دنیا کے منصفو ۔ڈاکٹر مریم اقبال

میں رونا چاہتی ہوں۔۔۔کیونکہ میں ایک ماں ہوں۔
لیکن؟۔۔۔ جی ہاں۔۔میں جانتی ہوں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔۔
ماں بننا تو عورت ذات کی معراج ہے،ماں کے قدموں تلے تو جنت ہے۔۔۔
بجا فرمایا آپ نے۔۔۔لیکن۔۔
میں رونا چاہتی ہوں کیونکہ میں ایک کشمیری ماں ہوں۔۔۔
جس کے لختِ جگر کو اس کی آنکھوں کے سامنے پہلے بینائی سے محروم کیا گیا۔۔اور پھر برہان وانی کے نام کا نعرہ بلند کرنے پر اس کے جسم کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔
جس کی بیٹی کو سرِ بازار گھسیٹا گیا۔۔۔اور اسے بے آبرو کرنے کے بعد اس کی لاش بھی مجھ تک نہ پہنچنے دی۔۔۔

میں ان بچوں کی ماں ہوں جن کا باپ بیس سال سے کسی نامعلوم جیل میں اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔۔۔جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے جگر کے ٹکڑے نعرۂ حق پر قربان ہو چکے ہیں۔۔۔
میں رونا چاہتی ہوں کیونکہ میں وہ بدنصیب ماں ہوں جس کی کوکھ اجڑی تو ،نہ ہی زمین تھرتھرائی اور نہ ہی آسمان سے لہو برسا۔
لیکن میں رو نہیں سکتی۔۔۔کیونکہ میں ہر شہید کی ماں سے ہمیشہ کہتی آئی ہوں۔۔
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم،
رسولِ پاک نے بانہوں میں لے لیا ہو گا،
علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوں گے،

Advertisements
julia rana solicitors london

تو جن کی شہادت پہ قربانی کی رِیت کے پاسبان جھومتے ہوں،ان ماؤں کو نوحہ گری،ماتم۔۔۔زیب نہیں دیتا۔
اس لیے میں مسکرا رہی ہوں۔۔کیونکہ اب سے میں ہر شہید کی ماں ہوں۔۔۔اور شہیدوں کی مائیں رویا نہیں کرتی۔
کیونکہ محبت کے بعد عورت کے خمیر میں گوندھی جانے والی دوسری چیز قربانی تھی۔۔۔
اور ماں ہونے سے پہلے میں ایک عورت ہوں۔۔ایک بہادر عورت!!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply