عالمی یومِ یتامیٰ ۔۔راحیلہ کوثر

پاکستان سمیت مسلم دنیا میں 15رمضان المبارک کویوم یتامیٰ کے طور پر منایاجاتا ہے۔
وطن عزیز سمیت دنیا بھر میں غیر سرکاری سطح پر یتیم بچوں کی خدمت کرنے والی این جی اوز نے ”پاکستان آرفن کیئر فورم“ تشکیل دیا ۔اس فورم میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان،قطر چیرٹی‘ صراط الجنۃ ٹرسٹ، خبیب فاؤنڈیشن،سویٹ ہومز‘ فاؤنڈیشن آف دی فیتھ فل‘ ہیلپنگ ہینڈفار ریلیف اینڈ ڈیویلپمنٹ، مسلم ایڈ، اسلامک ریلیف پاکستان،ہیومن اپیل، ریڈ فاؤنڈیشن، غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، تعمیر ملت فاؤنڈیشن، ایدھی ہومز اورانجمن فیض الاسلام شامل ہیں۔جو اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے یتیم بچوں کی خدمت کررہے ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے متفقہ قرارداد منظور کیں کہ 15رمضان المبارک کو یتامیٰ کا عالمی دن منایا جائے، اس سے قبل اسلامی ممالک کی تنظیم اور آئی سی نے بھی اپنی قرارداد نمبر 1/40 ICHAD آرٹیکل نمبر 21 میں تمام اسلامی ممالک پر زور دیا کہ وہ 15رمضان المبارک کو یتامیٰ کے دن کے طورپر منائیں۔

بحیثیت مسلمان ہمارا کامل یقین ہے کہ یتیم کی کفالت اللہ کی شکر گزاری اور روز قیامت نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے بہترین عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔تیم کے حقوق پر اسلام نے بہت زور دیا ہے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں تئیں مختلف مواقع پر یتیم کا ذکر کیا گیا ہے ۔
علاوہ ازیں نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کے اقوال سے بھی کفالت یتامیٰ کی ترغیب ملتی ہے۔

اللہ تعالی نے اپنے محبوب ترین بندے سید المرسلین خاتم النبیین ﷺ کو حالتِ یتیمی میں پیدا فرمایا کہ آپ ﷺ کے والد ماجد آپﷺ کی ولادت با سعادت سے بھی پہلے وصال فرما چکے تھے۔ پھر چھ سال کی عمر میں ہی آپ ﷺکی والدہ ماجدہ بھی انتقال فرما گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی اس کیفیت کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا ہے :’’(اے حبیبﷺ!) کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر اُس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانہ دیا‘‘پھر اس دُرِّ یتیمﷺ نے یتامیٰ کی محبت، ان کے ساتھ شفقت و حسنِ سلوک اور اِحسان برتنے کی نہایت اعلی مثالیں قائم کیں۔آپﷺ نے یتیموں کی کفالت کرنے والے کو جنت کی خوش خبری دی اور اُن کے حقوق پامال کرنے والے کو درد ناک عذاب کی وعید سنائی۔ قرآن حکیم کہتا ہے :’’سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیں‘‘۔ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’اوریہ آپ سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں : اُن (کے معاملات) کا سنوارنا بہتر ہے، اور اگر اُنہیں (نفقہ و کاروبار میں) اپنے ساتھ ملا لو تو وہ بھی تمہارے بھائی ہیں، اور اﷲ خرابی کرنے والے کو بھلائی کرنے والے سے جدا پہچانتا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)

سورۃ الماعون میں فرمایا گیا:کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے (یعنی یتیموں کی حاجت اور ضرورت کو پورا نہیں کرتا اور اُنہیں حق سے محروم رکھتا ہے)اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا (یعنی معاشرے سے غریبوں اور محتاجوں کے معاشی اِستحصال کے خاتمے کی کوشش نہیں کرتا)‘۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا :’’مسلمانوں میں سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ)حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’قسم ہے اُس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت اُس شخص کو عذاب نہیں دے گا جس نے یتیم پر شفقت کی،اس سے نرمی سے گفتگو کی،اور معاشرے کے محتاجوں و کمزوروں پر رحم کیا، اور جس نے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہونے والی عطا کی وجہ سے اپنے پڑوسی پر ظلم نہ کیا۔

رسولِ اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، پھراپنی شہادت والی اور در میان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور انہیں کشادہ کیا۔(صحیح بخاری)
یہ اللہ تعالیٰ کا نظام اور کسی معاشرے کا امتحان ہے کہ ان بچوں سے معاشرہ کیا سلوک کرتاہے، ان کو قومی و ملی سرمایہ خیال کرتاہے یا کوئی محکوم اور محتاج سمجھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یتیم بچّہ، شفقتِ پدری سے محروم ہوکر رشتے داروں اور معاشرے کے رحم و کرم کا محتاج ہوجاتا ہے۔ یتیم کی کفالت اور پرورش کرنا، انہیں تحفظ دینا، ان کی نگرانی کرنا اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ایسا صدقہ جاریہ ہے کہ جس کے اَجر و ثواب کا اللہ نے خود وعدہ کر رکھا ہے۔جبکہ یتیموں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کوسخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا گیا ہے ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمے داری ہے کہ ہم آگے بڑ ھ کر اپنی زبان، عمل اور رویوں سے معاشرے کو یتیم دوست بنائیں۔ یہ بچے ہماری توجہ اور پیار کے متلاشی ہیں ۔ اپنے ارد گرد کے یتیموں کی بڑھ چڑھ کر مالی امداد کریں اور وہ ادارے جو ان کی کفالت کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، اپنی زکوات و صدقات سے ان کی بھر پور مدد کر کے اس ماہ رمضان اللہ کی رضا و خوشنودی کا حصول یقینی بنائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply