لاوارث بلوچستان کے لاپتہ مظلوم۔۔سازین بلوچ

2 دسمبر 2017 کی شام جب میں اپنے فیملی کے ساتھ باہر گئی ہوئی تھی، تو اسی دوران ایک شخص ملنے گھر آیا تھا۔ بہن نے کال کر کے امی کو اطلاع دی کہ  فلاں  شخص ملنے آیا ہے۔ہم جب تک گھر پہنچے تو وہ وہاں سے جاچکا تھا اور ملنا نصیب نہیں ہوا۔

ایک دن یوں ہوا کہ اُسے تیز بخار نے آن گھیرا،بیوی کے لاکھ روکنے پر بھی اُس نے مغرب کی اذان گھر کی بجائے مسجد میں ہی ادا کی،لیکن پھر جانے کیوں صرف فرض پڑھ کر واپس گھر کی جانب چل پڑا،ابھی گھر سے کچھ فاصلے پر ہی تھا کہ کچھ نامعلوم افراد نے اُسے اغواء کرلیا۔

عشا کے بعد بھی جب اُس کی گھر واپسی نہ ہوئی تو بیوی کو سو  طرح کے وسوسے ستانے لگے،اُس نے قریب ہی واقع اپنے میکے فون  کرکے اپنے والد کو شوہر کے ابھی تک گھر نہ پہنچنے کی اطلاع دی ،گاؤں میں چونکہ  چھوٹے سے چھوٹا واقعے کی خبر بھی فوراً ہی ہر گھر تک پہن چ جاتی ہے،سو یہ بات بھی اُس کے والد کو چند منٹ بھی معلوم ہوچکی تھی،لیکن اُنہوں نے بیٹی سے ایسا ذکر نہ کیا ،اور اُسے تسلی دی کہ ہوسکتا ہے تمہارا شوہر کسی دوست کے پاس بیٹھ گیا ہو،آجائے گا،تم پریشان مت ہو،اور بچوں کو سُلا دو۔۔۔۔

تمام رات اسی پریشانی میں گزر گئی،صبح اُس نے چھوٹے بچوں کو تیار کرکے سکول بھیجا،اور بڑے بیٹے کو کہا کہ باہر جاکر لوگوں سے پوچھو کہ انہوں نے تمہارے باپ کو کہیں جاتے دیکھا کیا؟،اور انہیں بتاؤ کہ وہ ساری رات سے گھر نہیں آیا،بیٹے کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اپنے نانا کے گھر چلا گیا،جہاں جاکرنانا کی زبانی سچائی جان کر اُس کے قدموں تلے سے زمین سرک گئی۔۔نانا نے حوصلہ دیا کہ کچھ نہیں ہوگا،ہم تمہارے ابو کو تلاش کرلائیں گے۔

بیٹا گھر گیا اور جاکر ساری بات ماں کو کہہ سنائی۔۔شوہر  کے اغوا کا سن کر اُس کی حالت بھی غیر ہونے لگی،بیٹا ماں کو سینے سے لگائے تسلیاں دینے لگا کہ اماں پریشان مت ہو،بس دعا کرو کہ ابو صحیح سلامت گھر واپس لوٹ آئیں ۔۔۔اور اُنہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔۔

(اُس شام ہمارے گھر   فون آیا کہ چند روز پہلے جو شخص آپ کے گھر آپ سے ملنے آیا تھا،اُسے اغوا کرلیا گیا  ہے)

آس پڑوس میں عجب افسردگی کا ماحول تھا،یوں لگتا تھا جیسے اس سے بھی بڑی کوئی انہونی ہونےوالی ہو۔۔۔اُس کا چھوٹا بیتا صبح سے ہی بار بار ایک ہی بات دہرائے جارہا تھا کہ آج ابو گھر آجائیں گے،آج ابو گھر آجائیں گے۔۔لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ  یوں آئے گا کہ پھر اُسے خود روانہ کرنا پڑے گا ،وہ بھی ابدی سفر پر۔۔۔

14 روز بعد،19 دسمبر کوبچے ے ماموں نےآکر اپنی بہن کو اطلا ع دی کہ فلاں ہسپتال میں تمہارے شوہر کی میت منتقل کردی گئی ہے،کس نے کروائی ہے،نہیں معلوم۔۔۔

تو اس شخص کی موت کا سُن کر میرے اپنے زخم ہرے ہوگئے تھے،میرے   ذہن میں  وہ اذیت ناک   منظر پوری آب و تاب سے آج بھی زندہ تھا، جب ایک شخص صبح صبح چیختے ہوئے ہمارے داخل ہوا اور اطلاع دی کہ تماہرے بھائی کی لاش گاؤں کے قبرستان کے پاس پڑی ملی ہے، اُسے سات گولیاں ماری گئی تھیں ۔۔۔گھر میں صفِ ماتم بچھ چکی تھی۔۔کوئی نہیں جانتا کہ اس بربریت کے پیچھے کیا کہانی تھی،لیکن ہمارا ہنستا بستا گھر تو ماتم کدہ بن چکا تھا۔ماں بین ڈال ڈال کر بیٹے کی میت سے مخاطب تھی،کہ کیسے بے شرم ہوتم پہلے مجھے روتا دیکھ کر خود رونے لگتے تھے،اور آج ایک آنسو بھی صاف نہیں کررہے ہو،اور کبھی ہتی کہ یہ کس کی میت ہے،کیوں سب لوگ ور رہے ہیں ،یہ میرا بیٹا نہیں ہے۔۔میرا بیٹا تو باہر گیا ہے،تھوڑی دیر میں آجائے گا،

آج اس حادثے کو پورے دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے،ماں اپنی ذہنی توازن کھو چکی ہے۔

وہ شہید شخص کوئی اور نہیں میرے سگے چچا تھے۔۔آخر کیا قصور تھا اُن کا؟کیوں انہیں یوں بے رحمی سے قتل کردیا گیا؟کون ہے جو اُن کے خون کا حساب دے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

بلوچستان کے یہ مظلوم لوگ  ان سوالات کے جواب چاہتے ہیں ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply