• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کشمیر نے پوری دنیا لاک ڈاؤن کر دی۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

کشمیر نے پوری دنیا لاک ڈاؤن کر دی۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

آج کورونا وائرس کی وجہ سے مسلم اُمہ سمیت پوری دنیا لاک ڈاؤن میں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت پوری دنیا کے سائنسدانوں کو” کورونا وائرس” کے بارے میں کوئی مصدقہ ریسرچ نہیں کہ یہ کیا بلا ہے ،کس طرح افیکٹ کرتا ہے۔ابھی تک کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا،لیکن پوری دنیا جمود کا شکار ہے۔ تسخیر کائنات کے دعوے کرنے والے اتنے بے بس ہیں کہ روزانہ ہزاروں لاشے اٹھا رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں۔ نیویارک جیسے شہر میں لوگ گھروں میں مر رہے ہیں۔ لوگ مرنے والے کو اٹھا کر گھر سے باہر رکھ دیتے ہیں، میونسپلٹی کی وین لوگوں کی لاشوں کو لاد کر یا تو برن ہاؤس لے جاتی ہے ،یا دور دراز کسی گہری کھائی میں گرا دیا جاتا ہے۔

بالکل اسی طرح جس طرح کشمیر میں ہو رہا ہے۔ لیکن اتنا فرق ضرور ہے کہ کشمیری اپنے پیارے کو غسل, کفن دفن دے کر اپنے ہی گھر میں دفن کرتے ہیں۔ اور باقی دنیا بشمول مسلمان مرنے سے دفن ہونے تک نشان عبرت بن چکے ہیں۔
273 دن پہلے کشمیر سے شروع ہونے والا لاک ڈاؤن پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

کشمیر میں ظلم, بربریت, سفاکی, ریپ, قتل, کی وہ مثال قائم کی گئی ہے لیکن نہ کوئی محمد بن قاسم آیا اور نہ صلاح الدین ایوبی۔یہاں پر کسی کی بیٹی کالج سے واپسی پر  10 منٹ لیٹ جائے تو گھر والوں پہ قیامت پربا ہو جاتی ہے ۔۔ لیکن کشمیر کی شہزادیوں کو والدین کے سامنے وحشی درندے اٹھا کے لے جاتے ہیں اور بعد میں ان کی بھبھوڑی ہوئی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔۔۔ کیا کوئی اس درد کا اندازہ کر سکتا ہے ؟

273 دن گزر گئے۔ ہزاروں بچے مارے گئے۔ ہزاروں بیٹیاں عصمت دری کے ساتھ ساتھ اذیت ناک موت سے دوچار ہوئیں۔
جب ظلم ہوتا ہے تو مظلوم کی آہ عرش ہلا دیتی ہے۔ اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ایک مظلوم کشمیری لڑکی کی آہ یاد آ رہی ہے ،جو اس نے ٹی وی کیمرہ مین کے سامنے جھولی پھیلا کے اللہ کے حضور روتے ہو ئے دعا کی تھی کہ” اے اللہ رب العزت ساری دنیا کو اسی طرح بند کر دے جس طرح ان لوگوں نے ہمیں بند کیا ہوا ہے تاکہ ان کو بھی اس اذیت کا احساس ہو , جس سے ہم گزر رہے ہیں “۔

ذرا غور کیجیے ، آج پوری دنیا کے لوگ اسی خوف کی فضا میں گھروں میں بند ہیں جس طرح وہ کشمیری لڑکی بند ہے۔
کیا یہ کوئی اتفاق ہو سکتا ہے ؟
لیکن نہیں۔۔۔۔ یہ اتفاق نہیں۔
اس مظلوم کی دعا نے شرف قبولیت حاصل کیا اور پوری دنیا کشمیری لاک ڈاؤن کا شکار ہو گئی۔

مظالم کی ایک طویل داستان ہے جو مسلمانوں پہ ڈھائی گئی۔ 9/11 کے بعد طاقت کے نشے میں بدمست ہاتھی اسلامک ورلڈ کو روندتا چلا گیا۔افغانستان سے لیکر فلسطین تک پوری دنیا کے مسلمانوں پہ ظلم کے ایسے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔
معصوم بچوں بڑوں کو زندہ جلایا گیا۔
ریپ کی ایسی خوفناک تاریخ رقم کی گئی کہ عراق کی جیلوں میں بند مسلمان بچیوں کی کوکھ میں یہودی فوجیوں کے بچے پلنے لگے اور پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ بچہ کس کا ہے ،موقع ملتے ہی وہ معصوم بچیاں موت کو گلے لگا لیتی تھیں ، لیکن ان کو مرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔
برما سے لیکر میانمار تک زندہ مسلمانوں کے اعضا کاٹ کے ان کا گوشت پکا کے کھایا گیا اور ساتھ ساتھ کتوں کو بھی کھلایا گیا۔انسانیت کی تذلیل کی ایسی خوفناک داستانیں رقم کی گئیں کہ دنیا ہلاکو سے ہٹلر تک کے مظالم بھول گئی،یقین کیجیے۔۔ ان مظالم پہ لکھنے بیٹھتا ہوں تو دل گھبرانے لگتا ہے، ہاتھ کانپنے لگتے ہیں،دل خون کے آنسو روتا ہے۔
کفار نے تو جو کیا سو کیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام مظالم میں مسلمان یا تو خاموش رہے یا بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک جرم رہے ۔اور پھر ان مظلوموں کی روحیں بارگاہِ الٰہی میں پہنچیں،آپ کو یاد ہو گا جب عین لڑائی کے وقت ایک عراقی بچی نے بھاگتے وقت کہا تھا”انکل خدا کے واسطے میری تصویر مت بنانا, میں بے حجاب ہوں “۔
ایک فلسطینی بچہ بھوک سے نڈھال ہو کے رب سے التجا کرنے لگا”یا اللہ مجھ سے میری زندگی لے لَے ،تاکہ میں جنت میں جا کے پیٹ بھر کے کھانا کھا سکوں “۔
افغان جنگ میں ایک بچے کا بازو بری طرح زخمی ہو گیا۔ ڈاکٹروں کے پاس بازو کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ جب وہ بازو کاٹنے لگے تو بچہ کہنے لگا “انکل بازو کاٹ دینا لیکن میری آستین بچا لینا۔ میرے پاس اور کپڑے نہیں “۔
اور ایک معصوم شامی دم توڑتی بچی نے کہا تھا”میں اپنے رب کو جا کے سب کچھ بتاؤں گی “۔اور اس نے جا کے بتا دیا تو اللہ رب العزت کی طرف سے احتساب کا عمل شروع ہو گیا اور پوری دنیا اسکی لپیٹ میں آگئی۔
اس احتساب کو دنیا نے کورونا وائرس کا نام دیا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی ٹیکنالوجی, معیشت, زندگی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ کہکشاؤں کو تسخیر کرنے کے دعویدار پل بھر میں گھٹنوں کے بل گرے اور کسی آسمانی معجزے کا انتظار کرنے لگے۔
اٹلی کے وزیراعظم کی بے بسی اور اس کے الفاظ پہ غور کیجیے”کہ زمین کے تمام وسائل استعمال کر چکے, اب آسمان سے کسی معجزے کا انتظار ہے “۔یہ فقرہ ایک کافر کی طرف سے رب کے قادر مطلق ہونے کا اقرار ہے،لیکن ہم کشمیر ڈے پہ بس ایک ریلی نکال کر انجوائے کرتے رہے۔۔۔ کیا یہی درد کا مداوہ ہے ؟۔
کشمیر اور اس میں رہنے والے مظلوم کشمیری عوام جو گزشتہ 273 دن سے بھارتی فوج کے ظلم و بربریت اور قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں، سکول و کالج، مارکیٹیں، دوکانیں، اخبارات، موبائل-فون، انٹرنیٹ، مساجد اور سبھی راستے بند کر دیئے گئے۔

کیا ہمارے دل میں احساس کی کوئی کرن باقی نہیں جو کشمیر کی آزادی کے لیے عملی طور پہ کوئی کردار ادا کر سکے، کیا ہم روزانہ اپنے گھربار اور معمولاتِ زندگی میں یونہی مشغول و مگن رہیں گے۔ کیوں ان کشمیریوں کی محبت ہمارے دلوں کو نہیں گرماتی۔؟ آخر ہم کیوں بےحسی کی چادر اوڑھے غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔؟ کیا ہماری صلاحیتیں کشمیر کے لیے کام نہیں آ سکتی۔؟ ہم تہہِ دل سے کشمیریوں کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے۔؟ ہم ان کے درد کو اپنا درد سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔؟

وہ کشمیری جو ہر قدم پہ پاکستان کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ لیے نکلتے ہیں، وہ کشمیری جو پاکستانیوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کیا ہم ان کی امیدوں پہ پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں۔؟ آپ خود سے سوال کیجیے اپنے گریبان میں جھانکیے کہ ہم نے کشمیری مظلوم مسلمانوں کے لیے کس حد تک کوشش کی، کیا ہمارے دل کو دنیا کا آسائش  و آرام تو نہیں بھا گیا، جی ہاں! ہمیں امت مسلمہ اور اسلام سے محبت برائے نام ہے، ہم اس احساس سے محروم ہو چکے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہمارے اسلاف نے محسوس کیا، اگر آپ کشمیر کی حالتِ زار کو خود اپنی ذات پہ محسوس کریں تو شاید آپ کا ضمیر آپ کو جھنجوڑے اور چیخ کر کہے کہ اب بھی دعا ہی کرو گے۔؟ کیا اپنے دفاع کے لیے اپنا ہاتھ، قدم، قلم، آواز، کیمرہ، ہنر، فن استعمال نہیں کرو گے۔؟
ضرور استعمال کرو گے بلکہ آخری سانس تک جدوجہد اور لڑائی کرو گے، اپنی چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے ہر شئے کو بروئے کار لاؤ گے،لیکن کشمیر تو اپنا نہیں، ہے ناں۔؟

خدا کے لیے اپنے آپ کو جگائیے، کشمیری اور کتنے جنازے اٹھتے دیکھیں گے، کتنے بچے یتیم ہوں گے، کب تک وہ مائیں بیٹوں کا سوگ مناتی رہیں گی۔؟
اگر احساس ہو تو اٹھائیے کشمیر کے لیے اپنی آواز، قلم اور قدم تا کہ کل کشمیری اللہ کے دربار میں حاضر ہو کے تمہارا گریبان نہ پکڑ سکیں۔6 سال کی نمرہ جس کا سارا خاندان آہستہ آہستہ موت کی وادی میں اتر چکا ہے۔۔۔ وہ آج کے محمد بن  قاسم سے پوچھتی ہے۔

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اللہ رب العزت آپ سب کو حق کا ساتھ دینے کی جرات عطا فرمائے آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply