نیو ورلڈ آرڈر کا گریٹ گیم اور گلگت بلتستان۔۔شیر علی انجم

اس وقت جہاں دنیا ایک طرف کرونا سے جنگ لڑ رہی  ہے وہیں دوسری طرف کرونا کی وجہ سے جس طرح سے عالمی حالات میں تبدیلی آرہی ہے اور دنیا کے طاقتور ممالک شدید معاشی بحران کا شکار ہوگئے ہیں  ۔اس تناطر میں عالمی میڈیا پر کچھ اس طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں  کہ ان تمام معاملات کے  سدِ باب کیلئے اور عالمی طاقتوں نے اپنی طاقت اور دنیا پر اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئےایک نئے عالمی نظام یا نیو ورلڈ آردڑ کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ یورپ امریکہ کے کئی نامور اخبارات اور تجزیہ نگار اس حوالے سے اشارہ دے رہا ہے کہ امریکہ نیو ورلڈ آرڈر کے زریعے عالمی معیشت پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے گریٹ گیم کھیلے گااور اس حوالے سے مختلف ممالک کے تھنک ٹینک نے بے تحاشہ مواد اور تحقیقاتی مقالے شائع کئے ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں اس موضوع پر کثیر تعداد میں مضامین لکھے گئے ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر کا بیانیہ ویسے تو بہت قدیم فکر ہے جس کے تحت پوری دنیا پر امریکہ کے تسلط کو قائم کرنا شامل کرنا ہے لیکن کرونا وائرس کے ایک جھٹکے نے امریکہ کے یونی پولر نظام کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہے۔

آج امریکہ شدید پریشانی کے شکار ہیں کیونکہ اتنی بڑی معیشت، جدید ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کا بظاہر اتنا بڑا انفراسٹرکچر رکھنے کے باوجود دنیا میں امریکی اجاری داری کا گرفت کمزور ہوتا جارہا ہے۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کا طاقت کی بنیاد پر دنیا پرکا تسلط کا خواب ریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔اس وقت امریکہ جہاں خارجی محاذ پر چین سے معافی اور بعض چھوٹے ممالک سے مدد مانگ رہا ہے، وہاں امریکہ کو داخلی انتشار کا سامنا ہے۔اگر دیکھا جائے تودنیا میں جنگ غیر ملکی وسائل سے فائدہ حاصل کرنے کا ایک غیر اخلاقی طریقہ ہے اور امریکہ اس کام میں سب سے آگے نظر آتا ہے لیکن اس وقت حالت یہ ہے کہ امریکہ جہاں ایران جیسے عالمی پابندیوں کی وجہ سے بدترین معاشی طوربدحال ملک ایران سے آگے بے بس نظر آتا ہے وہیں عراق اور شام سے نکلنے پر مجبور ہیں اور افغانستان سے نکلنے کیلئے بھی طالبان سے معاہدہ کیا ہے۔ یوں اس وقت دنیاکےحالات تیزی سے بدل رہا ہے اور بدلتے حالات میں معاشی اور دفاعی طور پر کمزور ممالک کے مشکلات میں اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے 1492ء میں سپین ایک بڑی طاقتتھی اور پھر پرتگال کا وقت آگیا ، پرتگالی سے اٹھ کر لاطینی امریکہ اور ایشیاء تک آگئے، پھر سترویں صدی میں فرانس کا وقت آجاتا ہے اور فرانسیسی کچھ عرصہ تک چلتے رہتے ہیں بعد میں برطانوی سامراج کا وقت آگیا اور وہ دنیا پر حکومت کرتے رہے ۔

اب امریکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پوری دنیا کو اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کررہاہے جس کیلئے اُنہوں نے بہت سے ممالک میں جنگیں بھی لڑی کئی اہم طاقتور اسلامی ممالک کو اپنے ساتھ ملاکر کمزور مُلکوں پر یلغار ہوئے اور اُنہیں کہیں پسپائی اور کہیں کامیابی ملی۔نیوورلڈ آرڈ کے مطابق جہاں دنیا میں امریکی تسلط کو مزید مستحکم بنانے کی سازش ہورہی ہے وہیں اس وقت چین کا راستہ روکنا ہے کیونکہ چین اس وقت امریکہ کے مقابلے میں عالمی طاقت کے طور پر اُبھر رہا ہے اورامریکہ کی اولین ترجیح چین کو کمزور کرنا ہے کیونکہ امریکہ کسی بھی حوالے سے چین کو معاشی طور پر دنیا پر اپنا تسلط قائم کرتے دیکھ نہیں سکتا ۔اُن پر یہ بات عیاں ہوگیا ہے کہ امریکا کے بعد کی دنیا میں بہتر انداز سے آگے بڑھنے کے لیے چین جو کچھ کر رہا ہے وہ اب واضح ہوتا جارہا ہے۔ چین نے ایسے ادارے بھی تیار کرلیے ہیں، جو بیرون ملک سرمایہ کاری اور دیگر متعلقہ اقدامات کے حوالے سے اپنا کردار خوب ادا کر رہے ہیں۔سی پیک، ایشین انفرا اسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ بینک سے بیلٹ اینڈ روڈ جیسے براجیکٹ ذریعے مشرقی یورپ اور بلقان کے خطے میں سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے متعلق منصوبے تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ چین شمسی توانائی اور پون بجلی کے ایسے عالمگیر گرڈ کی بھی تیاری کر رہا ہے، جس کے ذریعے ایک طرف تو پائیدار ترقی کو ممکن بنایا جاسکے اور دوسری طرف ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا گراف بھی نیچے رکھنا ممکن ہو۔

دوسری طرف ہندوستان نیو ورلڈ آرڈ کا کمان اپنے ہاتھ میں لینے کیلئے کوششوں میں نظر آتا ہے ہندوستانی میڈیا اس حوالے سے مسلسل پروپگنڈا کر رہا ہے کہ نریندر مودی نیوورلڈ ارڈر میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کی دشمنی میں پاکستان اور چین کے اشتراک سے جاری تمام اہم پراجیکٹ کو بڑی باریک نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور نریندر مودی کسی بھی صورت میں پاکستان اور چین کو مزید قریب ہوتے دیکھ نہیں سکتے اور اُنہیں اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی حاصل ہونے کے حوالے سے عالمی سطح پر چی میگوئیاں جاری ہیں۔ یوں تاثریہ ملتا ہے کہ ہندوستان کے تمام عزائم کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی ہے خاص طور پر مسلہ کشمیر کو لیکر امریکہ کے عزائم بھی دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ 5 اگست 2019 کو جب نریندر مودی نے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی سنگین ہوتے ہوئے جموں کشمیر لداخ کے حوالے سے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو ختم کرکے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے جموں کشمیر کو تقسیم کرکے خطہ لداخ کو یونین ٹیریٹری کا درجہ دیکر براہ راست دہلی سرکار کے ماتحت کردیا۔ اس حوالے سے پاکستان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر شدید احتجاج کیا اورمسلہ کشمیر کی حل کیلئے سلامتی کونسل کے قراردادوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب میں واضح طور پر کہا ہے کشمیر کا مسلہ رائے شماری کے ذریعے ہی حل ہوگا اور استصواب رائے ریاست جموں کشمیر(یعنی گلگت بلتستان،لداخ،جموں،وادی کشمیر،اور آذاد کشمیر) کے عوام کا حق ہے۔دوسری طرف انڈیا اس بات کو ماننے کیلئے بلکل بھی تیار نہیں بلکہ پوری ریاست کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں جس کیلئے اُن کے پاس مہاراجہ کشمیر کا الحاق ہے حالانکہ مہاراجہ کشمیر نے فقط تین سبجیکٹ پر ہندوستان کو حق دی تھی اور مہاراجہ ہری سنگھ کا بیٹا ڈاکٹر کرن سنگھ ماضی میں اس بات کا ہندوستان لوک سبھا میں کرچُکے ہیں کہ اُن کے باپ نے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ سودا نہیں کیا بلکہ فقط چند سبجیکٹ پر اختیارات دی تھی جس کی بنیاد پر ہندوستان کے آئین میں ریاست جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھے۔ لیکن اس وقت چونکہ دنیا سے امریکی اجارہ داری کا خاتمہ ہوا چاہتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نیو ورلڈ آرڈر لانے کیلئے نریندر مودی کو آگے کر چکا ہے اور مودی نیو ورولڈ آرڈر کی قیام میں کردار ادار کرنے کیلئے تیار دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ موودی ریاست جموں کشمیر کے تمام اکائیوں میں اپنا کھیل کھیلنے کیلئے ہٹ دھڑمی کا مظاہر ہ کر رہا ہے جیسے اوپر ذکر کیا کہ اُنہوں نے پہلے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی لداخ ریجن کو مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ چند ماہ بعد گلگت بلتستان تک کے علاقے کو لداخ کے ضلع لہہ میں شامل کرکے آفیشل پولٹیکل میپ جاری کردیا۔ اس سے بڑھ کراس وقت گلگت بلتستان میں جمہوری دور کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے اور گلگت بلتستان میں الیکشن کرانے کیلئے سپریم کورٹ کی جانب طریقہ کار پر فیصلہ آیا تو ایک بار پھر ہندوستان نے ہٹ دھڑمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلگت بلتستان خالی کرنے کا مطالبہ کردیا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں سینئر پاکستانی سفارتی اہلکار کو وزارت خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج کیا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق پاکستان سفارت سے یہ احتجاج ٹیلی فون کے ذریعے کیا گیا ہے۔ دی ہندو، ہندوستان ٹائمز، اور دی ایکنامک ٹائمز وغیرہ کے مطابق بھارت نے گلگت بلتستان کو اس کا اٹوٹ انگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ علاقے ریاست جموں و کشمیر کی اکائی ہے جو کہ قانونی طور پر ہندوستان کی ملکیت ہے۔ ہندوستان کے اس بیان کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ نےگلگت بلتستان سمیت ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ ہونے کے دعویٰ کو مسترد کرتے کہا ہے کہ یہ علاقے متنازعہ ہیں اس لئے وہاں کے عوام کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ایک غیر جانبدار استصواب رائے کے ذریعے ہونا باقی ہے۔ چند ہی دنوں بعد ہندوستان نے مزید ہٹ دھڑمی کا مظاہرہ کرتے ہوئےبھارت کے محکمہ موسمیات نے موسم سے متعلق اپنے روزانہ کے بلیٹن میںمظفر آباداورگلگت بلتستان کے موسم کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔اور محکمہ کی ویب سائٹ پر یہ تبدیلیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہندوستان کے اس اقدام پر بھی پاکستانی دفتر نے شدید احتجاج کرتے ہوئے غیر ذمہ دارنہ سلوک اور شرارت قرار دی ہے۔یوں جس طرح سے ہندوستان عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اُس سے صاف نظر آرہا ہے کہ مودی کی نگاہیں گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر کی طرف ہے اور اس واردات کیلئے اُنہیں امریکہ اور اسرائیل جیسےعالمی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔

ایسے میں واضح ہورہا ہے کہ مودی مستقبل قریب میں گلگت بلتستان کو میدان جنگ بنانا چاہتا ہے جس کی بنیادی وجہ امریکہ کے عزائم کی تکمیل ہے کیونکہ امریکہ کا گلگت بلتستان میں داخلے کا خواب بہت پرانا ہے اور امریکہ سی پیک منصوبے کو کسی طرح ثبوتاز کرکے گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی کوشش کرنا ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق کیلئے نکالنے والے ریلیوں اور عوامی احتجاج کو ہندوستانی میڈیا سوشل میڈیا سے اُٹھا کر بغاوت کا نام دیکر پرائم ٹائم میں نیوز چلایا جارہا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اسلام آباد کے حکمرانوں سے شدید تحفظات ضرور ہیں لیکن پاکستان کیلئے محبت اور قربانیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ اور گلگت بلتستان کے عوام نے اپنا فیصلہ 1947 میں سُنا دیا تھا یہ الگ بات ہے کہ اُس وقت کے فیصلہ سازوں سے گلگت بلتستان کے معاملے میں سنگین غلطیاں ہوئی اور آج ہندوستان گلگت بلتستان کو لیکر نیو ورلڈ آرڈر میں اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کرتے نظر آتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو اس سلسلے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے جو ہندوستان اور ہندوستان کو استعمال کرکے گلگت بلتستان میں گریٹ گیم کھیلنے کی کوشش کرنے والے عالمی طاقتوں کا راستہ روک سکے۔ کیونکہ اس وقت مسلہ کشمیر کے تناظر میں گریٹ گیم کا اصل مرکز گلگت بلتستان ہے اور گلگت بلتستان کے عوام کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ خطے میں قومی حقوق کی پُرامن جہدوجہد کرنے والوں کو مقامی حکومت راء کا ایجنٹ جیسے سنگین الزامات لگا نئی نسل میں شدید بے چینی اور عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔

لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے سلامتی کونسل کے قرادادوں پر عمل درآمد کرنے میں پہل کرکے پاکستان کے خلاف نیوورلڈ آرڈ کے تحت سازش کرنے والوں کا منہ بندکریں۔ گلگت بلتستان کے ساتھ ایک عمرانی معاہدہ کریں اور اس معاہدے کیلئے پہلی فرصت میں گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کے قرادادوں کی روشنی میں حقوق دیں اور آئین ساز اسمبلی کے ذریعے عمرانی معاہدے کو قانونی شکل دیکر اقوام متحدہ کو اعتماد میں لیں یہاں کے عوام کو اپنے وسائل پر حق ملیکت اور حاکمیت دیں جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا اور ہندوستان کو اس وقت عالمی سامرا ج کے ساتھ ملکر نیو ورلڈ آرڈر میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا جو خواب دیکھ رہا ہے وہ بھی چکنا چورہوسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحریر: شیر علی انجم

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply