حدیث اور سنت کا فرق -ڈاکٹر طفیل ہاشمی۔قسط6

گزشتہ اقساط میں  اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ سنت سے مراد وہ طریقہ ہے جسے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے أمر دین کے طور پر سماج میں رائج فرمایا اور زبانی اور عملی طور پر اس کی تعلیم و تربیت دی،جبکہ حدیث اس قول، فعل اور تصویب کا نام ہے جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب ہے اور جس کے ثبوت کے متعدد معیار مقرر ہیں. ابتدائی صدیوں میں ہی ایسے لوگ بکثرت پیدا ہو گئے جنہوں نے حدیث رسول کے تقدس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے مشن کے طور پر اپنے باطل عقائد، افکار اور نظریات کو احادیث کے قالب میں بیان کرنا شروع کر دیا جس کی روک تھام کے لیے علماء اسلام نے یہ طے کیا کہ جو شخص بھی کوئی حدیث بیان کرے اسے سند کے ساتھ بیان کرے یعنی یہ بتائے کہ اس نے کس سے سنی اور اس کے استاذ نے کس سے اور یہ سلسلہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم تک مسلسل بیان کیا جائے.

سلسلہ سند کے چلن کے باعث ضرورت محسوس ہوئی کہ ان ہزار ہا لوگوں کے حالات سے آگاہی حاصل کی جائے جو رواۃ حدیث ہیں. ان کے حالات جاننے اور قلمبند کرنے کے لیے ایک الگ موضوع علم وجود میں آیا جسے علم جرح و تعدیل کہتے ہیں. اگرچہ احادیث وضع کرنے والے زیادہ چالاک تھے اور انہوں نے صرف متون حدیث text of traditions ہی نہیں وضع کیے بلکہ ایسی اسناد chains of narrators بھی ان کے ساتھ نتھی کر دیں جن پر کوئی اعتراض نہ کیا جا سکے تاہم محدثین نے بلاشبہ محیر العقول کاوشیں کر کے انسانی بساط کی حد تک اسناد کے پہلو سے احادیث کے بارے میں ممکنہ اطمینان حاصل کرنے کی سعی کی ہے.

اسناد کی بنا پر احادیث کو وحی کا تقدس دینے کے حوالے سے یہ امر پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ جن ائمہ حدیث نے علم جرح و تعدیل کی اساس پر اپنی تالیفات مدون کیں انہوں نے در حقیقت سنت متداولہ پر نہیں بلکہ تاریخ پر اپنی تالیفات کی بنیاد رکھی کیونکہ جرح و تعدیل کا مفہوم یہ ہے کہ آپ شخصیات کے احوال و آثار اور سیر و سوانح کا مطالعہ کر کے ان کے قابل اعتماد یا بے اعتبار ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں. سوانحی ادب تاریخ کی قسم ہے نہ کہ وحی کی. یہی وجہ ہے کہ جب کسی حکم شرعی کا تمام تر دار و مدار ایک راوی پر آ جاتا ہے اور حدیث خبر واحد ہو جاتی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخی معلومات کی بنا پر حکم شرعی ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں؟

اس امر کے شواہد ہمیشہ انسانی سماج میں موجود رہے ہیں اور عہد نبوی اور عہد صحابہ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں کہ ایک شخص کے بیان پر اعتماد کر لیا گیا لیکن اس کے لیے circumstantial evidence کا مطالعہ کرنے کا بھی معمول رہا ہے اور اعتماد کے دوسرے ذرائع کے حوالے سے تحقیق کا بھی. اس کے باوجود اس خبر کو وہ حیثیت حاصل نہیں تھی جو سنت متداولہ کو ہوتی تھی.
یوں بھی کسی منفرد راوی کے بیان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالة قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر نبی کو منصب نبوت کا اعتبار دے دیا جائے، جو ارباب دانش کی نظر میں ہمیشہ محل نظر رہا ہے.

رواۃ کی جرح و تعدیل کے بارے میں ائمہ حدیث کے فیصلے اجتہادی فیصلے ہیں. اگر ان اختلافات کا موازنہ کیا جائے جو ان ائمہ کرام کے درمیان مختلف شخصیات کا مرتبہ اور حیثیت متعین کرنے میں کتب جرح و تعدیل میں مذکور ہیں تو شاید قرن اول اور عہد تابعین کی اکثریت ہی جرح سے محفوظ ملے گی، جوں جوں ہم سلسلہ سند میں نیچے اترتے جائیں گے تو محسوس کریں گے کہ”شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا”۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مثال کے طور پر امام حاکم وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے صحیح بخاری کے بارے میں یہ رائے دی کہ “کتاب اللہ کے بعد روئے زمین پر سب سے صحیح کتاب یہی ہے” پھر اس کے تکملہ اور تتمہ کے طور پر المستدرک لکھی تاکہ اسے بھی وہی مقام حاصل ہو جائے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ حاکم نے ایسی روایات بھی درج کر دی ہیں جن کے بالائی راوی بخاری کے راوی ہیں اور زیریں راوی وضاع و کذاب ہیں.
اس موقع پر میں متعدد اساطین امت کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کی ناگوار آرا ذکر کر کے قارئین کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تاہم اہل علم جانتے ہیں کہ کوئی بھی امام مجتہد اور محدث کبیر مکمل طور پر جرح سے بالاتر نہیں ہے، اس لیے یہ کہنا بے جا نہیں کہ ایسے بیانات حسن عقیدت، سوء ظن، قلت و کثرت معلومات سے بالا تر نہیں ہوتے.
( جاری ہے)

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply