ہم رنگِ مستان زیستن۔۔معین نظامی

فارسی کا ایک خوب صورت شعر بہت مشہور اور مقبول ہے۔ ضرب المَثَل کی حیثیت اختیار کر لینے والا یہ دل نشیں شعر گزشتہ تین چار صدیوں میں کسی نہ کسی مناسبت سے کئی قدیم و جدید صوفیوں، عالموں، شاعروں اور ادیبوں کی تحریروں میں نقل ہوتا آیا ہے:
وجد و منعِ بادہ، زاہد این چہ کافر نعمتی ست
منکرِ مَی بودن و ہم رنگِ مستان زیستن
اے زاہد، تم وجد کے بھی قائل ہو اور شراب سے بھی منع کرتے ہو، شراب کا منکر ہونا اور مستوں کی سی کیفیت میں بھی رہنا، یہ کیسا کفرانِ نعمت ہے

بعض کتابوں میں شعر کے متن میں معمولی اختلافات بھی دیکھے گئے ہیں جن سے مفہوم چنداں متاثر نہیں ہوتا۔ مثلاً شاہ عبد العزیز محدث دہلوی(۱۷۴۵ – ۱۸۲۳ء) کی ایک کتاب میں اس کی قدرے مختلف یہ صورت ملتی ہے:
وجد و منعِ بادہ، ای زاہد چہ کافر نعمتی ست
دشمنِ مَی بودن و ہم رنگِ مستان زیستن

مجھے تشفیِ ذوق کے لیے مدتوں اس زور دار شعر کے خالق کی تلاش رہی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس جستجو میں البتہ یہ ضرور معلوم ہؤا کہ یہ زمین غالباً سب سے پہلے شیخ فخر الدین عراقی نے برتی اور اپنے وفورِ جذبہ و احساس اور قدرتِ کلام سے اس کا حق ادا کیا۔ امیر خسرو کی ایک اچھی غزل بھی ملتی جلتی زمین میں ہے لیکن اسے بہر حال خسرو کی نمائندہ غزلوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ زمین اتنی مقبول ہوئی کہ بعد میں مرزا عبد القادر بیدل اور پھر غالب جیسے با کمال تخلیق کاروں نے بھی اس میں طبع آزمائی کی اور ایک سے بڑھ کر ایک اچھا شعر کہا۔ غالب کی غزل کا آخری مصرع تو جانِ سخن ہے اور کہاوت کا درجہ اختیار کر چکا ہے:
در نجف مردن خوش است و در صفاہان زیستن
یعنی زندگی وہی ہے جو اصفہان میں گزرے اور موت وہ جو نجفِ اشرف میں آئے۔

عراقی کو اب تک کے مطالعات کی روشنی میں اس زمین میں فضلِ تقدّم حاصل ہے۔ ان کا مطلع ملاحظہ فرمائیے:
عاشقی دانی چہ باشد، بی دل و جان زیستن
جان و دل در باختن، بر روی جانان زیستن
جانتے ہو عاشقی کیا ہے، بے دل و جاں زندہ رہنا، جان و دل کی بازی لگا دینا اور صرف محبوب کو دیکھ دیکھ کر جینا۔

خسرو کی مختلف زمین میں کہی گئی غزل کا مطلع یہ ہے:
در رہِ عشق از بلا آزاد نتوان زیستن
تا غمش در سینہ باشد، شاد نتوان زیستن
عشق کے راستے میں مصیبتوں سے بچ کر نہیں رہا جا سکتا، جب تک سینے میں محبوب کا غم باقی ہے، خوش باش زندہ رہنا ممکن نہیں ہے۔

حضرتِ بیدل کا مطلع تو موجودہ حالات کے تناظر میں مزید معنی خیز ہو گیا ہے۔ وہ اپنے رنگِ خاص میں کہتے ہیں:
گر بہ این ساز است دور از وصلِ جانان زیستن
زندہ ام من ہم بہ آن ننگی کہ نتوان زیستن
اگر وصالِ جاناں سے دور جیے جانے کا یہی رنگ ڈھنگ ہے تو مَیں بھی اُس ننگ و عار کے ساتھ سانس لیے جاتا ہوں جس کے ساتھ زندہ نہیں رہا جا سکتا۔

حسنِ اتفاق سے کتب خانہء مجلسِ شورای اسلامی، تہران میں محفوظ بیاضِ جمال الدین حسنی میں یہ پوری غزل مل گئی اور شاعر کا نام بھی۔ یہ وہی بیاض ہے جس کے حوالے سے چند دن پہلے قرۃ العین طاہرہ سے منسوب ایک فارسی غزل کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی گئی تھیں اور وہیں اس کے کوائف کے ساتھ ابتدائی تعارف بھی پیش کر دیا گیا تھا۔ لگتا ہے کہ ابھی اس اہم بیاض کے حوالے سے دو ایک بار اور بھی دوستوں کو زحمت دینی پڑے گی۔

سچی بات یہ ہے کہ مجھے اندازہ نہیں ہو رہا کہ ان اشعار نے مجھے زیادہ سرشار کیا ہے یا عظیم اور بد نصیب شاعر کے نام نے زیادہ مسرت دی ہے۔ شاعر ہیں نواب میرزا عبد الرّحیم خانِ خاناں (۱۵۵۶-۱۶۲۷) جو محض کئی زبانوں کے شاعر ہی نہیں، شاعروں، ادیبوں، مصوروں، خوش نویسوں اور موسیقاروں کے پرجوش سرپرست ہی نہیں، اپنے دور کے سب سے بڑے کتاب دوست ہی نہیں، مغل دور کی نمایاں ترین تہذیبی و ثقافتی شخصیت ہیں۔ اکبرِ اعظم سے بھی زیادہ ان کے قصیدے لکھے گئے جنھیں پڑھ کر اپنی اس ادبی روایت پر اعتبار بڑھتا ہے کہ حقیقت و صداقت پر مبنی قصیدہ نگاری میں بھی کیسے کیسے شاہ کار تخلیق کیے جاتے رہے۔

خانِ خاناں کی بد نصیبی یہ رہی کہ انھیں نجی اور منصبی و سیاسی زندگی میں کچھ تلخیاں دیکھنا پڑیں۔ ادبی حوالے سے بھی وہ زیادہ خوش قسمت نہیں رہے۔ جس شخص نے سیکڑوں مقامی اور بیرونی شاعروں کی تربیت و کفالت کی، بیسیوں شعرا کے دواوین مرتب اور محفوظ کروائے، دنیا جہان کی نادر کتابوں پر مشتمل عظیم الشان لائبریری قائم کیں ، خود اس کا دیوان یا مرتب ہی نہ ہو سکا یا محفوظ نہیں رہا۔ ان کی چند خوب صورت فارسی غزلیں اور متفرق اشعار مختلف تذکروں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جنوبی ایشیا یا ایران میں اگر کسی نے انھیں یکجا کیا ہو تو میرے علم میں نہیں ہے۔
خانِ خاناں کا ایک ایک شعر بے حد قیمتی ہے اور اپنے بلند معیار کی بنا پر اس قابل ہے کہ اسے محفوظ رکھا جائے۔ ان کی یہ غزل مجھے دست یاب کسی تذکرے میں نہیں ملتی لیکن ظاہر ہے کہ بعض منابع میں ضرور موجود ہو گی ورنہ اس کا ایک شعر شاید اتنا معروف اور مقبول نہ ہوتا۔ اس تناظر میں اس غزل کا مل جانا اور اس کا خانِ خاناں کی مصدقہ تخلیق ہونا معمولی نہیں، انتہائی غیر معمولی مسرّت ہے۔

خان خاناں سَبکِ ہندی کے سب سے بڑے سرپرست تھے مگر ان کی اپنی شاعری بیشتر سَبکِ عراقی کی خصوصیات رکھتی ہے۔ ان کے کلام میں مضمون آفرینی، خیال بافی، عبارت آرائی اور پیچیدگیِ بیان وغیرہ کے عناصر کم ہیں، کچھ اور ہے جو اسے بڑی تخلیق بناتا ہے۔ تاثیر ہے جو شروع سے آخر تک اپنی گداز گرفت میں لیے رکھتی ہے۔ ان کی یہ غزل یقیناً غالب کے پیشِ نظر رہی ہے اور غالب نے غالباً ان کے ایک شعر کا تو بہ راہِ راست جواب لکھا ہے۔
عبد الرحیم خانِ خاناں کی چھ شعروں کی غزل اور اس کا شکستہ بستہ اردو ترجمہ دیکھیے:
طرزِ دانایان بوَد ہموارہ نادان زیستن
از درون جمعیت و بیرون پریشان زیستن
داناؤں کا شیوہ ہے کہ وہ ہمیشہ نادان سا بن کر زندگی گزارتے ہیں، باطن میں ان کی خاطر جمع ہوتی ہے اور بہ ظاہر وہ پراگندہ حال ہوتے ہیں۔

زندگانی با عزیزان خوش بوَد، ورنہ چہ سود
آبِ حیوان خوردن و چون خضر پنہان زیستن
زندگی اپنے پیاروں کے ساتھ ہی اچھی ہوتی ہے، ورنہ خضر کی طرح آبِ حیات پی لینے اور چھپ کر جیتے رہنے کا کیا فائدہ؟

وجد و منعِ بادہ، زاہد این چہ کافر نعمتی ست
منکرِ مَی بودن و ہم رنگِ مستان زیستن
اے زاہد، تم وجد کے بھی قائل ہو اور شراب سے بھی منع کرتے ہو، شراب کا منکر ہونا اور مستوں کا سا حال بھی بنائے رکھنا، یہ کیسا کفرانِ نعمت ہے۔

وقتِ جان دادن فلاطون این دو حرفی گفت و رفت
حیف دانا مردن و صد حیف نادان زیستن
افلاطون نے جان دیتے وقت یہ دو باتیں کہیں اور چل بسا، دانائی کی حالت میں مرنے اور نادانی میں زندہ رہنے پر افسوس۔

گر وصالِ یار نبْوَد، نیک نبْوَد زندگی
حیف باشد بلبلان را بی گلستان زیستن
وصالِ یار نہ ہو تو زندگی میں کوئی کشش نہیں ہوتی، بلبلوں کے لیے گلستاں کے بغیر زندگی وبالِ جاں ہے۔

خاک بادا، خاک بادا بر سرِ این زندگی
خانِ خانان بودن و بی جانِ جانان زیستن
ایسی زندگی کے سر پر خاک، ایسی زندگی کے سر پر خاک، ہونا خانِ خاناں اور جانِ جاناں کے بغیر جیے جانا۔

اس غزل کا پانچواں شعر نہ بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔ باقی سب اشعار بہت اعلیٰ ہیں اور مقطع تو ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔

بیدل سے غالب کی گہری وابستگی کی روشنی میں امکان ہے کہ اس زمین میں بیدل کی غزل تو ان سے اوجھل نہیں رہی ہو گی لیکن لگتا ہے کہ خانِ خاناں کی یہ غزل بھی ضرور ان کے پیشِ نظر رہی ہے۔ غالب نے گویا خانِ خاناں کے دوسرے شعر کے جواب ہی میں کہا ہے:
راحتِ جاوید ترکِ اختلاطِ مردم است
چون خضر باید ز چشمِ خلق پنہان زیستن
دائمی راحت اسی میں ہے کہ لوگوں سے میل جول ترک کر دیا جائے، خضر کی طرح لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہی زندگی بسر کرنی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور خانِ خاناں کے مصرعے : حیف دانا مردن و صد حیف نادان زیستن کے سامنے غالب کا یہ مصرع بھی رکھیے: حیف کافر مردن و آوخ مسلمان زیستن

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ہم رنگِ مستان زیستن۔۔معین نظامی

  1. سلام
    فارسی دانی کے اس قحط کے عالم میں اس مقالچے کے مولف کو داد۔
    ” “پانچواں شعر نہ بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا
    کا جملہ ذرا زیادتی ہے۔
    مقطع کی موسیقیت بلا شبہ تمام بقیہ اشعار سے فزوں تر ہے۔
    خانخاناں کی تعریفات قدرے مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہیں۔

    بہرحال داد

    اسد علیکاظمی
    پی ایچ ڈی تہران

Leave a Reply to عظمیٰ علی Cancel reply