے کے بعد اپنی گفتگو کاآغاز کیا ،گفتگو کیاتھی کہ پھول تھے جوان کے منہ سے جھڑ رہے تھے اور ہم اپنی بھوک کے ساتھ ان کاکلین شیو ہونابھی فراموش کرکے ان کی علمی اور تبلیغی گفتگو میں کھوگئے تھے ،ان کے ایک ایک لفظ سے تقویٰ اور اخلاص جھلکتاتھا ،انہوں نے اپنے اساتذہ میں بہت سے ایسے فقہاء کاتذکرہ کیا جن کاشمار دنیائے تشیع کےمراجعین میں ہوتاہے۔ اگرچہ ان کاخطاب مختصر ساتھامگر آج دودہائیاں گزرنے کے باوجود اس کی اثر انگیزی مجھے اپنے وجود میں محسوس ہوتی ہے۔خطاب کے بعد وہ بھی وہیں بیٹھ گئے اور سادہ ساکھاناچن دیاگیا مگر میں نے چھوٹتے ہی بغل میں بیٹھے ایک سندھی طالبعلم سے پوچھاکہ یہ آغاصاحب کون ہیں؟ اور کیا بلکہ کیاکیاکرتے ہیں؟
جاری ہے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں