فیک آئی ڈیز: باعثِ رحمت۔۔ذیشان نور خلجی

ان کا نام ثانیہ ارشد ہے۔ یہ ایک پڑھی لکھی گھریلو خاتون ہیں جو کہ ساٹھ کے پیٹے میں قدم رکھ چکی ہیں۔ بال بچوں سے فارغ ہیں سو وقت گزارنے کو خواتین کے مختلف ڈائجسٹ اور میگزینز کا سہارا لیتی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک شناسا نے انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ پھر کیا ہوا؟ آئیے ! انہی کی زبانی سنتے ہیں۔
“میں چونکہ ایک گھریلو خاتون ہوں تو طبیعت میں ایک فطری جھجھک موجود ہے۔ لہذا اپنے فیس بک اکاونٹ میں، میں نے اپنا نام تو لکھ دیا لیکن پروفائل فوٹو والا خانہ ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اور پھر پہلے ہی دن مجھے سات مختلف لوگوں کے میسجز موصول ہوئے۔ ان سب پیغامات میں ایک بات جو مشترک تھی کہ یہ سب حضرات ہی مجھ سے دوستی کے خواہاں تھے۔ جب کہ ایک لڑکے نے تو حد ہی کر دی اور پھر مجھے کہنا پڑا کہ میں تمھاری والدہ کی ہم عمر ہوں۔ اگر تم اپنی ماں سے یہ سب کچھ کہہ سکتے ہو تو پھر مجھے بھی ضرور کہو۔ جواباً اس لڑکے نے یہ کہہ کر مجھے بلاک کر دیا کہ اگر تم اتنی ہی شریف ہو تو یہاں کیا کرنے آئی ہو۔”

یہ محمد حسان ہیں جنہوں نے تین سال قبل سول انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ اور پھر نوکری نہ ملنے کے باعث اپنے آن لائن بزنس کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک فیس بک اکاؤنٹ بنایا اور لیڈیز انڈر گارمنٹس بیچنا شروع کر دئیے۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ بجائے اپنے نام سے اکاؤنٹ بناتے، انہوں نے ایک مغربی طرز کا برانڈ نیم چن لیا اور پروفائل فوٹو پر ایک ماڈل گرل کی تصویر لگا دی۔
اور اب ان کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ لوگ آتے ہیں اور انباکس میں بجائے اپنا مطلوبہ سائز بتانے کے، ان سے انہی کا سائز دریافت کرنے لگتے ہیں۔ جواباً یقین دلانے کو، حسان صاحب اپنی ایک شریر مسکراہٹ والی سیلفی بھیجتے ہیں اور پھر مقابل کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔

ابلاغ کے دوسرے ذرائع یعنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو ایک معتبر حوالہ ہیں اور صرف چنیدہ افراد ہی انہیں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا کہ جس کی رسائی ہر شخص کی پہنچ میں ہے یہاں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوا رہتا ہے۔ گو اس کے استعمال سے بہت سے لوگوں نے فائدہ بھی اٹھایا ہے لیکن ان پلیٹ فارمز پر اس قبیل کے افراد کی اکثریت ہے جن کی بدتمیزیوں کا ذکر اوپری واقعات میں ہوا ہے۔

آج سے دو اڑھائی سال قبل جب میں نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا تھا تو مجھے فیک آئی ڈی کی اصطلاح کا علم ہوا۔ تب میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ اچھا بھلا شریف حسین جانے کیوں بابا کی پری اور پرنسز ڈول بننا پسند کرتا ہے۔ لیکن اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شریف حسین جیسے لوگ اپنی نیت میں کس قدر سچے ہیں۔ بلکہ ان کا یہاں ہونا تو باعث رحمت ہے۔
ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئیے، ایک فیک آئی ڈی کیسے ہمارے اخلاق باختہ معاشرے کو سہارا دئیے ہوئے ہے۔ ان فیک آئی ڈیز کی بدولت کتنی ہی ثانیہ ارشد ہیں جو اپنا وقت خیر و عافیت سے یہاں گزار لیتی ہیں اور رزق کی تلاش میں سرکرداں کتنے ہی محمد حسان ہیں جو آوارہ مزاج نوجوانوں سے بچے رہتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف یہ پرنسز ڈولز والے شریف حسینوں کی کمائی کا بھی ایک بڑا ذریعہ ہے بلکہ ساتھ ساتھ ان پلے بوائز کی نفسیاتی تشفی کا سامان بھی ہے۔ میں تو اسے نفسیاتی عارضہ ہی کہوں گا کہ جب یہاں جنسی خواہشات پوری کرنے کو ہر طرح کا سامان میسر ہے تو پھر موبائل فون پہ خواتین کو تنگ کر کے یا پرنسز ڈول والے شریف حسین سے اپنی تسکین کا سامان کرنے کو نفسیات کے کھاتے میں ہی ڈالا جائے گا، جنسیات کے نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرا تو ماننا ہے اس منافق معاشرے میں فیک آئی ڈی کا کردار دراصل شاہی محلے کی اس طوائف کا سا ہے جس کے بارے میں منٹو نے کہا تھا کہ اگر یہ طوائفیں ہمارا گند سمونے کو موجود نہ ہوں تو ہمارے گلیاں، بازار غلاظت سے اٹے پڑے ہوں۔
صاحبو ! آپ بے شک اس شریف حسین المعروف پرنسز ڈول کو لعن طعن کرتے رہیں، میں تو اسے خراج تحسین ہی پیش کروں گا۔
بہت سے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اپنے بابا کی جان ! تجھے سلام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply