اکابرین و ہمارا رویہ۔۔سانول عباسی

ہمارا المیہ ہے کہ اپنے لئے کچھ معیار رکھتے ہیں اور دوسروں کے لئے کچھ ،اپنی ذات میں ہم انسانی نفسیات کے عین مطابق ہیں اور باقیوں کو اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ وہ اپنی ذات میں مافوق البشر خصوصیات کا اظہار نہ کرنے لگیں، اور اگر وہ کوئی ایسی خصوصیات کا اظہار کرنے لگیں،تو ہمارے پیمانے بدل جاتے ہیں یعنی کسی صورت بھی ہم دوسروں کی سوچ کو برداشت کرنے پہ راضی نہیں ہوتے ،اوّل تو ہم اپنی ذات میں خود کو گناہوں سے مبرا سمجھتے ہیں مگر کہیں پہ کسی جرم کی نشاندہی ہو بھی جائے تو اپنی ذات کی حد تک، انسان خطا کا پتلہ ہے کہہ کے جان چھڑا لیتے ہیں ،اور دوسرں کی خطا بھی قابل ِتعزیر جرم بن جاتی ہے اور کچھ بھی بس میں نہ ہو تو اس پہ تبریٰ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

ہم سب اپنی دانست میں خود کو خدا سمجھتے ہیں مگر خدائی صفات سے یکسر نابلد ،بےوقوف، اپنے علاوہ ہر شخص راندہ درگاہ محسوس ہوتا ہے، جو ہم سوچتے ہیں  وہی کائنات کی آخری فکری منزل ہے، اس کے بعد تو جو بھی ہو گا خیال محض کے علاوہ کچھ نہیں، اور اگر کوئی اس معیار کے مطابق نہیں سوچ رہا تو وہ باعث تعزیر ہے اور  کڑی سے کڑی سزا کا مستحق ہے، سب سے بڑھ کے ہم جنت دوزخ کے ٹکٹ  جیبوں میں لئے پھرتے ہیں، فرط جذبات میں کسی کو بھی مقرب بنا دیتے ہیں تو آن واحد میں کوئی ملعون ٹھہرتا ہے، اپنے نتیجے کا علم نہیں مگر مکمل یقین کے ساتھ یہ ٹکٹیں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔

ہمارا رویہ علمی نہیں تکذیبی ہے ،ہم جب بھی خالص علمی معاملات کو اپنے موجود ہ علم کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا خیال ہمارے اکابرین کے خیال سے قدرے مختلف ہوتا ہے اور یہ اختلاف ہونا بھی چاہیے، کیونکہ ہر زمانہ وقت کے حساب سے اپنی علمی معراج کو تبدیل کرتا رہتا ہے ،جو انسان کے سماجی و فکری زاویوں کو بھی بدل دیتا ہے، اور ہر مفکرکو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ فکری جمود ممکن ہی نہیں۔

مگر ہم اپنے خیال کو بنیاد بنا کر اکابرین کو راندہ درگاہ تصور کرنے لگتے ہیں ،جو کہ خالصتاً علمی بددیانتی کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کے زمرے میں بھی آتا ہے، اکابرین نے فی زمانہ موجود علم کی بنیاد پہ اپنی طرف سے موجود مخاطبین کے لئے مکمل خلوص کے ساتھ بہترین خیال پیش کیا ،اب وہ گزر گئے، اللہ تعالی کی تمام رحمتیں و برکتیں نازل ہوں ان پر، اب معاملہ اللہ رب العالمین کے سپرد ہے، اللہ تعالی ان کے ساتھ جو بھی معاملہ فرمائیں گے وہ انکا اور رب العالمین کا معاملہ  ہے،نہ ہماری ڈومین ہے اور نہ ہی اختیار، ہم بس یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ سب اپنی دانست میں مخلصانہ فکر کی ترویج کرتے رہے۔

فکری جمود سماج کو تعمیر و ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب دھکیل دیتا ہے، دین اسلام قیامت تک کا دین ہے ،اس میں فکری جمود کا تصور ہی ناممکن ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے شاہکار کائنات کے لئے ایک ایسا پیغام دیا ہو جو اسے فکری جمود کے ساتھ ساتھ ماضی کے دھندلکوں میں بھٹکتا چھوڑ دے؟۔۔ ہرگز ہرگز ممکن نہیں، وہ خدا جو قدم قدم پہ ہر نئی سے نئی فکر کو ناصرف خوش آمدید کہتا ہے بلکہ ہر آنے والے کو اپنے طور پہ اکساتا ہے کہ اس کائنات پہ غور کرو ،علم کے اس بحرِ بیکراں میں گم ہو کر جو موتی چن سکتے ہو اپنی جھولی بھر لو ،اور  جوموتی بکھیر سکتے ہو بکھیرو، آنے والا بہترین کل تمہارا منتظر ہے ،تم خدا کو اپنی محبت میں منتظر پاؤ گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ماضی ہمارا گزرا ہوا کل ہے اور کل جو آج کے موجود علم کے تناظر میں فکری غلطیاں ہوئی بھی ہیں تو انہیں حال میں بہتر بنا کے مستقبل کا سفر بہتر بنانا ہی ہماری اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیے ،ناکہ لکیر پیٹتے رہیں، اکابرین پہ طعن و تشنیع کے نشتر چلاتے رہیں ،جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہو وہ لوگ مسائل کو سلجھانے کی بجائے عوام الناس کو وہیں غلطیوں کے بھنور سے نکلنے ہی نہیں دیتے، نئے سے نئے طریقوں سے سادہ لوح لوگوں کو الجھائے رکھتے ہیں، ہمیں سوچنا ہے، فیصلہ کرنا ہے، خود کے لئے ،اپنے بچوں کے لئے، کہ وہ بھی اسی طرح ماضی کے دھندلکوں میں لکیر پیٹنے کے عمل کو جاری رکھیں یا کائنات کی وسعتوں میں اپنا مقام تلاش کریں، اور قرب کی منزلوں پہ متمکن ہو جائیں۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply