• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پینتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پینتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

خبریں آرہی ہیں کہ نو مئی سے لاک ڈاؤن ختم کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم صاحب نے یہ فرمان بھی جاری کر دیا ہے کہ “اگر عوام نے احتیاط نہیں کی تو دوبارہ سے لاک ڈاؤن لگایا جا سکتا ہے”
تو گویا وہ لاک ڈاؤن ختم کر کے عوام کا امتحان لے رہے ہیں کہ یہ احتیاط کرتے ہیں یا نہیں۔۔

حالیہ دنوں میں جب ملک کے سینئر ڈاکٹرز اور سماجی سائنس دان بار بار اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں سختی نہیں کی گئی اور عوام نے مکمل احتیاط سے کام نہیں لیا تو پھر آنے والے دن خطرناک صورتحال اختیار کر سکتے ہیں۔

اس ہفتے کرونا کے کیسز میں حیران کن طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں کورونا وائرس کے مریضوں کی مجموعی تعداد چوبیس ہزار چھ سو سے تجاوز کر چکی ہے اور اب تک پانچ سو پچاسی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

کیا ایسے بحرانی وقت میں وزیراعظم صاحب کے فیصلے کی تائید کی جا سکتی ہے۔۔۔؟ میرے خیال میں وزیراعظم صاحب کو اپنے موجودہ فیصلے پر نظر ثانی کر لینی چاہیے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم دستیابی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کرونا کی ویکسین کو بننے میں ابھی کافی وقت لگے گا یہاں تو کُتّوں کے کاٹنے سے بچانے والی ویکسین تک سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب نہیں ہیں اور اگر دستیاب ہیں بھی تو ڈاکٹروں کی طرف سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر کے، غلط علاج کر کے، اچھے بھلے مریضوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران ہم سب ہی یہ بات اچھی طرح جان گئے ہیں کہ ہمارے ہسپتالوں میں آبادی کے لحاظ سے سہولیات ناکافی ہیں۔ حکمرانوں کی ترجیحات میں یہ نکتہ شامل ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے محکمہ صحت کے بجٹ میں اضافہ کرے۔ موجودہ وبا کے دنوں میں بھی میڈیکل اسٹاف کے لیے کرونا سے بچاؤ کے حفاظتی سوٹ تک صحیح طریقے سے فراہم نہیں کیے گئے۔ اگر اس دوران یہ وبا پھیلتی ہے تو حکومت کس طریقے سے اس پر قابو پانے گی۔۔۔ حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی کر رکھی ہے کیا جس کو وقت آنے پر عوام کے گوش گزار کیا جائے گا۔۔۔؟؟؟ تلخ حقائق کے ہوتے ہوئے آنکھیں بند کر کے خوش فہمیوں میں مبتلا ہونا کوئی دانشمندی نہیں اور نہ ہی اس طرح کے عمل سے تنگ دست عوام کو کوئی ریلیف مل سکتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں نو مئی سے کیا ہوتا ہے۔
مرزا غالب نے کہا تھا؛
ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کیا کِیا خضر نے سکندر سے
اب کسےرہنما کرے کوئی!

اس وقت میں اپنے پڑھنے والوں کو دو ماہ پیچھے لیے چلتا ہوں۔ جب لاک ڈاؤن کا خیال ابھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ وہ سولہ فروری دوہزار بیس کی شام تھی۔ ہم سب دوست “اللّہ والی کالونی” میں واقع کوئٹہ شاہین ہوٹل پر جمع ہوئے۔ وہاں پر ہم نے جو وقت گزارا وہ میں مختصراً یہاں بیان کر رہا ہوں۔۔۔

“اپنے فرصت کے لمحات کو رنگین ترین بنانے کے لیے آج شام (سولہ فروری) کو ہم لوگ اللّہ والی کالونی میں جمع ہوئے۔ یہاں پر بیٹھ کر ہم نے دنیا جہاں کی باتیں کیں اور اُن دوستوں کو یاد کیا جو شہر سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ آج دانیال اپنے ایک دوست کی بد تہذیبی کے سبب بہت افسردہ تھا۔ جب کہ میں اور ماہیوال اپنے حال میں مست دانیال کی افسردہ گفتگو میں مرچ مصالحہ لگا کر اُسے اس بات کا احساس دلاتے رہے کہ ایسے بے مروت دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا کارِ ثواب ہے۔

جانے کیوں لوگ دوستی کے نام پر دوسروں پر برڈن بن کر اپنی رہی سہی ساکھ کو مجروح کرتے ہیں۔ خودداری اور عزتِ نفس جیسی اہم قدریں اب ہمارے معاشرے سے رخصت ہوتی جا رہی ہیں۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیاسی پارٹیوں میں محض اپنے معاشی فوائد کے لیے شمولیت اختیار کر کے ایسے لوگ اپنے ساتھ ساتھ پارٹیوں کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔ دانیال کا مرثیہ ختم ہوا تو ہم لوگ یک زبان ہو کر ایک پرانا ہندی گانا گنگنانے لگے۔۔۔
“جادو تیری نظر، خوشبو تیرا بدن”
اس دوران ماہیوال اپنے کیمرے سے ہماری اچھی اچھی تصویریں بھی بناتا رہا۔ ماہیوال کے ہاتھ میں جادو ہے۔
ایک عام سی تصویر کو بھی وہ اس انداز سے کھینچتا ہے کہ دیکھنے والا تعریف کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا۔ اب شام رخصت ہو کر رات کا لبادہ پہن چکی تھی، کوئی دس بجے کا وقت تھا، اس لیے “اللّہ والی کالونی” سے نکل کر ہم نے فرئیر ہال جانے کا پروگرام بنایا۔ دانیال اور ماہیوال پیدل چلنے کے چور، بضد تھے کہ ہم رکشا میں فرئیر ہال جائیں گے مگر میری یہ فرمائش کہ پلیز پیدل چلو تھوڑا سا ہی تو فاصلہ ہے۔۔۔ آخر کار ہم لوگ پیدل مارچ کر کے فرئیر ہال پہنچے۔

فرئیر ہال میں وہ سرد رات بہت ہی خوشنما تھی۔ عمارت کی اندرونی روشنیاں جل رہیں تھیں۔ ہم ان روشنیوں کے حُسن میں ڈوبے ہوئے دیر تک گھاس پر چہل قدمی کرتے رہے۔ اس کے بعد ماہیوال نے عمارت کے مختلف حصوں کی تصویریں بنائیں۔ ان تصویروں میں فرئیر ہال کی وسیع عمارت بیحد دلکش لگ رہی تھی۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply